تحریر: شہزاد حسین بھٹی
ملک کے اندر موجود تمام لوگوں کو بیک وقت خوش نہیں کیا جا سکتا مگر حب الوطنی کا تقاضہ ہوتا ہے کہ اکثریت جس طرح ملک کو چلانا چاہ رہی ہے اس طرح ملک کو چلانے دیا جائے اور اقلیت سے تعلق رکھنے والے معترضین خاموشی سے ایک طرف بیٹھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حب الوطنی کیا شے ہے اور اس خیال سے وابستہ وفاداری دیگر طرح کی وفاداریوں سے کیوں بلند تر ہے؟میں اپنی حب الوطنی کا تعلق اپنے لوگوں کے ساتھ جوڑتا ہوں۔ میںکیمبلپور (حال اٹک )میں پیدا ہوا اور وہاں پلا بڑھا۔
مجھے وہ شہر بہت پسند ہے۔ مگر اس شہر سے محبت میں میری اصل انسیت وہاں کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ اگر اس جگہ سے آپ سارے لوگوں کو نکال کر محض عمارتیں اور سڑکیں میرے سامنے کر دیں تو میں اس شہر سے تعلق نہ جوڑ پاوں گا۔لوگ ہیں تو وطن ہے ورنہ پانی، مٹی، دریا، پہاڑ، وغیرہ تو ہر جگہ تقریباًایک جیسے ہی ہیں۔قوم لسانیت کی بنیاد پر نہیں ایک جان ہونے کی بنیاد پرزندہ قوم کہلاتی ہے۔اورزندہ قوم ہی سے حب الوطنی کا تقاضا کیا جا سکتا ہے۔ آپس میں نفاق کا بیج بونے سے ہم بکھر تو سکتے ہیں گلدستہ نہیں بن سکتے۔
سیانے کہتے تھے کہ جب کسی گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے ۔الطاف حسین عمران فاروق قتل کیس کی وجہ سے اپنے گرد گھیرا تنگ ہونے اورایم کیو ایم پر اپنی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے انتہائی مضطرب ہیںیہی نہیں بلکہ کراچی میں رینجرز کی بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف کامیاب کاروائیوں کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور اسی بوکھلاہٹ میں شیخ مجیب بننے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آئے روز پاکستان کی سا لمیت اور پاک افواج کے خلاف ہرزہ سرائی ان کا معمول بن گیا ہے۔
اپنے جسم پر مخصوص حالت طاری کرکے الطاف حسین کبھی را ، کبھی انڈیا اور کبھی اقوام متحدہ اور نیٹو سے مد د کی اپیل کرتے ہیںتو کبھی ٩٠ پر چھاپے کے بعد پاک فوج کے اعلی افسران کو دھمکیاں لگاتے ہیں کہ جو “ہیں “وہ” تھے” ہو جائیں گے۔الطاف حسین کی ملک کی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کی وجہ سے پہلے ہی ایم کیو ایم کی مقامی قیادت کو شدید مشکلات میں ڈال چکے ہیں۔ایک طرف الطاف حسین کوایم کیو ایم کی مقامی قیادت سے یہ گلہ ہے کہ وہ انکی حمایت میں اس شدت کے ساتھ مظاہرے اور ہڑتالیں کر کے کراچی کو بند نہیں کررہے جو وہ توقع کر رہے تھے تو دوسری طرف مقامی قیادت بھی عجیب ذہنی کشمکش میں مبتلا ہے کہ وہ ایک طرف الطاف حسین کے بیانات اور تقریروں سے لگائی ہوئی نفرت کی آگ کو بجھانے کی سعی کرتے ہیں تو دوسری طرف الطاف حسین ایک نیاء متنازعہ بیان یا تقریر کرکے شوشا چھوڑ دیتے ہیں۔
امریکہ کے شہر ڈیلاس میں ایم کیو ایم کے سالانہ کنونشن کے موقع پر ٹیلی فونک خطاب میں الطاف حسین نے کہا کہ انہوں نے مسلح افواج کو سلام اور سیلوٹ پیش کر کے غلطی کی۔ انہوں نے بھارت کو للکارتے ہوئے شکوہ کیا کہ بھارت میں ذرا بھی غیرت ہوتی تو پاکستان میں مہاجروں کا قتل نہ ہوتا۔ ایم کیو ایم امریکہ کے کارکن اقوام متحدہ اور نیٹو ہیڈکوارٹر پر جا کر انہیں مہاجروں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے آگا ہ کریں اور ان سے کہیں کہ وہ کراچی میں اپنی فوجیں بھیجیں تاکہ وہ یہاں آکر معلوم کریں کہ کس نے سب سے زیادہ قتل عام کیا اور اس کا ذمہ دار کون تھا۔
ایم کیو ایم کے قائد کے بیان کے بعدپاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ریاستی اداروں کی تضحیک کی ہے اور اْن کی حالیہ تقریر پاکستان کے خلاف جنگ ہے۔برطانیہ کے حکام کے سا تھ الطاف حسین کی تقاریر کا معاملہ قانونی طور پر اْٹھایا جائے گا۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ‘الطاف حسین نے ایک غیر ملک میں کی گئی نفرت انگیر تقریر میںتمام حدیں عبور کر دی ہیں۔ فوج کے خلاف مزاحیہ نظمیں پڑھیں گئیں اْن پر الزامات لگائے اور دشمن ملک سے پاکستان میں مداخلت کے لیے کہا گیا ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت نے الطاف حسین کی حالیہ تقریر پر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اگلے چند دنوں میں پاکستانی حکومت ، برطانیہ اور میٹروپولیٹن پولیس کوباضابطہ ریفرنس بھجوائے گی۔اس سلسلے میںالطاف حسین کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے مسودے کی تیاری شروع کر دی ہے۔انھوں نے کہا کہ ایسے غلط الفاظ کسی بھی محبِ وطن پاکستانی کے جذبات کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔چوہدری نثار نے کہا کہ الطاف حسین کی تقاریر کو ٹی وی چینل پر براہ راست نشر کرنے پر تو پابندی عائد کی گئی ہے لیکن حکومت ایم کیو ایم کے قائد کی تقریر پر مکمل پابندی کے بارے میں غور کر رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ ‘ایم کیو ایم کے لندن کے دفتر سے کی گئی تقریر ملک کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف سازش ہے۔ تقریر میں بھارت سمیت غیر ملکی افواج کو پاکستان میں مداخلت کے لیے کہا گیا ہے۔’
وزیر داخلہ نے کہا کہ ریاستی ادارے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف نہیں ہیں اور ایم کیو ایم سیاسی جماعت ہے جس کا احترام ‘پاکستان کی فوج، رینجرز سمیت تمام ریاستی ادارے کرتے ہیں۔۔انھوں نے کہا کہ کراچی آپریشن میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی گئی ہے اور اس کامیابی کا سہرا رینجر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جاتا ہے۔یاد رہے کہ الطاف حسین نے اپنی گذشتہ تقریر میں کہا تھا کہ کراچی آپریشن کے دوبرسوں کے دوران ایم کیوایم کے ہزاروں بے گناہ کارکنوں کو گرفتارکیاگیا، درجنوں کو لاپتہ کردیاگیااور بعد میں قتل کرکے ان کی لاشیں سڑکوں پر پھینک دی گئیں۔الطاف حسین کا کہنا تھا کہ ‘اسٹیبلشمنٹ کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح ڈاکٹرعمران فاروق کا قتل ان پر ڈالا جائے لیکن اللہ بہترجانتاہے کہ ان کا عمران فاروق قتل سے کوئی تعلق نہیں۔چوہدری نثار نے کہا کہ لندن میں الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات میں برطانوی حکام کے ساتھ تعاون جاری ہے۔
انھوں نے کہا کہ لندن میں الطاف حسین کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور اس کا غصہ وہ پاکستان میں نکالتے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو چاہیے کہ وہ سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہو کرمعاشرے کے ناسوروں کے خلاف پریس کانفرنسیں کرنے کے بجائے عملی اقدامات کریں تاکہ اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے غداروں کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کر کے عبرت ناک سزائیں دی جاسکیں تاکہ آیندہ کوئی بھی شخص اس ملک کی مٹی کے ساتھ غداری کا سوچ بھی نہ سکے اور ان کی نسلیں بھی جان سکیں کہ حب الوطنی کیا شے چیز ہے اوراس کی حفاظت زندہ قومیں کیسے کرتی ہیں۔
پاک فوج کی طرف سے ضرب عضب کی شاندار کامیابی اور اسکے اگلے مرحلے میں ملک کے اندر ملک دشمن عناصر اور انکے سہولت کاروںکے خلاف آپریشن کے آغاز اور کراچی میں رینجرز کی سماج دشمن عناصر کے خلاف سخت اقدامات کی وجہ سے جہاں کراچی میں امن بحال ہوا وہیں اسکی خوشیاں لوٹیں آج کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن سے شہر کے حالات بہتر ہوئے ہیں اور شہر میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری میں کمی ہوئی ہے۔
الطاف حسین کو شائد یہ رنج بھی ہے کہ اس بار ایم کیو ایم زکوة اور فطرے کے نام پر عطیات جمع کرنے پر پابندی کی وجہ سے قاصر رہی اور عطیات لندن نہ پہنچ سکے اور لندن میں پہلے ہی ایم کیو ایم کے اکاونٹس منجمند ہونے کی وجہ سے ایم کیو ایم کے مالی حالات درست نہیں ہیں۔ کراچی آپریشن کسی خاص جماعت کے خلاف نہیں ہے بلکہ سماج دشمن عناصر، بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف ہے۔
چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق الطاف حسین کیوں مضطرب ہیں اور انہیں مہاجروں کی فکرکیوں کھائے جا رہی ہے؟ اردو بولنے والے پڑھے لکھے اور اس ملک کے شہری ہیں اور انہیں وہی حقوق حاصل ہیںجو عام پاکستانی کو حاصل ہیں۔ وقت تبدیل ہو چکا ہے ایم کیو ایم کے ورکروں کو اب شائد زیادہ دیر تک ڈگڈگی پر نچایا نہیں جا سکتا۔ ایم کیو ایم کے ورکروں اور بے داغ عہدے داروں کو مداری لیڈر سے پیچھا چھڑانا ہو گا تبی انکا وقاربحال ہو سکتا ہے وگرنہ بھانت بھانت کی بولیوں سے ایم کیو ایم کا وقار مزید برباد ہو گا۔ الطاف حسین برطانوی شہری ہیں اور وہ شائد یہ جان چکے ہیں کہ اب وہ بچنے والے نہیں اور ایم کیو ایم پر ان کی گرفت کمزور پڑ گئی ہے اور میرے مطابق انہوں نے کبھی پاکستان بھی نہیں آنا۔ان کے خلاف پاکستان میں ڈیڈھ سو کے بجائے پچاس ہزار مقدمات بھی درج ہو جائیں تواس سے کیا فرق پڑے گا؟ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔
تحریر: شہزاد حسین بھٹی