تحریر : جاوید عباس رضوی
مشاہدے کی بات ہے کہ عالم اسلام تشویشناک حالات سے گذر رہا ہے، حالیہ چند برسوں سے قتل و غارتگری کے بازار نے ہر ذی حس و ذی شعور فرد کو رنجیدہ کردیا ہے، ہر آئے دن کوئی نہ کوئی المناک و تشویشناک خبر و اطلاع ضرور دل دھلا دیتی ہے، سالہا سال ہوگئے کہ عالم اسلام سے دل کو مسرت و مسرور کردینی والی کوئی خبر سنائی نہ دی، مسلمانوں کی نظریں مسلسل شام، عراق، بحرین، یمن، مصر، افغانستان، پاکستان ، فلسطین و کشمیرپر ٹکی ہوئی ہیں، ہر چہار سمت مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے، زندہ رہنا مشکل اور مرنا آسان ہوگیا ہے، مسلمان اب زندگی کو مرنے پر ترجیح دیتے ہیں، مسلمانوں کے لئے اب یہ زمین تنگ نظر آرہی ہے، کوئی بھی ملک ایسے مسلم متاثرین کو پناہ دینے کے لئے تیار نہیں، جائیں تو جائیں کہاں، پناہ لیں تو کہاں، امداد لیں تو کس سے، اسلام اور قرآن کا واسطہ دیکر جنگ بندی کا مطالبہ کس سے کیا جائے، یہ تو قرآن کو ہی ہاتھوں پر بلند کرکے مسلمانوں کے قتل و بربریت کو روا سمجھتے ہیں، کیا اب بھی کوئی مسلمانوں کا نجات دہنندہ موجود ہے، کیا اب بھی کوئی عالم اسلام کو موجودہ سنگین ترین صورتحال سے باہر نکال سکتا ہے، کیا کوئی مداوا ہوسکتا ہے۔
ہاں مسلمانوں کی سربلندی، انکا کھویا ہوا وقار، انکی نجات و پناہ صرف اور صرف اسلام ناب محمدی (ص) میں مضمر ہے، اس امت کو پھر سے وہی آئین وہی دستور وہی اسلام درکار ہے جس کی تبلیغ و ترویج رسول اللہ (ص) نے دی تھی، وہی اسلام ناب محمدی (ص) اس امت کے تمام آلام، کرب و پریشانیوں کا مداوا کرسکتا ہے، انسانیت کی فلاح و بہبود، ترقی و سربلندی کی ضامن بھی وہی تعلیمات ہیں، مسلمانوں کو تلاش ہونی چاہیے اس دین اسلام کی جو پیغمبر اسلام (ص) لیکر آئے تھے اور جس کی جگہ آج امریکی اسلام نے لے لی ہے، مسلمانوں کو انکا صدیوں سے کھویا ہوا سرمایہ دوبارہ تلاشنا ہوگا، اس دین کے لئے جستجو کرنی ہوگی اس دین کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے جس دین کو خالص رکھنے کے لئے بزرگان دین نے انتہائی مشکتیں اٹھائی ہیں۔
تمام مسلمانوں کو بلا تفریق اس دین کی جانب پلٹ آنا ہوگا جو امن، سلامتی، سربلندی و نجات کا دین ہے۔ جزوی، خرافاتی، مسلکی، ذاتی اور مفاداتی اسلام کو خیرباد کہہ کر مسلمانوں کو صرف دین محمدی (ص) پر جمع ہونا ہوگا، یہ جزیات ہمیں کل سے ملا دینے چاہیے تھے مگر افسوس کہ ہم ان جزیات کو اپنا کر کلیات کے منکر ہوگئے، تنظیموں، جماعتوں، پارٹیوں، گروہوں، ملاؤں اور مفتیوں کا کام دین سے کنارہ کش افراد کو دین سے ہمکنار کرنا تھا، دین اسلام کو مضبوط کرنا تھا، دین اسلام کا دفاع کرنا تھا لیکن جب سے ہم تنظیموں، پارٹیوں اور شخصیتوں کو اپنی منزل و مقصد سمجھنے لگے ہیں تب سے اسلام تنہا سا ہوگیا ہے۔ ہم نے پوری طاقت، پوری توانائی اپنی ذاتی دکانوں، ذاتی گروہوں کو دے رکھی ہے جس کے نتیجے میں دین اسلام سہما سہما دکھائی دے رہا ہے۔
تنہا راہ نجات اسی دین مبین کی طرف پلٹ آنا ہے جس کو ترک کرکے ہم نے دنیا بھر کی ذلالت اور رسوائی مول لی ہے، جسے ہم نے دوری اختیار کرکے ابدی تذلیل کے ہم آغوش ہوگئے، ایسا نہیں ہے کہ دین اسلام کو سرے سے ہی فراموش کیا گیا ہے، آج بھی جو افراد جو اقوام یا جو ملتیں دین اسلام کا دامن تھامے ہوئی ہیں وہ سرخرو اور سربلند ہیں، وہ نمونہ ہیں کہ اگر الہی پسندیدہ دین کا سہارا لیا جائے تو دشمن مسلمانوں کا ایک بال بھی بھیگا نہیں کرسکتے ہیں، وہ مشعل راہ ہیں انسانیت کے لئے اور انہیں دیکھ کر ہی غیر مسلموں کا ایک بڑا طبقہ اسلام کی جانب مائل ہو رہا ہے، انہی کے ہاتھوں اسلام محفوظ ہے، وہی قرآن اور مقدسات اسلامی کے مدافع قرار پارہے ہیں، وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں، وہ اپنے ذاتی مفادات، ذاتی مسائل، ذاتی پارٹیوں اور خود ساختہ مملکتوں پر دین اسلام کو ترجیح دیتے ہیں، جیسا اسلام ان سے مطالبہ کرتا ہے ویسے ہی وہ عناد، تفرقہ، تصاد، تضاد مظالم، بربریت، وحشت و دہشتگردی سے پاک ہیں، دین اسلام کا یہی تو ماننا ہے کہ مسلمانوں کے بچے، نوجوان یا بوڑھے شہید ہوجائیں لیکن آپسی اتحاد و بھائی چارگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ دین اسلام کی بنیاد اتحاد و اتفاق پر ہے نہ کہ تفرقہ و تصادم پر۔
اسلام ناب محمدی (ص) کو اپنانے کا پہلا و اولین مطالبہ اتحاد اسلامی ہے، اتحاد اسلامی کے عملی مظاہرے کے بغیر اسلام ناب محمدی (ص) کو پانا یا اپنانا ممکن نہیں، رسول اللہ (ص) کے فرمان پر لبیک کہنا اتحاد اسلامی کے عملی مظاہرے کے ساتھ مشروط ہے۔ ایک انتشاری و فرقہ زدہ ذہنیت اور منافرت پر مبنی قوم و ملت رسول اللہ (ص) کی حقیقی پیروکار و فرمانبردار ملت نہیں ہوسکتی، سیرت نبوی کی پیروی کا اولین مطالبہ ہی آپسی ہمدلی، آپسی یگانگت و بھائی چارگی اور ہم آہنگی ہے، تب مدینہ میں بھی یہی کام اول قرار پایا تھا اور اب بھی ملت میں یہی کام اول انجام پانا باقی ہے، اختلافاتی مسائل کا وجود فطری ہے، ان مسائل کا حل یا ان پر بات چیت دردمند دانشوروں اور علماء کا کام ہے، عوام ان اختلافاتی مسائل کو علماء کے حوالے کردیں، اختلافاتی مسائل کو دھونڈ نکالا نہ جائے، پھٹے پرانے اور فرسودہ اختلافاتی مسائل کو ہوا ہرگز نہ دی جائے۔
مشترکات جو ہمارے سامنے ہیں کہیں سے دھونڈنے کی ضرورت نہیں ہیں ان پر مل بیٹھا جائے۔ دھونگ و دھوکہ کے بدلے درد و درمان کی باتیں کی جائیں، ڈراونے اور دہشتگردی کے دین کو اپنے احاطوں میں دفن کیا جائے اور امن و سلامتی کے دین کو عام کیا جائے، اختلافات کا وجود باعث تصادم و تفرقہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اختلافات کا وجود باعث ترقی و پیشرفت ہونا چاہیے، اتحاد اسلامی کے عملی مظاہرے کے طور پر مسلمانوں کے تمام مسالک و مذاہب کو اپنی وہ تمام کتب سمندر برد کر دینی چاہیے جو اتحاد اسلامی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں اور جو کتب تفرقے اور آپسی منافرت کے مواد سے بھری پڑی ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ ہر ایسی نئی کتاب، نئی تحریر کی اشاعت پر بھی پابندی لگائی جانی چاہیئے۔ افسوس یہ ہے کہ جو کتابیں مسلمانوں کی تقدیر سازی کا کام انجام دے سکتی ہیں ان پر تو پابندی لگائی جاتی ہے اور جو کتابیں انتشار و منافرت سے بھری پڑی ہیں انکی اشاعت، تقسیم و پھیلاو کے لئے بڑی سرمایہ گذاری ہورہی ہے۔
کوئی چارہ کار کوئی راہ راہ نجات نہیں سوائے اس کے کہ مسلمان اپنی سرخروئی اور اسلام کی سربلندی کے لئے اتحاد اسلامی کا سہارا لیں، اتحاد اسلامی کوئی عارضی و وقتی فارمولہ نہیں، تنظیمی چال نہیں، اقلیت کا حیلہ نہیں، اکثریت کے لئے بھکاوا نہیں، بلکہ یہ اصلِ اسلام ہے، مشنِ رسول نازنین (ص) ہے، مسلمانوں کا آپسی اتحاد، اخوت و ہمدلی، تقریب و یگانگت اور اخوت دین اسلام کی پکار بھی ہے اور دین محمدی (ص) کی سربلندی بھی، اور اسکے مقابلے میں مسلمانوں کا آپسی نزاع، تفرقہ، انتشار و تضاد و تصادم اسلام کے دامن پر ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتا ہے، مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ اسلام کے لئے باعث افتخار و احتشام بنیں یا سبب ننگ و عار۔ ہمارا آپسی اتحاد دیگر اقوام پر ہمارا امتیاز تھا اور رسول اللہ (ص) نے اتحاد اسلام کو مسلمانوں میں رائج و قائم کرکے ہماری منفرد پہچان بنائی تھی۔
افسوس کہ آج افتراق و تفرقہ مسلمانوں کا لازمہ قرار پایا ہے، مسلمانوں کے تمام مسالک و مذاہب کو ہم آواز ہوکر اپنے مشتراک پر متحد ہونا چاہیے تاکہ مسلمان سکون و سلامتی، عزت و سربلندی، مساوات و برابری کی زندگی گذار سکیں، اتحاد اسلامی میں ہی مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار، انکی عظمت بحال ہوتی نظر آرہی ہے، تفرقہ و انتشار کسی بھی صورت میں کسی بھی قوم کے مفاد میں نہیں ہے، انسانیت و آدمیت کو اگر نجات، امن و آشتی کی تلاش ہے تو اخوت و اتفاق و اتحاد کا سہارا لینا ہوگا۔ آج عالمی سطح پر مسلمان تفریق، تضاد اور تصادم کے شکار ہیں جس کے نتیجے میں عالم اسلام میں ہر چہار سمت قتل و غارتگری، مظالم و بربریت کا بازار گرم ہے، مسلمان دنیا میں اسی آپسی تفرقہ کے نتیجہ میں غیر محفوظ نظر آرہے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ عالمی سطح پر اتحاد اسلامی کے لئے مہم چھیڑی جائے۔ اتحاد اسلامی کے قرآنی اصول کے لئے تک دو کی جائے۔ الحمد اللہ انٹرنیشنل مسلم یونٹی کونسل انہیں اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک فعال ادارہ ہے، رنگ، نسل، لسان اور سرحدوں کی قید سے بالاتر ہوکر کونسل اتحاد اسلامی کے قرآنی اصول و اپنی آئینی کاوشوں میں سرگرم ہے۔ کالم نگار ہندوستان میں” اسلام ٹائمز ”کے نمائندے ہیں، اور انٹرنیشنل مسلم یونٹی کونسل کے جنرل سکریٹری بھی ہیں۔
تحریر : جاوید عباس رضوی
email: javedabbasrizvi@gmail.com