ممتاز مفتی کی ’’الکھ نگری‘‘ بلاشبہ ایک نہایت غیرمعمولی کتاب ہے ۔۔ کم و بیش اتنی ہی غیرمعمولی جتنا اس کا مصنف ہے یا اس کا موضوع۔ اسے ممتاز مفتی کی خودنوشت سوانح حیات کے دوسرے حصے کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔ اس سوانح حیات کی پہلی جلد، جسے ’’علی پور کا ایلی‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا،۱۹۶۰ء کے عشرے میں شائع ہوئی تھی۔ ’’ایلی‘‘ کو بڑی عجلت میں شائع کیا گیا تھا تاکہ یہ کتاب اس سال کے آدم جی ایوارڈ کی حقدار ہو سکے۔ سرورق پر ’’آدم جی انعام یافتہ‘‘ کی سرخی کے ساتھ اسے ناول کا باریک نقاب اُڑھایا گیا تھا کیونکہ نوبیل انعام کے اس مقامی نعم البدل کو غالباً خودنوشت سوانح عمریوں کی کوئی خاص پروا نہیں تھی۔ یہ الگ قصہ ہے کہ آخرکار جمیلہ ہاشمی کے ناول ’’تلاش بہاراں‘‘ کو اس اعزاز کا زیادہ مستحق سمجھا گیا۔ دونوں کتابوں کے درمیان مقابلہ نہایت ولولہ انگیز رہا ہو گا، کیونکہ ادبی معیارکے لحاظ سے دونوں ایک دوسرے کی ٹکر کی تھیں۔ کچھ بھی ہو، موقع ممتاز مفتی کے ہاتھ سے نکل گیا اور ’’ایلی‘‘ کو ایک ایسے ناول کے طور پر شہرت حاصل ہوئی جسے، بقول ابن انشا، آدم جی انعام نہیں ملا۔ اس کے باوجود ممتاز مفتی کو ان نک چڑھے نقادوں کی رائے سے متفق ہونے میں تیس برس کا عرصہ لگا جن کا خیال تھا کہ ’’ایلی‘‘ ناول نگاری کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ ۱۹۹۱ء میں شائع ہونے والے ایڈیشن میں آخرکار یہ انکشاف کیا گیا کہ دراصل ’’ایلی‘‘ ممتاز مفتی کی خودنوشت سوانح عمری کا پہلا حصہ تھا۔
سوانح عمری کے زیرتبصرہ دوسرے حصے پر نظر ڈالتے ہی معصوم پڑھنے والا حیرت سے دوچار ہو جاتا ہے، کیونکہ عموماً ایسا دیکھنے میں نہیں آتا کہ کسی شخص کی خودنوشت سوانح عمری کے سرورق پر کسی اور شخص کی تصویر کو زیبائش کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ لیکن ممتاز مفتی کے بقول ان کی کتاب کے سرورق پر قدرت اللہ شہاب کی ریٹائرڈ نورانی صورت کا جلوہ گر ہونا ہی عین مناسب ہے۔ دیباچے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ممتاز مفتی نے اپنی زندگی کے پہلے نصف میں عورت کو دریافت کیا، جبکہ دوسرے نصف میں ان کی دریافت قدرت ﷲ شہاب کی ذات تھی۔
عام لوگوں کے ذہن میں شہاب کا تصور ایک کہنہ مشق بیوروکریٹ کا ہے جس نے چاپلوسی کے فنِ لطیف میں اپنی مہارت کی ابتدائی منزلیں غلام محمد اور اسکندرمرزا کے شفیق سائے میں طے کیں، اس سے پیشتر کہ انھیں جنرل (بعد میں فیلڈمارشل) کی سرکاری کٹلری میں ایک اعلیٰ مقام حاصل ہو سکے۔ پبلک شہاب کو پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے زیراہتمام شائع ہونے والے اخباروں (پاکستان ٹائمز، امروز اور ہفتہ وار لیل و نہار) پر سرکاری قبضے اور پاکستان کی ادبی تاریخ کے عجوبے یعنی رائٹرز گلڈ کے قیام جیسی نادر ترکیبوں کے اصل خالق کے طور پر جانتی ہے، اور اس میدان میں شہاب کی ذہانت کا مقابلہ ایک ایسے ہی عجیب الخلقت ادارے نیشنل پریس ٹرسٹ کے خالق یعنی الطاف گوہر سے ہو سکتا ہے۔ مفتی کا بہرحال یہ کہنا ہے کہ پبلک کو کچھ پتا نہیں۔
الکھ نگری‘‘ کے مطالعے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ شہاب دراصل ان معدودے چند رازوں میں سے ایک تھے جو کائنات میں روزِ ازل سے آج تک وجود میں آئے ہیں۔ شہاب نے جو کام کیے، یا جن کاموں کی انجام دہی میں کلیدی کردار ادا کیا، احمق پبلک اپنی ناقص عقل کے ساتھ ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ مثال کے طور پر، پڑھنے والا سانس روک کر پڑھتا ہے کہ ہمارے پاک وطن کے دارالحکومت کو کراچی سے پاک وطن کے قلب کے نزدیک ۔۔ یعنی شمال کی جانب اسلام آباد ۔۔ منتقل کرنا شہاب کا کارنامہ تھا۔ یہ فیصلہ بھی تن تنہا شہاب نے کیا تھا کہ اس ملک کو اسلامی جمہوریہ کہا جائے گا، اور اس سلسلے میں فیلڈمارشل کی خودساختہ کابینہ کے تمام ارکان کی مخالفت کو پرِکاہ سے زیادہ اہمیت نہ دی تھی۔ شہاب ہی نے فیلڈمارشل کو اقبال کا خودی کا تصور سمجھایا، اور بےچارے کو پُھسلا کر اس مسیحا کا روپ اختیار کرنے پر آمادہ کیا جس کی اس بدقسمت اسلامی جمہوریہ کو اس قدر شدید ضرورت تھی۔ شہاب ہی نے، آئین سازی کے چند سانڈنی سوار روحانی ماہرین کی مشاورت سے، ۱۹۶۲ء کا حسین آئین تیار کیا تھا۔ شہاب نے اس بات کا نہایت خوبی سے بندوبست کیا کہ فیلڈمارشل کو بابوں، درویشوں، بےروزگار وکیلوں اور اسی قسم کے دوسرے روحانی عاملوں کے ذریعے آسمانی رہنمائی اور حفاظت متواتر حاصل رہے۔
چونکہ شہاب کو خود بھی ’’نائنٹی‘‘ جیسی پراسرار ہستیوں کی طرف سے آسمانی رہنمائی حاصل رہتی تھی (اس کی تفصیل کے لیے ’’شہاب نامہ‘‘ سے رجوع کیجیے جو ایک اور نادرروزگار خودنوشت سوانح عمری ہے) اس لیے انھوں نے وسیع تر قومی مفاد میں اور بہت سے کارنامے انجام دیے ہوں گے جن کی بابت شاید میں اور آپ کبھی نہ جان سکیں۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ اس وقت ظہورپذیر ہوا جب انھوں نے بھیس بدل کر، اوورکوٹ میں ملفوف، پیشانی پر جھکا ہوا فیلٹ ہیٹ پہنے، اپنے سگار لائٹر میں ایک ننھا سا کیمرا چھپائے، بقول ممتاز مفتی ’’ﷲ کے زیرو زیرو سیون‘‘ کی حیثیت سے، اسرائیل کا دورہ کیا۔ اگرچہ شہاب نے اپنا یہ سفر، جو براہ راست آئن فلیمنگ یا ابن صفی کی نگارشات سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے، بظاہر اس مقصد سے اختیار کیا تھا کہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ مقبوضہ علاقوں کے اسکولوں میں پڑھنے والے فلسطینی بچوں کی تعلیم کے لیے اسرائیلی حکام یونیسکو کی منظورکردہ درسی کتابیں استعمال نہیں کر رہے ہیں، لیکن ’’الکھ نگری‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشن محض اصل بات کے پردے کی حیثیت رکھتا تھا۔ شہاب کا اصل مقصد دراصل مسجدِ اقصیٰ میں ایک رات بسر کرنا تھا، اور ظاہر ہے کہ انھوں نے اپنا یہ مقصد اسرائیل کے پورے سکیورٹی کے نظام کو ناکام بنا کر پورا کر لیا۔ لیکن آخر وہ مسجدِ اقصیٰ میں رات بھر قیام کیوں کرنا چاہتے تھے؟ ممتاز مفتی نے بالاًخر یہ راز فاش کر دیا ہے۔ شہاب کو ایک پراسرار اور مابعدالطبیعیاتی عمل شروع کرنا تھا۔ شہاب نے اس عمل کی ابتدا باقاعدہ ایک عمل پڑھنے کے ذریعے کر دی ہے جو ایک نہ ایک دن ریاست اسرائیل کو نیست و نابود کر ڈالے گا۔ چنانچہ جب یہ مبارک دن آئے تو آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا سہرا اسی کے سر پر باندھیں جو اس کا مستحق ہو۔ اسرائیل کے نیست و نابود ہونے کا پی ایل او، فلسطینی جدوجہد اور انتفاضہ جیسی معمولی چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
الکھ نگری‘‘ کے مطالعے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ شہاب دراصل ان معدودے چند رازوں میں سے ایک تھے جو کائنات میں روزِ ازل سے آج تک وجود میں آئے ہیں۔ شہاب نے جو کام کیے، یا جن کاموں کی انجام دہی میں کلیدی کردار ادا کیا، احمق پبلک اپنی ناقص عقل کے ساتھ ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ مثال کے طور پر، پڑھنے والا سانس روک کر پڑھتا ہے کہ ہمارے پاک وطن کے دارالحکومت کو کراچی سے پاک وطن کے قلب کے نزدیک ۔۔ یعنی شمال کی جانب اسلام آباد ۔۔ منتقل کرنا شہاب کا کارنامہ تھا۔ یہ فیصلہ بھی تن تنہا شہاب نے کیا تھا کہ اس ملک کو اسلامی جمہوریہ کہا جائے گا، اور اس سلسلے میں فیلڈمارشل کی خودساختہ کابینہ کے تمام ارکان کی مخالفت کو پرِکاہ سے زیادہ اہمیت نہ دی تھی۔ شہاب ہی نے فیلڈمارشل کو اقبال کا خودی کا تصور سمجھایا، اور بےچارے کو پُھسلا کر اس مسیحا کا روپ اختیار کرنے پر آمادہ کیا جس کی اس بدقسمت اسلامی جمہوریہ کو اس قدر شدید ضرورت تھی۔ شہاب ہی نے، آئین سازی کے چند سانڈنی سوار روحانی ماہرین کی مشاورت سے، ۱۹۶۲ء کا حسین آئین تیار کیا تھا۔ شہاب نے اس بات کا نہایت خوبی سے بندوبست کیا کہ فیلڈمارشل کو بابوں، درویشوں، بےروزگار وکیلوں اور اسی قسم کے دوسرے روحانی عاملوں کے ذریعے آسمانی رہنمائی اور حفاظت متواتر حاصل رہے۔
چونکہ شہاب کو خود بھی ’’نائنٹی‘‘ جیسی پراسرار ہستیوں کی طرف سے آسمانی رہنمائی حاصل رہتی تھی (اس کی تفصیل کے لیے ’’شہاب نامہ‘‘ سے رجوع کیجیے جو ایک اور نادرروزگار خودنوشت سوانح عمری ہے) اس لیے انھوں نے وسیع تر قومی مفاد میں اور بہت سے کارنامے انجام دیے ہوں گے جن کی بابت شاید میں اور آپ کبھی نہ جان سکیں۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ اس وقت ظہورپذیر ہوا جب انھوں نے بھیس بدل کر، اوورکوٹ میں ملفوف، پیشانی پر جھکا ہوا فیلٹ ہیٹ پہنے، اپنے سگار لائٹر میں ایک ننھا سا کیمرا چھپائے، بقول ممتاز مفتی ’’ﷲ کے زیرو زیرو سیون‘‘ کی حیثیت سے، اسرائیل کا دورہ کیا۔ اگرچہ شہاب نے اپنا یہ سفر، جو براہ راست آئن فلیمنگ یا ابن صفی کی نگارشات سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے، بظاہر اس مقصد سے اختیار کیا تھا کہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ مقبوضہ علاقوں کے اسکولوں میں پڑھنے والے فلسطینی بچوں کی تعلیم کے لیے اسرائیلی حکام یونیسکو کی منظورکردہ درسی کتابیں استعمال نہیں کر رہے ہیں، لیکن ’’الکھ نگری‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشن محض اصل بات کے پردے کی حیثیت رکھتا تھا۔ شہاب کا اصل مقصد دراصل مسجدِ اقصیٰ میں ایک رات بسر کرنا تھا، اور ظاہر ہے کہ انھوں نے اپنا یہ مقصد اسرائیل کے پورے سکیورٹی کے نظام کو ناکام بنا کر پورا کر لیا۔ لیکن آخر وہ مسجدِ اقصیٰ میں رات بھر قیام کیوں کرنا چاہتے تھے؟ ممتاز مفتی نے بالاًخر یہ راز فاش کر دیا ہے۔ شہاب کو ایک پراسرار اور مابعدالطبیعیاتی عمل شروع کرنا تھا۔ شہاب نے اس عمل کی ابتدا باقاعدہ ایک عمل پڑھنے کے ذریعے کر دی ہے جو ایک نہ ایک دن ریاست اسرائیل کو نیست و نابود کر ڈالے گا۔ چنانچہ جب یہ مبارک دن آئے تو آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا سہرا اسی کے سر پر باندھیں جو اس کا مستحق ہو۔ اسرائیل کے نیست و نابود ہونے کا پی ایل او، فلسطینی جدوجہد اور انتفاضہ جیسی معمولی چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔