اس ملک کے تمام چاچے ،مامے ،پھوپھی ،خالہ اور ’’نِکے کے اَبا‘‘ سمیت تمام عزیز واقارب کو میری طرف سے آداب اور سلامِ عقیدت۔
صاحب جی! میں ایک نیم خواندہ پاکستانی شہری ہوں، جس نے اپنے بچوں کے سہانے مستقبل کی خاطر بیرونِ ملک دھکے کھائے اور خون پسینے کی کمائی سے جمع کی ہوئی اپنی پونجی لے کر گزشتہ برس پاکستان آگیا۔ میں نے گزشتہ برس پاکستان واپس آنے کا فیصلہ یہ سوچ کر کیا کہ یہاں نیا پاکستان وجود میں آیا ہے اور بدعنوان حکمرانوں کے رخصت ہو جانے کے بعد نیک، صالح اور دیانتدار لوگ برسراقتدار آئے ہیں تو یقیناً ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ شروع میں حالات خراب ہوئے تو مجھے ہرگز پریشانی لاحق نہ ہوئی کیونکہ جاہل اور اَن پڑھ ہونے کے باوجود اتنی سی بات تو مجھے بھی معلوم ہے کہ جہاز جب رن وے پر دوڑتا ہے اور پھر ٹیک آف کرنے لگتا ہے تو کچھ دیر کے لئے ہچکولے کھاتا ہے لیکن پھر پرواز معمول پر آجاتی ہے تو مسافروں کے چہروں پر اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ پہلے مہنگائی نے ہلچل مچائی، پھر بے روزگاری نے قیامت ڈھائی، بات کڑوی گولیوں تک آئی مگر میں گھبرایا نہیں۔ ایک روز اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے ذریعے معلوم ہوا کہ حکومت نے پانچ ماہ کے دوران 2.24 ٹریلین روپے کے قرضے لے لئے ہیں۔ میں نے کیلکولیٹر کے ذریعے جاننے کی کوشش کی یہ کتنی بڑی رقم ہے مگر کامیاب نہ ہو سکا تو سوچا پہلے والی حکومتیں بھی قرض لیتی تھیں، انہوں نے با امر مجبوری لے لیا تو کیا بُرا کیا۔ پھر کسی دن معلوم ہوا کہ حکومت نے ایک ہفتے میں 113 ارب روپے اُدھار لے لئےہیں تو مجھے تھوڑی بہت پریشانی ہوئی کیونکہ لاکھ، کروڑ اور ارب روپے کا حساب کتاب تو بہت سیدھا اور سادہ ہے لیکن میں گھبرایا نہیں اور اس انتظار میں رہا کہ معیشت کا یہ جہاز تھوڑی دیر بعد سنبھل جائے گا تو ترقی و خوشحالی کے سفر کا آغاز ہو جائے گا۔ ایک دن کوئی نیوز چینل دیکھتے ہوئے پتا چلا کہ حکومت نے ایک ماہ میں 100 ارب روپے کے نوٹ چھاپ لئے ہیں۔ میں نے سوچا جب ہمارے پاس نوٹ چھاپنے والی مشینیں بے تحاشا ہیں تو ہم نوٹ کیوں نہ چھاپیں؟ حکومت دن رات ایک کر کے نوٹ چھاپے اور غریبوں میں بانٹ دے، اس میں بھلا کیا بُرائی ہے؟ پھر خودکلامی کے انداز میں بڑبڑانے لگا کہ ان میڈیا والوں کا تو کام ہی منفی خبریں دینا اور مایوسی پھیلانا ہے۔ معاشی ماہرین صبح شام مرثیہ خوانی کرتے رہے کہ جی ڈی پی کم ہو گئی، کریڈٹ ریٹنگ منفی ہو گئی، معاشی نمو کی شرح گھٹ گئی، میں یہ باتیں ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا کیونکہ ایسی مشکل اور سمجھ نہ آنے والی باتوں کا یہی بہترین حل ہے۔
صاحب جی!
میں عرض کر رہا تھا کہ ان معاشی ماہرین کو میں نے کبھی گھاس نہیں ڈالی مگر پھر یہ ہوا کہ اردگرد لگی آگ میرے گھر تک پہنچ گئی۔ دوائیاں مہنگی ہو گئیں، گیس اور بجلی کے نرخ بڑھنے لگے، پیڑول کی قیمت میں اضافہ ہونے لگا، نت نئے ٹیکس عائد ہونے لگے اور مجھ جیسے کھاتے پیتے خوشحال لوگ بھی اس معاشی تباہ کاری کی زد میں آنے لگے مگر میری ہمت اور حوصلہ دیکھیں کہ اس کے باوجود میں ڈٹ کر کھڑا رہا اور گھبرایا نہیں، لیکن پھر ایک ایسا حادثہ ہوا کہ میری کمر ہی ٹوٹ گئی۔ میں زندگی بھر محنت کرنے کے بعد ایک ایک پیسہ جوڑ کر مبلغ 90 لاکھ روپے کما کر لایا تھا اور ارادہ تھا کہ ان پیسو ں سے اپنا گھر بنائوں گا، لیکن کسی بھلے مانس نے مشورہ دیا کہ تم ان پیسوں سے کوئی کاروبار کرو یا پھر کہیں کوئی سرمایہ کاری کرو تاکہ آمدنی کا مستقل ذریعہ بن جائے۔ اگر گھر بنانے کے بعد گھر کا چولہا جلانے اور دو وقت کی روٹی کھانے کے لئے پیسے نہ ہوئے تو پھر کیا کرو گے؟ میں نے اس کی باتوں میں آکر ایک بڑے رئیل اسٹیٹ گروپ میں دو فائلیں خرید لیں۔ یہ پراپرٹی لینے کے بعد میں مطمئن ہو گیا اور سوچا ایک آدھ سال بعد جب بیچوں گا تو خوب منافع ہو گا۔ سہانے مستقبل کے خوابوں کے سنگ بہت اچھا وقت گزر رہا تھا کہ کسی نے یہ روح فرسا خبر دی کہ معاشی زبوں حالی کے سبب رئیل اسٹیٹ کا کاروبار مندا پڑ رہا ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری زندگی بھر کی کمائی ڈوب جائے۔ میں پراپرٹی ڈیلر سے ملا اور اس کی منت سماجت کی کہ اچھی قیمت پر میری فائلیں بیچ دو۔ اس نے بتایا کہ تمہارے جیسے ضرورت مند دن میں کئی آتے ہیں مگر مارکیٹ میں کوئی خریدار ہی نہیں۔ کئی چکر لگانے کے بعد آخر کار ایک شخص 90 لاکھ کے عوض خریدی گئی فائلیں 40 لاکھ روپے میں لینے پر تیار ہوا۔ اس قیمت پر بیچتے ہوئے دل کو ہاتھ پڑتا تھا مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ ساری رقم ڈوب جانے کے خوف سے فائلیں فروخت کر دیں اور جا کر ان پیسوں کے ڈالر خرید لئے۔ اب جب ٹی وی پر خبریں سنتا ہوں کہ ڈالر کو پر لگ گئے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ ڈالر مہنگا ہونے میں ملک کا نقصان ہے، معیشت تباہ ہو جائے گی مگر میں کہتا ہوں معیشت جائے بھاڑ میں، ڈالر 200 روپے تک جانا چاہئے۔
صاحب جی! یہ صرف میری کہانی نہیں بلکہ ہر وہ شخص جس نے محنت سے چار پیسے جمع کئے ہیں، وہ ڈالر اور سونے کے علاوہ کسی زرمبادلہ پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ آپ ہی بتائیں جس شخص نے ایک ایک پیسہ جوڑ کر پوری زندگی میں پچاس لاکھ روپے جمع کئے ہوں اور آپ جیسے عظیم حکمرانوں کی وجہ سے آج اس کے پاس نوٹ تو اتنے ہی ہیں مگر ان کی مالیت 35 لاکھ کے برابر رہ گئی ہے تو اس ڈاکہ زنی کا ذمہ دار کون ہے؟
صاحب جی! میں نے یہ بھی سنا ہے کہ معیشت کی تباہی و بربای کے پیچھے پچھلی حکومتوں کا ہاتھ ہے، وہ ملک کو لوٹ کر کھا گئے، انہوں نے قرضے ہی اتنے لئے کہ اب ملک چلانے کے لئے یہ سب کرنا پڑ رہا ہے۔ مجھے تو یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں اس لئے کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہوں البتہ یہ سوچ کر پریشان ہوتا رہتا ہوں کہ مسلم لیگ(ن) والے پیپلز پارٹی کو برا بھلا کہتے تھے، پیپلز پارٹی کہتی تھی پرویز مشرف کا گند صاف کر رہے ہیں، اسی طرح ہر حکومت پچھلی حکومت پر لعن طعن کرتی رہی مگر لیاقت علی خان تو اس ملک کے پہلے وزیراعظم تھے، انہوں نے اپنی ناکامیاں کس کے کھاتے میں ڈالی ہوں گی؟ یقیناً وہ تاجِ برطانیہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوں گے اور آپ کے بعد آنے والے آپ کو قصوروار قرار دیں گے مگر مجھے لگتا ہے باقی حکومتیں پانچ سال میں جو گند ڈالتی تھیں آپ نے وہ ہدف پانچ سال میں پورا کر لیا، مگر پھر بھی ہم جوتے مارنے پر گلہ کرنے والوں میں سے نہیں بلکہ محض چھتر مارنے والوں کی تعداد بڑھانے پر اصرار کرنے والے ہیں، اس لئے آپ سے دست بستہ التماس ہے کہ معاشی پالیسیاں بیشک تبدیل نہ کریں مگرفکرمندہونے کی اجازت دے دیں۔