تحریر: محمد وقار بٹ
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ایک انتہا کی قد آور شخصیت ہیں وہ شاعر ِ مشرق اور مفکرِپاکستان کے نام سے جانے جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے مشرق کی روایات کو اپنا سانجھی بنایا اور مغربی تہذیب کو رد کیا۔آج ٩ نومبر ہے یعنی یومِ اقبال جسے ایک عہد ساز شخصیت کی پیدائش اور اُس کے افکار کو مدِنظر رکھتے ہوئے موسوم کیا گیا ہے۔
آج اقبال کا دن منایا جارہا ہے مگر کیا ہم نے اقبال کی سوچ و فکر پر کان دھرے؟ جی نہیں ہم نے اقبال کے اجاگر خیالات پر غور و توقف نہیں کیا ہے لیکن یہ بھی بالیقین ہے کہ ہم اُن کے حد سے زیادہ معترف ہونے کے دعوے دار اور علامہ کے نظریات کے قائل بھی ہیں۔اقبال میری نظر میں ولی اللہ ہیں کیونکہ اس قدر خداداد صلاحیتیں خدا اپنے برگزیدہ بندے کو ہی عطاء کرتا ہے اور اقبال کا اللہ کے پسندیدہ بندوں سے پیار اُن کے مزارات پر حاضری معمول رہا ہے اور رب تبارک وتعالیٰ نے اپنے ولیوں کے زریعے ہی اقبال کو ہدایت سے مشرف فرمایا۔میں ہرگز اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اتنی بالا و برتر شخصیت پر تنقیدی جائزہ لوں اور یہ قطعی طور پر میری انکساری نہیں بلکہ میرا حقیقی ادنیٰ ہونا ہے۔
اقبال کی بلندی ہر جگہ عیاں نظر آتی ہے وہ اقبال جنہیں کوئی محمد علی جناح کے بارے میں بھڑکانے آئے تو وہ غصے سے سیخ پا ہوکر جواب دیں کے میں جناح کا سپاہی ہوں،بیشتر مواقع ایسے آئے جب سازشیوں نے مسلمانوں کا بانٹنا چاہا مگر اقبال نے ایسا نہیں ہونے دیا انہیں یکجا ء رکھا انہیں اپنی شاعری سے بیدار کرتے رہے۔اقبال سے لگاؤ اور ان کی سندرتائی و خوش نمائی سے متاثر ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ جس مادرِ علمی جی سی لاہور سے اقبال فارغ التحصیل ہوئے وہیں میں زیرِ تعلیم ہوں اقبال بھی راوین تھے اور میں بھی راوین ہوں مجھے اس عظیم ہستی کی شاعری پڑھ کر اتنا لطف ملتا ہے جس کا کوئی حساب ہی نہیںجی سی یو لاہور کی سینٹرل لائبریری میں بیٹھ کر میں اور ملک طلحہ لیاقت گھنٹوں اقبال کی شاعری کا مطالعہ کرتے رہے مگر سرور میں کمی واقع نہیں ہوئی سکون ملتا رہا۔اقبال کے متعلق گفتگو کرنے سے ایک بہترین لطف حاصل ہوتا ہے اس لطافت میں کمی رونما نہیں ہوتی کیونکہ وہ ایک دلچسپ ترین فلاسفر ہیں جن کی کہی ہر بات استدلال اور فطانت سے لبریز ہے۔
میری نگاہ میں ان سے زیادہ فطین کوئی مفکر نہ ہے۔بڑے بھائیوں جیسے دوست اور تجزیہ نگار عرفان خان نیازی سے ایک نشست میں اقبال کے بارے بات ہوئی تو وہ بھی علامہ کی گفتگو میں محب نظر آئے اور ایک طویل دورانیے میں انہوں نے سراقبال کی ان گنت کاوشوں پر نظر دوڑانے کی جسارت کی اور وہ آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ اگر کسی نے صحیح معنوں میں قرآن الفرقان کی تفسیر کی ہے تو وہ” مفکرِاعظم ”اقبال ہیں۔نو نومبر کی چھٹی کے برخاست ہونے پر واہ ویلا مچایا جارہا ہے کہ نواز حکومت نے اپنے آپ کو مفکرِ پاکستان سے جدا کر لیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا آج کے دن آگہی پہنچانے کے لیے کچھ مقامات پر تقاریب کے علاوہ بحیثیت ِ قوم ہم نے کیا کیا؟ اسے ایک تعطیل سمجھ کر گزار دیا کوئی نوخیز قدم اُٹھایا کسی کی نا آشنائی کو شناسائی میں بدلا؟ جی نہیں ہم بس آرام کرتے رہے چھٹی منسوخی کا فیصلہ درست ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومتی دفاتر اور سرکاری تعلیمی اداروں میں جو ہوتا اقبال کے بارے میں ہوتا اس یوم کو پوری عقیدت کے ساتھ حضرت علامہ محمد اقبال سے منسوب کیا جاتا۔اقبال کا مسلمان نوجوان کو ایک شاندار پیغام ہے: لاا لہٰ کو مت سمجھنا یہ فقط گفتا ر ہے زندگی میں لا ا لہٰ اک تیغِ بے زنہار ہے
اقبال نے مسلمانیت کو اجاگر کیا ہے کہ جوان دین کی افادیت کو جان سکیں پھر انہوں اُن کا مقصد جوان کو بے راہروی سے خبردار کرنا ہی ہے اور اقبال نے یہ شعر کہا: نوجوان اب قوم کے ہیں تشنہ لب خالی ایاغ شستہ رو آشفتہ مو ،تاریک جاں روشن دماغ
علامہ اقبال ملت کے جوانوں کو اپنی اولاد کی مانند عزیز رکھتے تھے اور اور اُن کا پیغام ہی ہے جس نے جوانوں کو ذہنی و فکری انتشار سے محفوظ رکھا آج دبستانِ اقبال اور اقبالیات کی محافل میں نوجوان پوری لگن سے انہیں پڑھتے ہیں ۔وہ ایسے خوش طبع شاعر ہیں جنہوں نے یقینا ہر کسی کے لیے کچھ نہ کچھ لکھا ہے ماں کے لیے لکھا ہے،رومانوی شاعری لکھی،مستقبل کے معماروں پر لکھا،کہیں ملتِ اسلامیہ کے بہترین ماضی کو جوانوں پر آشکار کیا۔اقبال ہماری فوزفلاح کے خواہش مند ہیں اور ہم میں فکر بیدار کرتے رہے ہیں اور اب بھی ان کی مشعلِ امید جل رہی ہے جوانوں کے آگے بڑھنے کی آرزو کو وہ ساقی نامہ میں اس طرح بیاں کرتے ہیں:
”خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا استاد کر تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دلِ مرتضیٰ سوزِ صدیق دے جگر سے وہی تیر پار کر تمنا کو سینوں میں بیدار کر جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے مرا عشق، میری نظر بخش دے تو”
اقبال فرماتے رہے کہ کہ اقبال دیر سے آتا ہے اسے کچھ بہت فاضل دوستوں نے اقبال کے دیر سے پہنچنا اخذ کیا جبکہ اقبال وقت کے پابند تھے اور ان کے ان الفاظ کا مفصل ہے کہ عزت و افتخار کے حصول میں وقت لگتا ہے۔ہمیں پوری دنیا کو باور کروانا ہے کہ ہم اس فرزندِ جلیل کے ادبی کارناموں کی قدردانی کرتے ہیں اس آج کے روز ہمیں اُن کے افکار کی روشنی میں عرفاں بانٹنا ہے تاکہ نئی نسلوں کو سیر حاصل نتائج مل سکیں۔
تحریر: محمد وقار بٹ (کالم نگار ،اسٹوڈنٹ جی سی یو لاہور،مرکزی صدر یوتھ کالمسٹ کونسل پاکستان)