تھر ۔۔۔ جیسے ہی یہ نام سننے کو ملتا ہے تو فورا مفلسی ،مجبوری اورغربت کی ایک تصویر سامنے آجاتی ہے،پیاس سے بلک بلک کر زندگی کو رخصت کرنے والے اور بھوک سے چیختی چلاتی بچوں کا خاکہ ذہن میںآجاتا ہے جہاں ان بچوں کی آہیں راتوں کو سونے نہیں دیتی وہیں حکمرانوں کی عیاشیاں اور شاہ خرچیاں دیکھ کردل خون کے آنسو روتا ہے۔ اب میںتھر کی قحط کو کوئی آفت نہیں کہ سکتا کیونکہ آفت تو اچانک آجاتی ہے مگر تھر میں قحط سالی اب معمول بن چکی ہے اب وہاں بچوں کا مرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ نہ جانے کیوں وہ بلکتے تڑپتے بچے ہر روز خواب دیکھنے والے صوبائی وزیر منظور وساں صاحب کے خواب میں نہیں آتے ہیںنہ جانے کیوں سائیں قائم علی شاہ پر کوئی وجدان طاری نہیں ہوتا اور کوئی پری یا آسمانی مخلوق آکر اس کو تھر کے باسیوں کی حالت زار نہیں بتاتی نہ جانے ٹوئیٹری بابو بلو بھائی کو کیوں کوئی انسان دوست تھر کے حالات کے متعلق ٹوئیٹر پر آگاہ نہیں کرتی
نہ جانے مظلوموں کے بھائی جناب الطاف حسین صاحب اور مظلوموں کے ساتھی گورنر اعلی صاحب کو کیوں تھر کے مظلوموں کی خیال نہیں آتی نہ جانے کیوں ؟؟؟؟ مانا کہ تھر کے باسی اردو بولنے والے سندھی تو نہیں کہ جناب الطاف حسین صاحب یا گورنر اعلی صاحب ان کیلئے بے چین ہوں مانا کہ تھر والے اب تک جیالوں کی فہرست میںبھی وہ مقام پانے میں ناکام ہوچکے ہیں جس مقام پرلاڑکانہ اور ڈیفنس کے بلاول ہائوس کے آقائوں کی مہربانیاں شروع ہوجاتی ہیں اور پھر رحمتوں کا برسات ہونے لگتا ہے مگر میرے خیال میں تھر میں رہنے والی مخلوق کا شمار بھی انسانوں میں ہوتا ہے ویسے شاعر بھی کہتے ہیں کہ۔
انسانیت کو بریڈ پر لگا کر کھا جائوں یارو
انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے
اگر درج بالا لائنوں کو پڑھنے کے بعد کوئی مجھے ناسمجھ یا لا علم سمجھتا ہے تو وہ بھی بر حق ہے کیونکہ جناب قائم علی شاہ صاحب نے تو گذشتہ دنوں تھر کا دورہ کا کیا تھا اور اس نے یہ بات بھی واضح کہی تھی کہ تھر میں لوگ بھوک سے نہیں بلکہ غربت سے مر رہے ہیں مگر جناب نے اس کی ذیادہ وضاحت اس لئے نہیں کی کہ غربت سے مرنے اور بھوک سے مرنے میں کیا فرق ہوتا ہے تاکہ تھر کے لوگ کہیں اس وضاحت سے احساس کمتری کا شکار نہ ہوجائیں اور جناب قائم علی شاہ صاحب کیلئے بلوچستان مسئلہ ، فاٹا مسئلہ، گلگت بلتستان مسئلہ، سرائیکی صوبہ مسئلہ، ہزارہ صوبہ مسئلہ اور اب مہاجر صوبہ مسئلہ کی طرح تھر مسئلہ کی اصطلاح جنم نہ لے جو کہ عظیم تر قومی مفادات کے بھی خلاف ہے۔ اب اگر سائیں نے عظیم تر قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھوک سے مرنے اور غربت سے مرنے کے فرق کو واضح نہیں کی تو کیا برا کام کیا۔
جناب قائم علی شاہ کے اس منطق سے یاد آیا کہ جناب نے کچھ دن پہلے کچی شراب پی کر موت کے گھاٹ اترنے والوں کو بھی شہید قرار دیکر ملکی مفادات کا تحفظ کیا تھا اور مصلحت پسندی کا ثبوت دیا تھااور اس کی بھی وضاحت نہیں کی تھی تاکہ کوئی شرابی مسئلہ نہ کھڑا ہو جائے۔ نہ جانے کیوں ہمارے سیاستدانوں کو عملی اقدامات کے بجائے اب بس منطق جھڑنے کی عادت سی ہوگئی ہے چاہے اس منطق کا کوئی معنی بھی نکلتا ہو یا نہیں ۔ اگر حقائق کو دیکھا جائے تو پچیس سال سے پاکستان پیپلز پارٹی سند ھ پر حکومت کر رہی ہے اور ایم کیوایم نو سال سے حکومت کا حصہ ہے اگر درج بالا پارٹیاں صرف یہ سمجھتیں کہ وہ کراچی اور لاڑکانہ پر نہیں بلکہ سندھ پر حکومت کر رہے ہیں
اور وہ پورے سندھ کے باسیوں کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات کرتیں تو اس طویل عرصے میں تھر کے باسیوں کیلئے طویل المدتی(long term)رہائشی منصوبوں پر بھی کام مکمل ہوچکا ہوتا تاکہ ایک جگہ رہائش کے انتظامات ہونے سے ان لوگوں کے بنیادی مسائل جیسے پانی، بجلی و دیگر بنیادی مسائل پر بھی طویل المدتی منصوبوں پر کام کیا جا سکے اگر یہ سب پہلے سوچا جاتا توآج تھر میں بچوں کے پے درپے مرنے کے واقعات پیش نہیں آتے مگر میرے خیال میں میں اور دیگروہ حضرات جو اس طرح سوچتے ہیں کہ کاش ایسا ہوتا یا کاش ویسا ہو تاتو ہم غیر ارادی طور پر خوابوں کے جنت میں رہنے کے مرتکب ہورہے ہیں
کیونکہ اگرایسے اقدامات کئے جاتے جس کے نتیجے میں آج تھر میں قحط نہ آتی یا اس قحط سے بروقت نمٹنے کیلئے موثر حکمت عملی اپنائی جاتی تو جو ایم پی اے یا ایم پی اے کے مقامی چمچے تھر کے امداد ی سامان سے اپنے گودام بھرتے ہیں ان کا کیا ہوتا ان کا تو کاروبار ٹھپ پڑجاتا ، جو مقامی پارٹی رہنماء ایم پی اے صاحب کی ہدایت پر پہلے جئے بھٹو کا نعر ہ لگواتے ہیں پھر بھوکے لوگوں کو ایک آٹے کی تھیلی دیتے ہیں ( اعتراض کرنے والوں سے معذرت مگر تھر میں اس طرح کے واقعات نوٹ ہوئے ہیں ایسے متعدد واقعات کی تفصیل تھر کے ایک نوجوان نے مجھے ای میل کردی تھی)اگر اس قسم کے اقدامات کئے جاتے تو ہمارے نمائندے میڈیا میں کیسے آتے عوام کیسے ان کی فرضی مدد کے رنگین تصاویر دیکھ کر واہ واہ کرتے پھر اسی واہ واہ پر انہیں ووٹ ملتے یہی تو ایک موقع ہے جب عوام کو پتہ چلتا ہے
ان کے نمائندے کتنے انسان دوست ہیںاگر اس قسم کے واقعات نہ ہوں اور عوام کو پتہ نہ چلے کہ نمائندہ کتنا ہمدرد ہے اور وہ انجانے میں کسی اور کمبخت کو اپنا قیمتی ووٹ دے دیں اور اس طرح ایک دیانتدار جناب عوام کی خدمت(جئے بھٹو کا نعرہ لگوا کر آٹا دینے) سے محروم رہ جائیں پھر آخرت میں اس جناب کو خدمت کا موقع نہ دینے کا حساب عوام کو دینا پڑجائے۔ اگر اس طر ح کے واقعات کے ہمیشہ ہمیشہ تدارک کیلئے اقدامات کئے جائیں تو وہ نام نہاد این جی اوز کا کیا ہوگا کیونکہ جس طرح محلے کے درزی کا سیزن عید سے پہلے ہوتا ہے، ایک زمیندار کا سیزن اس وقت ہوتا ہے جب اس کی کوئی فصل تیار ہوتی ہے بالکل اسی طرح ان نام نہاد این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا سیزن اس وقت ہوتا ہے جب کسی علاقے میں کچھ لوگ مرجائیں۔ اب میں اور میرے جیسا اور کوئی بے وقوف تھر کے اوپر جتنا لکھے
اس کا نتیجہ کیا نکلے گا بس یہی کہ کچھ ٹرک خردو نوش کی اشیاء لیکر تھر جائیں گے ان میں سے کچھ تھر کے باسیوں کو ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے” بلوا کر دئے جائیں گے پھر ایک حصہ مقامی وڈیرے کو بھیج دیا جائے گا ایک حصہ ایم پی اے صاحب کے گودام میں جمع ہوگی اور ایک حصہ وہاں کام کرنے والی این جی او کے سی او صاحب کو بھیج دیا جائے گا بس۔۔۔۔مگر اب تھر کے لوگوں ک خود یہ سوچنا ہوگا کہ جب تک بھٹو زندہ رہے گا تو ان کے بچے ہر سال اسی طرح بھوک اور پیاس سے مرتے رہیں گے۔ اب تھر کے عوام کو ووٹ دیتے وقت یہ سوچنا ہوگا کہ یہی ووٹ ان کے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گاان کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ یہی ووٹ ان کے بھوک اور پیاس کو ختم کرکے ان کے بچوں کے بہتر مستقبل کا ضامن ہے اور یہی ووٹ ہی ان کے بچوں کے موت کا ذمہ دار ہے بشرطیکہ اس کی حقیقی طاقت کا اندازہ لگا کر اس کو صحیح استعمال کیا جائے۔
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حذب اللہ مجاہد