تحریر: عمران احمد راجپوت
دو اگست کو الطاف حسین کے امریکہ میں اپنے ورکروں سے سالانہ کنوینشن کی تقریب سے خطاب کے بعد جیسے پاکستان میں بوچھال سا آگیا خطاب کے دوران انھوں نے اردو بولنے والوں کے ساتھ ظلم وانصافی کے خلاف بھارت سمیت نیٹوممالک سے مدد کی درخواست کی جبکہ امریکہ میں موجود ایم کیوایم کے کارکنان سے سندھ میں اردو بولنے والوں کے ساتھ ظلم وانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کو بھی کہا گیا۔ جس کے بعد سے پاکستانی حکومت اور کچھ مقتدر حلقوں کی جانب سے الطاف حسین پر مسلسل تنقید کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
وفاقی نمائندوں سے لیکر صوبائیت کے ٹھیکیداروں سمیت ملک میں موجود اہلِ علم ، اہلِ قلم ، اہلِ دانش، اہلِ فکرحضرات نے حب الوطنی کی آڑ میں الطاف حسین کے خلاف خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ ایک محترم دوست نے تو اردو بولنے والوں کو اقلیت قرار دے کر چپ لگاکر سائیڈ میں خاموش بیٹھ جانے کی تلقین کرڈالی اور دلیل یہ فرمائی کہ پاکستان میں تمام بسنے والوں کو ایک ساتھ خوش نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔لہذا ابھی فلحال خوش رہنے کا حق اشرافیہ کو ہی ہے جن کی نگہبانی کا ٹھیکہ اِن محبِ وطنوںکے سپرد ہے۔
صدقے جائیں اِس حب الوطنی کے۔قارئین ہم نے سوچ رکھا تھا ہم اِس موضوع پر نہیں لکھیں گے کیونکہ یہ ایک حساس ایشو تھا اور ہم نہیں چاہتے کہ خواں مخواںکسی کی دل آزاری ہو،کیونکہ قوموں کااِستحصال کرکے حب الوطنی کا نعرہ لگانا ہمارے نزدیک حب الوطنی ہے نہ مثبت اندازِفکر۔ لیکن دو اگست کے بعد سے جس طرح حب الوطنی کی آڑ لیکر دلی بھڑاس نکالی گئی اور قوموں کو سائیڈ لگانے کی باتیں کی گئیں ایک مقبول قوم کے لیڈرکے بارے پڑھے لکھے ہوکر لوکل لینگویج استعمال کی گئی شرابی کبابی گردانا گیا تو پھرہم نے بھی سوچا سچ کے لئے بولنا اور حق کے لئے اُٹھنا ہی ہمارا نصب العین ہوناچاہئیے ۔ لہذا اکثریت کی اقلیت کو غلام بنانے کی روش کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ لکھا جائے اور عوام کو بتایا جائے کہ دیکھو اِس جدید ترقیافتہ دور میں بھی کیسی کیسی سوچیں پروان چڑھ رہی ہیں۔الطاف حسین کے خلاف آزاد کشمیر سمیت چاروں صوبوں میں مذمتی قراردیں منظور کی گئیں جس میںانھیں انٹرپول کے ذریعے برطانیہ سے پاکستان لاکر غداری کا مقدمہ چلائے جانے کی درخواست کی گئی۔
قارئین اِس بارے ہم اِن محبِ وطنوں سے صرف اتنا پوچھنا چاہیں گے کہ آپ اُس وقت کہا تھے اور کیوں نہ اُس وقت اسمبلیوں میں قرار دوں کے انبار لگائے کیوں نہ اُس وقت لکھاریوں نے اپنے قلموں کو جنبشیں دیں کیوں نہ اُس وقت اہلِ علم ، اہلِ فکر حضرات میں حب الوطنی کا جذبہ جاگا جب اکبر بگٹی جیسا شخص کھلے عام پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرہ بنا رہا اور چھ ہزار روپے ماہوار پر اپنی ملیشیا قائم کرکے پاک فوج کے جوانوں کو شہید کرتارہااُس وقت کیوں مذاکرات کے زریعے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی مزیدبراں یہ کہ اُس کی وفات پر ساری قوم پاک فوج کے جوانوں کی شہادتیں بھلاکر اکبر بگٹی کی ہلاکت پر صفِ ماتم بچھائے ہوئے تھی جب کوئی قرارداد کسی اسمبلی میں کیوں نہ پیش کی گئی کوئی مقدمہ کیوں نہ دائر کیا گیا غداری کا فتویٰ کیوں نہ جاری کیا گیا۔
اُس وقت آپ لوگ کہا تھے جب بلوچستان کا ایک سردار کھلے عام پاکستان کا پرچم نذرِآتش کررہا تھا جب کوئی قرارداد کسی اسمبلی میں کیوں نہ پیش کی گئی کوئی مقدمہ کیوں نہ دائر کیا گیا۔ مجھے بتائیں اُس وقت آپ کی حب الوطنی کہا تھی جب بلوچ علیحدگی پسند پہاڑوں پر چڑھ کر پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرہ بنے ہوئے تھے جب کوئی قرارداد کسی اسمبلی میں کیوں نہ پیش کی گئی کوئی مقدمہ کیوں نہ دائر کیا گیا۔ محترم قارئین کوئی مجھے بتائے اُس وقت یہ محبِ وطن کہاں جاچھپے تھے جب پاکستان نہ کھپے کا نعرہ بلند کیا جارہے تھا اور سندھ سمیت پورے پاکستان کی معاشیت کا بیڑا غرق کردیا گیا تھا جب کوئی قرارداد کسی اسمبلی میں کیوں نہ پیش کی گئی کوئی مقدمہ کیوں نہ دائر کیا گیا۔اُس وقت آپ سب کہاں تھے جب ایک پارٹی کا سربراہ آن میڈیا آکرپاکستان کی آرمی کو کھلے عام چلنج کررہا تھااورسارے اگلے پچھلے حساب کتاب برابر کرنے کی دھمکی دے رہے تھا جب کوئی قرارداد کسی اسمبلی میں کیوں نہ پیش کی گئی کوئی مقدمہ کیوں نہ دائر کیا گیا۔ خدارا مجھے بتائیں آپ جب کہاں تھے جب پاکستان کی اعلی عدلیہ سے عمر قید کی سزا پانے والا مجرم جسے بعد میں جلاوطنی میں تبدیل کردیا گیا کو ملک کا وزیراعظم بناکر آئین کی روح سے غداری کی گئی، این آر او کے تحت ملک سے چوروں بدمعاشوں کو معاف کرکے اُنھیں صدارت کے سنگھاسن پر براجمان کیا جارہا تھا۔
جب کوئی قرارداد کسی اسمبلی میں کیوں نہ پیش کی گئی کوئی مقدمہ کیوں نہ دائر کیا گیا۔ قارئین کون ہے جو اِن محبِ وطنوں سے پوچھے کہ آپ لوگوں کی غیرت اُس وقت کہاں سوئی ہوئی تھی جب عوامی نیشنل پارٹی کا سربراہ غداراسفندیارولی خیبر پختون خواں میں بیٹھ کر بانی پاکستان حضرت قائدِ اعظم محمدعلی جناح رحمة اللہ علیہ سے متعلق مغلظات بک رہا تھا اور پاکستان توڑنے کی باتیں کررہا تھا اور باچا خان زندہ باد کے نعرہ لگوارہا تھاجب کوئی قرارداد کسی اسمبلی میں کیوں نہ پیش کی گئی کوئی مقدمہ کیوں نہ دائر کیا گیا۔ مجھے بتائو محبِ وطنوں آپ سب اُس وقت کہاں تھے جب کشمیر سے لیکر کراچی تک طالبانی نامی درندوں نے جو آئینِ پاکستان کے انکاری ہیںجنھوں نے میرے وطن کے معصوموںکونہایت بیدردی سے زبحہ کیا پاکستان کی رِٹ کو چلنج کر کے میرے وطن کے ہزاروں جانشینوں کو شہید کردیا، دشت وعلَم کایہ سلسلہ جوں کا توںآج بھی جاری ہے لیکن میں پوچھتا ہوں اب تک کوئی قرارداد کسی اسمبلی میں کیوں نہ پیش کی گئی کوئی مقدمہ کیوں نہ دائر کیا گیا بلکہ برعکس اِس کے آج بھی ہمارے ملک کے محبِ وطن اُن سے مذاکرات کے حامی ہیںمعاملات کو افہم تفہیم سے حل کرنے کے خواہشمند ہیں۔
قارئین آپ خود فیصلہ کریں غداری کے مرتکب اِن سب غداروںسے مذاکرات ہوسکتے ہیں معاملات افہم و تفہیم سے حل کئے جاسکتے ہیںتوپھر الطاف حسین کے ساتھ اتنا غبض کیوں اُس کے لئے اتنی نفرت کیوں اُس کے خلاف اتنی شرانگیزی کیوں ۔۔؟ شاید اِس لئے کہ وہ ملک میں موجود اُن تمام غداروں سے جن کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں اُن کی بادشاہتوں کو ختم کرکے پاکستان کے غریب مظلوم طبقات کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے جو ملک میں موجود اَڑستھ سالوں سے قابض وڈیرو جاگیرداروں سرمایہ داروں کے تسلط سے غریب و مظلوم عوام کوآزادی دیلانا چاہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پورے پاکستان کی اشرافیہ اُس سے زاتی طور پر کینہ وعناد رکھتی ہے۔ سندھی بولنے والوں کی لوجِک تو پھربھی سمجھ آتی ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی سرحدوں کی تقسیم نہیں چاہتے کیونکہ تاریخ کے آئینے میں سندھ کا تاریخی پس منظر ہے جوکہ پانچ ہزار سالہ پرانی تہذیب پر محیط ہے۔
جو کہ تمام ناانصافیوں کے باوجود ہم سمجھتے ہیں اُن کا یہ نظریہ درست ہے کیونکہ ہم کسی کی تہذیب وثقافت کے قاتل نہیں بلکہ بحیثیت اردو بولنے والے تو خود اِسی درد کے مارے ہیںاور بخوبی سمجھتے ہیںکسی بھی قوم کے لئے اُس کی تہذیب وتمدن کیا معنی رکھتی ہے۔اِس بات کا احساس الطاف حسین کو بھی تھا اور ہے اِسی لئے اُس نے مہاجر قومی موومنٹ سے دستبردار ہوکر متحدہ قومی موومنٹ کی بنیاد ڈالی اور تمام مظلوم قوموںکی تشنگی دور کرنے کا بیڑا اُٹھایا سندھ کو اپنی دھرتی ماں تسلیم کرتے ہوئے اُس کی تقسیم کے مطالبے سے دستبردار ہوااور چاہا کہ کوئی ایسا راستہ نکل آئے کہ سندھ کی جغرافیائی سرحدوں کوبنا چھیڑے اردو اورسندھی بولنے والوںکو انصاف کے تقاظوں کے تحت اُن کے جائز حقوق مل جائیں سندھ کا غریب ہاری وڈیروں جاگیرداروں کے تسلط سے آزاد ہوجائے۔ لہذا ایک راستہ چنا گیا وہ واحد راستہ شہری حکومتوں کا نظام تھاجس سے سندھ سمیت پاکستان کے ہر شہری کی مظلومیت کا خاتمہ کیا جاسکتا تھا ۔لیکن افسوس اِس ملک کی بدقسمتی پر کہ نام نہاد محبِ وطنوں نے آئینی اور اصولی راستے میں روڑے اٹکاکر اُسے مسترد کردیا یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے حقیقی غدار اور دشمن ہیں جو الطاف حسین جیسے شخص کو غدار بن جانے پر مجبور کرتے ہیں اور خود حب الوطنی کے نعرہ بلندکرتے ہیں۔
میری پاکستان کے کرتادھرتائوں سے گزارش ہے کہ جب ملک کے ناسوروں سے مذاکرات ہوسکتے ہیں سزا یافتہ لوگوں کو صادق و امین گردان کر انھیں اقتدار سونپا جاسکتا ہے پرچم جلانے والوں سے بیٹھے کر بات ہوسکتی ہے۔حضرت قائدِاعظم محمد علی جناح رحمةاللہ علیہ کے دشمنوں کی طرف سے آنکھیں بند رکھی جاسکتی ہیں تو پھر الطاف حسین سے بھی مذاکرات کرکے معاملے کو افہم وتفہیم سے حل کیا جاسکتا ہے یاد رکھیں ملک کے اصلی غدار وہ ہیں جو غدار بن جانے پر مجبور کرتے ہیں اللہ پاک پاکستان کی سالمیت کوہمیشہ قائم و دائم رکھے آمین پاکستان زندہ باد۔
تحریر: عمران احمد راجپوت
ممبر کالمسٹ کونسل آف پاکستان
CNIC: 41304-2309308-9
Email:alirajhhh@gmail.com
حیدرآباد، سندھ