تحریر: محمد عتیق الرحمن
اللہ کا ہم پر کتنا کرم ہے کہ پہلے رمضان قیام پاکستان کی خوشیوں اور شکر گزاریوں میں گذرا اور پھر ہم پر اگست وارد ہوا جس کی 14 اگست کو قیام پاکستان ہوا تھا۔ اس طرح ہم دو بار قیام پاکستان کو مناتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے آزادی جیسی نعمت سے نوازا۔یہ اللہ کا خاص ہم پرانعام ہے کہ اس نے ہمیں ملک پاکستان جیسی دولت سے نوازا ہے ۔ماہ اگست ایک مہینہ نہیں ،یہ ایک پوری پیڑھی کی جہد مسلسل کا امین ہے ۔برصغیر پر ایک ہزار سال تک حکومت کرنے والوں کی ایک عظیم نسل نے پھر سے دنیا کو باور کروایا کہ مسلمان کبھی بھی غلامی کو پسند نہیں کرتا ۔اگست کا مہینہ جہاں ہمیں آزادی جیسی عظیم نعمت کی یاد دلاتا ہے وہیں اگست کے برستے ساون میں بھیگتی اور قاتلوں کی سنگینوں کے سائے میں لہو بہاتی سرسبز وشاداب منزل پانے کی خاطر لاکھوں قربانیاں دینے والوں کی یاد میں افسردہ بھی کر دیتا ہے۔
ایک لمحے کے لئے نئی نسل اپنی آنکھیں بند کرکے کسی ایسے علاقے میں اپنے آپ کو دیکھے جہاں کوئی بھی اپنا نہ ہو ،کوئی راستہ،کوئی چوراہا،کوئی بھی اوٹ قاتلوں سے محفوظ نہ ہو ،جہاں ماؤں کی چھاتیوں سے لگے بچوں کو چھین کر نیزوں کی انیوں پر رکھا جارہا ہو،جہاں حاملہ عورتوں کے پپٹ چاک کرکے بچوں کو باہر نکالا جائے ،جہاں عفت ماب بچیاں اپنی عزت کی خاطر کنوؤں میں چھلانگیں لگارہی ہوں اور جہاں ان کے اپنے گھر والے ان کی نظروں کے سامنے زندہ جلائے جارہے ہوں ۔ایسا تصور ہی ہماری نئی نسل کی رات کی نیندیں تباہ کرنے کے لئے کافی ہوگا ۔ایک ایسی نسل کے جسے آزادی کے صحیح مفہوم سے شناسائی نہیں اسے معلوم نہیں کہ یہ ملک ہمارے بڑوں نے 10لاکھ قربانیاں دے کر کیوں حاصل کیا ۔آج بھی ہم میں ایسے افراد موجود ہیں جو تحریک پاکستان کے وقت موجود تھے اور انہوں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ ہندوستان سے پاکستان کی طرف ایک آگ کا دریا عبور کیا تھا جس میں ان کے کئی اپنے شہادت کا جام نوش کرکے اللہ کی جنتوں کے مہمان بن گئے تھے۔
ایک ایسا علاقہ جہاں ان کے آباؤاجداد کا لال قلعہ،تاج محل ،چاندنی چوک،مرزاغالب جیسے شاعر کی جنم گاہ اور اپنے بزرگوں کی قبریں اور وہ گھرجہاں لڑکیاں اپنی سہیلوں کے ساتھ بچپن کے کھیل کھیلتی تھیں،نوجوان کے وہ مکتب جہاں ان کا بچپن اور جوانی کاعرصہ گذرا،درختوں کے نیچے وہ ڈیرے جہاں بزرگوں کی شامیں گذرتی ہوں اور گاؤں کے فیصلے ہوتے ہوں۔ کس بنیاد پر یہ سب کچھ چھوڑا اور اتنی قربانیاں کیوں دیں کہ آج بھی کسی ایسے بزرگ سے ملاجائے جو قیام پاکستان کے وقت موجود تاھ تو اس کی آنکھوں میں اپنے پرکھوں کے علاقے کو یاد کرکے آنسو آجائیں اور قربانیاں یاد کرکے ہچکیاں لے اور پھر جب وہ ان سب کے پیچھے مقصد کودیکھے تو ایک دم سے جوان ہوجائے اور نعرہ لگائے کہ پاکستان کے لئے سب کچھ قربان ۔۔ پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔لاالہ الااللہ ۔یہ سب قربانیاں کس بنیاد پر دی گئیں ؟ صرف اور صرف دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ۔ دوقومی نظریہ ایک ایسی اساس ہے جس کی بنیاد پر آج بھی ہم پاکستانیوں کو متحد کرسکتے ہیں اور قیام پاکستان کے وقت کی جدوجہد آزادی کی یاد تازہ ہوسکتی ہے۔
ہمارا دشمن جس کی گردن پر پاؤں رکھ کر ہمارے پرکھوں نے پاکستان بنایا تھا ۔وہ اسی نظریہ سے خوفزدہ ہے کہ اگر پاکستانیوں نے دوقومی نظریہ کو پھر سے پکڑ لیا تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں ورلڈ پاور بننے سے نہیں روک سکتی۔ نظریہ پاکستان بظاہر ایک نظریہ ہے لیکن اس کی بنیادوں میں اسلام کے وہ لافانی قوانین پنہاں ہیں جو آج سے ساڑھے چودہ سوسال قبل رحمت عالم محمدکریم ﷺ نے ارشاد فرمائے تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کا وہ ارشاد جو انہوں نے مسلم علی گڑھ یونی ورسٹی میں 8 مارچ 1944 کو دیا تھا نظریہ پاکستان اور دوقومی نظریہ کی وضاحت کرتا ہے ’’پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا بلکہ جداگانہ قوم کا فرد بن ہوگیا۔
ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی۔ ( مسلم یونیورسٹی علی گڑھ8مارچ 1944)۔ بانی پاکستان کے یہ الفاظ ہمارے بہت سے نام نہاد دانش وروں کے سوالات کا جوابات کے لئے کافی ہیں ۔جو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کیلئے بانی پاکستان کو ایک سیکولر قرار دیتے ہیں اورپاکستان کو نظریہ پاکستان اور دوقومی نظریہ سے دورکرنے کی کوششوں میں ہیں ۔قائد کے فرمودات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ قائد کس طرح کا پاکستان چاہتے تھے جیسے کہ ’’میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے یہ پروپگینڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا، اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ میں ایسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہوچکے ہیں یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر مسلموں کو بھی کوئی خوف، ڈر نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دے رکھا ہے۔
ہر شخص سے انصاف، روداری اور مساوی برتاؤ اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ ( بار ایسوسی ایشن کراچی سے خطاب 25 جنوری 1945ء ) ہمیں اس 68ویں آزادی کے موقع پر پاکستان کا جھنڈا اپنے سینے پرسجاتے ہوئے یہ سوچنا ہوگا کہ ہم پاکستان کو کس سمت لے کر جارہے ہیں ۔ہم نے پاکستان کی خاطر کیا کیا؟ ہمارے آباؤاجدادسے ہمارا کیسا تعلق ہے ؟ کیا ہم پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں کوئی کرداراداکرسکتے ہیں ؟ ہم اور ہماری نسلیں نظریہ پاکستان اور دوقومی نظریہ کوسمجھتی ہیں؟ یا پھر دشمن کے پروپیگنڈے کاشکار ہو کر ہم بھی پاکستان اور اسلام کے خلاف دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں ۔سیاست دانوں سے ہٹ کر بھی کچھ کام بطورپاکستانی ہمارے کرنے والے ہیں کیا ہم ان کو کررہے ہیں ؟ اس جیسے کئی سوالات ہیں جو 14اگست کے دن ہمیں اپنے آپ سے پوچھتے ہوئے خوداحتسابی کے عمل سے گذرنا چاہیئے تاکہ ہم اپنے ملک کو ایک حقیقی اسلامی ریاست بناتے ہوئے اسلام کا بول بالا کر سکیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ’’ اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ان لوگوں پر احسان کریں جنھیں زمین پر نہایت کمزور کردیا گیا ہے اور انھیں پیشوا بنائیں اور انھی کو وارث بنائیں‘‘ (القصص 5:) اس آیت کی رو سے ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ اللہ نے ہمیں کمزوریوں سے نکال کر بلندیوں پر پہنچا دیاہے۔ 1947ء کے اوائل کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو جس طرح قیام پاکستان کے خلاف سازشیں ہورہی تھیں اور اس کو ایک کمزور وبے بس ریاست بنانے کی تیاریاں تھیں تاکہ یہ لوگ مجبورہو کر ہندوستان کے ساتھ الحاق کرلیں ۔اس پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا اور اس وقت پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں اس کے فیصلے دنیا کی صورتحال پر اثر ڈال رہے ہیں ۔جہاں ہم یہ سوچتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا وہیں ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا۔
اپنی نسل کو نظریہ پاکستان سے کتنا روشناس کروایا۔اگر پاکستان میں لوگ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے پر بات کررہے ہیں تو وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ یہی وہ نظریہ ہے جس سے ہم پھر سے متحد ہوسکتے ہیں اور دنیا کو باور کرواسکتے ہیں کہ پاکستان اسلام کی جاگیر ہے۔ہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ہم نظریہ پاکستان کو بقائے پاکستان سمجھتے ہوئے اپنی زندگیاں اسلام وپاکستان کی خاطر وقف نہیں کردیتے ۔پاکستان اللہ کا انعام ہے ہمیں اس کی قدرکرنی ہوگی ۔اس کے لئے جس طرح ہمارے بزرگوں نے سب کچھ قربان کردیا تھا ہمیں بھی ایسی قربانیوں کے لئے تیاررہناہوگا کیونکہ مسلمان کبھی غلام رہنا پسندنہیں کرتا۔
تحریر: محمد عتیق الرحمن
03216563157