تحریر: امتیازعلی شاکر:لاہور
رسول اللہ ۖ کی بعث کا ایک مقصد قرآن مجید میں تزکیہ قلب بیان ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے ”وہی ذات ہے جس نے انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کو پڑھ کر سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے” (سورہ جمعہ، آیت:٢) ”تزکیہ قلب دل کی پاکی کو کہا جاتا ہے یعنی انسان کے دل ودماغ کو بے حیائی اور دنیوی آلائشوں سے پاک کرکے اس میں خالق حقیقی،رب رحمان کی محبت ،رسول اللہ ۖ کاعشق پیدا کیا جائے، عام طور پر انسانی نفس کا رجحان جن عوامل کی طرف جلد مائل ہوتا ہے اُن میں زیادہ ترخلاف شریعت ہوتے ہیں، جن میں نفس لطف محسوس کرتا ہے، نفس کی نفی کرتے ہوئے رشد وہدایت اور خیر کی طرف پلٹنے کی محنتوں کو تصوف و تزکیہ سے تعبیر کیاجاتاہے،
تزکیہ بڑی اہمیت کاحامل ہے، انسان کا دل پاک ہوجائے، سوچ وفکر اسلامی اصولوں کے سانچے میں ڈھل جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ صالح اور نیک نہ ہو،انسانی دل پاکیزہ ہوتورب رحمان کاحجرہ جبکہ زنگ آلودہ ہوتوشیطان کاڈیرہ،جس طرح گھرکامالک گھرچھوڑ جائے تواُس میں چور،ڈاکو، منشیات کے عادی،زانی،ظالم قبضہ کرلیتے ہیں ٹھیک اسی طرح اللہ رب العزت کی یاد،محبت رسول ۖسے خالی دل میں سود، زناکاری، شراب نوشی، ظلم وزیادتی، چوری، ڈاکہ زنی سمیت ہزار طرح کے مجرمانہ خیالات سے پررہتاہے۔تزکیہ قلب ایسامرحلہ ہے جسے عبورکرلینے والے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوجاتے ہیں۔دل کی صفائی آپۖ کی سنت مبارکہ پرعمل پیراہوئے بغیرممکن نہیں،جولوگ آپۖ کے نقشے قدم پرچلناشروع کردیتے ہیں انہیں ہم اولیاء اللہ کہتے ہیں۔
ولی کامل کی تربیت اورنسبت کے بغیربھی تزکیہ نفس ممکن نہیں،ولی کامل آنکھوں کے سامنے ہو،ہاتھوں میں ہوتوپھر ذاتی محنت (جدجہد )کی ضرورت پیش نہیں آتی،اولیاء اللہ کی ایک نظر مردہ دلوں کوزندہ کرتی ہے،زنگ آلودہ دلوں کوآئینے کی مانند شفاف بنادیتی ہے۔مجھ جیسے جاہل کی ہی مثال لے لیں ،مرشِد حق سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگامست(معراج دین)کی نسبت حاصل ہوتے ہی دنیا بدل گئی ۔جومزہ مرشِد پاک کی محفل میں آتاہے وہ کسی دوسرے مقام پرحاصل نہیں ہوتا۔بے شک اللہ پاک نے زمین پرزنگ آلودہ قلوب کی صفائی و ستھرائی کااہتمام اپنے ولیوں کے آستانوں پر کیاہے،جب لوگوں کی نسبت ولی اللہ کے آستانے کے ساتھ ہوجاتی پھر وہ اس طرح سنور جاتے ہیں کہ رات کے سناٹے میں بھی ان کا ذہن کسی برائی کی طرف مائل نہیں ہوتا، دولت کے خزانے میں راہ کر بھی دل میں خیانت کا تصور نہیں آتا۔
بے حیائی کے تمام اسباب ووسائل موجود ہوں، پھر بھی طبیعت اس پر آمادہ نہیں ہوتی،اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتاہے”تحقیق کہ وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنا تزکیہ کیا” (سورہ الاعلیٰ آیت ٤١)نبی اکرمۖ کے بعد صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اولیاء اللہ کی صحبت میں وہ تاثیر پائی جاتی ہے جس سے سخت سے سخت انسان کا دل بھی موم بن جاتا ہے، اللہ کا خوف اور آخرت کی تڑپ پیدا ہوتی ہے، انسان کے دل میں تکبر ہے، حسد ہے، بغض ہے، حب دنیا ہے، آخرت سے بے فکری ہے، گناہوں میں دلچسپی ہے، اس طرح کے تمام گندے اوصاف شیطانوں کے مکروفریب اور ان کے بہکاوے سے پیدا ہوتے ہیں،
بزرگان دین مدتوں ریاضت سے جن کے نفوس منجھے ہوئے ہوتے ہیں، وہ شیطان کے مکروفریب کو اچھی طرح جانتے ہیں، ان بزرگوں کی صحبت جو اختیار کرتا ہے اور ان کے توسط سے جو ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے یہ نفوسِ قدسیہ ان کو شیطان اور نفس سے بچنے کی تدبیریں بتاتے ہیں، ان کی ہدایات پر عمل کیا جائے تو بہت جلد نفس کے عیوب کا ازالہ ہوجاتا ہے ، ان کی صحبت سے انسان اخلاقِ فاضلہ، معرفت الٰہی، محبت الٰہی، آخرت کی طرف رغبت کی صفات سے متصف ہوتا ہے۔ پھر وہ کہیں بھی رہے اللہ کی قوتِ گرفت کا احساس ہمیشہ ساتھ رہتا ہے اس کو صوفیا کی اصطلاح میں تصوف وسلوک کہا جاتا ہے۔جس طرح دینی ودنیاوی تعلیم وتربیت کیلئے اساتذہ کی ضرورت پیش آتی ہے اسی طرح تزکیہ بھی اللہ رب العزت کے خاص بندوں کی نسبت میں آنے پرسمجھ آتاہے۔جب سے مرشِد پاک نے مجھ نکمے کاہاتھ تھاماہے تب سے جنت کاشوق ہے نہ دوزخ کاخوف،بہت خوبصورت کلام ہے ”نہ دل دوزخ منگے نہ شوق بہشتی راضی ہو۔
اللہ کے ولی دنیاکوجنت سے خوبصورت بنادیتے ہیں ،ہمیں جس زندگی سے نفرت ہواکرتی تھی مرشِ پاک نے اُس میں ایسے رنگ بھر دیئے ہیں کہ اب جینے میں مزہ آتاہے اورموت بھی یاد ہے ۔مرشِد پاک سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگامست کا ذکر میں پہلے بھی کرچکاہوں ۔دوستوں کے اسرارپرآج اُن کامختصر تعارف کرواتاچلوں۔ آپ روحانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں،آپ عرصہ تیرہ سال تک عالم مجذوبی میں رہے اسی وجہ سے لوگ انہیں نانگا مست کے نام سے جانتے ہیں۔مجذوب کا مطلب ہے جذب ہوجانا۔ آپ 13برس کے طویل عرصہ تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی یاد میں جذب رہے، آپ نے قرب الہٰی کے حصول میں طویل عرصہ ریاضت کی اس ریاضت میں خلوص دل سے اللہ رب العزت کی بارگاہ سے آدمی سے انسان کا رتبہ پانے کی جستجو کی۔پھر اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کی والد ہ ، بزرگوں اور صالحین کی دعائوں سے آپ کی خواہشات اور تواقعات سے بہت زیادہ عطاء کر دیا ۔
اللہ پاک نے آپ کوعالم انسانیت کی فلاح وبقاء کیلئے پسندفرمایاجس کے بعد آپ نے خود کو خدمت انسانی کیلئے وقف کر دیا۔ آپ کی روحانی خدمات کا اعتراف صوفی ازم پر یقین رکھنے والا ہر ذی روح کرتا ہے آپ کا فیض داتا گنج بخش فیض عالم حضورکے نگر لاہورسے پوری دنیامیں جاری ہے۔آپ سادہ شخصیت کے مالک ہیں ،روائتی پیرروںوالی کوئی بات آپ کے قریب سے بھی نہیں گزرتی ۔آپ کی توجہ ہوتے ہی شدت دردسے تڑپتے مریض سکون حاصل کرتے ہیں ۔ بارگاہِ الٰہی میں آپ کی مخلصانہ دعا بہرحال قبولیت کی تاثیر رکھتی ہے، شائد یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ انسان جس طرح کی صحبت اختیار کرتا ہے، مزاج، طبیعت، رجحانات اُسے کے مطابق ہوتے جاتے ہیں، اولیا اللہ کی صحبت میں کوئی مکمل بزرگی اختیار نہ بھی کرے، تب بھی دل میں اللہ رب العزت کی محبت اورعشق رسول اللہۖ پیدا ہوجاتاہے، بندے کواپنے گناہوں پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوتاہے، بزرگوں کی نظر میں وہ کیمیائی اثر ہے جو بہت جلد انسان کو متاثر کرتا ہے،آپکویقین نہ آئے توخود آزمالیں۔
تحریر:امتیازعلی شاکر:لاہور
lahoreccp@gmail.com
03134237099