دہشت گردی کے خلاف متبادل بیانیہ ترتیب دینے کی ضرورت کا اظہار ہمارے ملک کے وزیراعظم سمیت متعدد اہلِ فکر و دانش کر چکے ہیں۔ کسی متبادل یا مخالف بیانیے کی تشکیل کےلیے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے اپنے بیانیے کا جائزہ لیا جائے، اس کی ترکیب و ترویج کو ایک غیر متعصبانہ سوچ کے ذریعے گہرائی تک جانچا جائے، دہشت گردی کے محرکات کو سمجھا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ ایک عام انسان دہشت گردوں کا ساتھ دینے اور دہشت گرد گروہوں کا حصہ بننے کےلیے کیوں اور کیسے آمادہ ہو جاتا ہے۔ مزید برأں ان گروہوں کے اس طریقہ کار کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس کے تحت وہ اپنی تنظیم کےلیے افرادی قوت کا بندوبست کرتے ہیں۔
اوپر بیان کردہ سوالات کے حوالے سے ایک عمومی سوچ اور رائے یہ ہے کہ دہشت گردی کی بنیاد مذہب، مسلک و مدرسہ، تعلیم کی کمی اور غربت ہے۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ سوویت افغان جنگ، اس میں پاکستان کی شمولیت، لڑائی کےلیے اختیار کردہ حکمتِ عملی اور جہادی نظریئے کے استعمال کو بھی دہشت گردی کا موجب گردانتا ہے۔ اس کے علاوہ خلافت قائم کرنے کی خواہش و حصول بھی چند اہلِ فکر کا موضوع رہا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ مغرب سمیت متعدد عالمی مکاتبِ فکر، مختلف مقاصد کے تحت آج کی دہشت گردی کو خالصتاً مذہب اسلام سے منسلک کرتے ہیں جو فکری و تحقیقی اعتبار سے درست نہیں۔ مگر اس تحریر کا موضوع اس خاص سوچ کے خلاف استدلال نہیں۔
امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے میں ملوث درجن بھر سے زائد افراد کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری تھی جبکہ دو افراد پی ایچ ڈی کے طالب علم رہ چکے تھے۔ ماضی میں (1979 میں) کیوبا کے مسافر طیارے کو بم سے اڑانے کا ملزم اورلینڈو بوش ایک میڈیکل ڈاکٹر تھا۔ اس حملے میں 73 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ مزید برأں 1935 میں یہودی زیرِ زمین تحریک کے رہنما ایک وکیل تھے۔ اسی طرح کی ایک اور تحقیق کے مطابق 1920 کی آئر لینڈ کی متشدد تحریک کے ویسٹ کارک سرکل میں شامل رضاکاروں کا اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں تعلیم و ہنر کا امکان زیادہ تھا اور القاعدہ سے وابستہ ایمن الظواہری ایک تربیت یافتہ طبی ڈاکٹر ہیں۔
چنانچہ مختلف دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں میں شامل افراد کے مطالعے کے پس منظر سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دہشت گرد عناصر کا غریب و کم تعلیم یافتہ ہونا ہرگز ضروری نہیں۔ اس دلیل کی حمایت میں مزید مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ جیسا کہ امریکا کی ایک طالب علم تنظیم ایس ڈی ایس میں شامل افراد نہ صرف تعلیم یافتہ تھے بلکہ ان کا تعلق امیر و بااثر خاندانوں سے بھی تھا۔ اس کے ذیلی گروہ ویدر انڈر گراؤنڈ نے امریکی ریاست کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تھا اور ایک عمارت میں دھماکے کا مرتکب بھی پایا گیا۔ اسی طرح لندن بم حملوں میں ملوث شہزاد تنویر اور محمد صدیق خان یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ کسی طور پر بھی غریب و مفلس گھرانوں کے چشم و چراغ نہ تھے بلکہ تجارت سے وابستہ خاندانوں کا حصہ تھے۔ اسی تناظر میں صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کا ملزم احمد عمر سعید لندن اسکول آف اکنامکس میں ریاضی، شماریات اور معاشیات کی تعلیم حاصل کرتا رہا تھا۔ آخر میں صفورا گوٹھ کے سفاکانہ حملے میں ملوث افراد بھی تعلیم یافتہ اور مالی اعتبار سے بہتر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔
جس طرح غربت و تعلیم کی کمی شدت پسندی کی بنیادی وجوہ نہیں، بالکل اسی طرح دنیا میں برسرِ پیکار مختلف شدت پسند گروہوں کا نظریہ و حصولِ جدوجہد ایک نہیں ہو سکتا۔ ان کا نظریہ نسل، مذہب، علاقائیت، قدامت پسندی اور جدیدیت کا مرہونِ منّت ہو سکتا ہے۔ چنانچہ شدت پسندی اور دہشت گردی کے جنم و ترویج کی مختلف وجوہ، عوامل اور محرکات ہو سکتے ہیں اور ان کو پانچ بنیادی یعنی سماجی، تاریخی، سیاسی، شخصیت پرستی اور مذہبی محرکات و عوامل کی بنیاد پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
جو علاقے جنگ زدہ ہوں، زبوں حال ہوں اور جہاں محکومیت کا احساس گہرا ہو وہاں سماجی ڈھانچہ زوال پذیر ہوتا ہے اور وہ معاشرتی و سماجی کشش برقرار نہیں رکھ پاتا۔ اس معاشرے میں مایوسی، بے بسی اور شکست خوردگی کا احساس غالب ہوتا ہے اور لوگوں کو ایک اجتماعی شناخت درکار ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح کا خلا ہوتا ہے جسے پُر کرنے کےلیے ایک تنظیم میدان میں کودتی ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم عمومی مایوسی کو ہتھیار بنا کر سہانے خواب میں بدل دیتی ہے؛ ایک طاقتور، بہتر، خوشحال اور فاتح سماج کی آس میں ڈھال دیتی ہے۔ وہ ایک ایسا گروہ تشکیل دیتی ہے جس میں انفرادی شناخت کو اجتماعی شناخت میں ضم کرکے ایک مشترکہ خاندان کا تصور اجاگر کیا جاتا ہے۔ یوں ایک متبادل سماج کا حصول مسلح جدوجہد کا حصہ بننے پر آمادہ کر دیتا ہے۔
دوسری طرف تاریخی پس منظر بھی لوگوں کو شدت پسندی اور دہشت گرد تنظیموں کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پرانی عسکری شکست، جبری حکومت، سماجی یلغار اور خارجی قوتوں کا علاقوں پر قابض ہونا ایسے تاریخی عوامل ہیں جو مسلح جدوجہد کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ کوئی بھی نیا واقعہ پرانے زخموں کو ہرا کر دیتا ہے اور تاریخی مظالم کی یاد تازہ کرکے اپنے آبا و اجداد کی روایت کے مطابق ازلی دشمن سے جنگ کرنے کےلیے ابھارتا ہے۔ صلیبی جنگیں اور مسئلہ فلسطین مشرقِ وسطیٰ میں عسکری تنظیموں کا بنیادی تاریخی حوالہ رہا ہے اور پر تشدد مزاحمت کےلیے اشتعالی عمل انگیز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مزاحمتی جذبہ زیادہ تر محکوم علاقوں سے جنم لیتا ہے جبکہ نسل، برادری، قومیت اور مذہبی بنیاد پر پروان چڑھتا رہتا ہے۔ یہی تاریخی پس منظر اپنی متعلقہ حکومتوں اور رہنماؤں کو اغیار کا ساتھی و ہمنوا یا خاموش تماشائی کے طور پر پیش کرتا ہے اور نتیجتاً ان اپنوں کے خلاف جنگ و جدل کی راہ ہموار کرتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ صرف مذہبی تاریخ ہی نہیں، بلکہ دیگر انسانی احساس کے محرکات بھی تاریخی اعتبار سے شدت پسند نظریات کے فروغ میں بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئرلینڈ کی ری پبلک آرمی برطانیہ کے تسلط سے آزادی کےلیے بھی تاریخ کے حوالوں کا سہارا لیتی رہی ہے اور اسی طرح افریکن نیشنل کانگریس بھی تاریخی مظالم کو اپنے حق میں استعمال کرتی رہی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کی اس تنظیم کے رہنما نیلسن مینڈیلا تھے جنہیں امریکا 2008 تک ایک دہشت گرد قرار دیتا تھا۔
سیاسی منظر نامہ ایک اور جہت ہے جو شدت پسندی کی افزائش کرتا ہے۔ شدت پسند تنظیم ایک سیاسی گروہ بھی ہوتا ہے جو اپنے سیاسی مقاصد کی ترویج کےلیے کام کرتا ہے۔ تامل ٹائیگرز اور آئرلینڈ کی شدت پسند تنظیم اپنی سیاسی جنگ بذریعہ تشدد لڑتی رہی ہیں۔ ایسے معاشرے جہاں ریاستی نظریہ و عمل داری کمزور ہوتی ہے وہاں قبائلی ڈھانچہ معاشرے کو جوڑنے کا کردار ادا کرتا ہے۔ قبائل کے اپنے رسوم و رواج اور مخصوص نظریات ہوتے ہیں؛ اور ان میں خارجی نظریات و درانداز معاشرت کے فروغ کو ایک خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے میں جب سیاسی اختلاف رائے کے اظہار کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا اور حکومتوں کی بے عملی جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے تو ایسے میں اختلاف کا اظہار بذریعہ تشدد کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں شدت پسند تنظیمیں شخصیت پرستی کو فروغ دیتی ہیں۔ شخصیت پرستی ایسا رجحان ہے جس میں ایک کرشماتی رہنما کو ایک طرح کی قابلِ پرستش ہستی کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ایسے لوگ بہ آسانی دستیاب ہوتے ہیں جو طاقتور سے نفرت کرتے ہیں مگر اس نفرت میں عملی قدم اٹھا کر مسلح جدوجہد شروع کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ یہ کام ایک پر کشش رہنما کرتا ہے جو طاقتور ظالم کے خلاف مضبوط و جی دار مزاحمت کا استعارہ بنتا ہے۔ اس شخص کو محکوم، مظلوم اور کمزور قوم ایک نجات دہندہ تصور کرتی ہے اور اس کی کہانیاں و کارنامے نئی پود کو سنا کر بھرتیوں کےلیے زمین تیار کی جاتی ہے۔ وہ رہنما ایک قابلِ رشک و قابلِ تقلید تاریخی کردار کی حیثیت حاصل کر لیتا ہے اور نوجوان متاثر ہوکراس کے نقشِ قدم پر چلنے کی ٹھان لیتے ہیں۔
پانچواں محرک ’’مذہب‘‘ زیادہ تر لوگوں کی انفرادی و اجتماعی شناخت کا باعث بنتا ہے۔ فرد کا تعلق مذہب سے ذاتی ہوتا ہے اسی لیے مذہب پر کسی بھی قسم کے حملے کو کوئی فرد اپنی ذات پر حملے سے تشبیہ دیتا ہے۔ مذہب ایک نہایت طاقتور انسانی محرک ہے جو انسانوں کو جوڑتا ہے، پہچان مہیا کرتا ہے، معاشرت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اکثریت کو ایک سماجی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے اور کچھ معاملات میں سیاسی جواز پیش کرتا ہے۔ کیونکہ مذہب رنگ، نسل، قومیت اور علاقائیت سے مبرّا ہوتا ہے اسی لیے اس کا شدت پسندی کےلیے استعمال زیادہ فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ چنانچہ شدت پسند جدوجہد کو توجیہ و جواز فراہم کرنے کےلیے مقدس کتابوں کی مدد لی جاتی ہے۔
اس مقصد کےلیے اپنی مرضی و منشا کی تشریح کرکے لوگوں کی سماجی، سیاسی اور تاریخی محرومی و غصے کو ایک خاص سمت مہیا کی جاتی ہے۔ لیکن مذہب کے علاوہ اوپر بیان کردہ باقی عوامل بھی وہی شدت و جذبہ پیدا کرسکتے ہیں جیسا مذہب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تامل ٹائیگر سیاسی و سماجی وجوہ کی بنیاد پر اپنے ساتھیوں کو خودکش حملوں پر اسی طرز پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہے جیسے آج کل مسلم شدت پسند تنظیمیں مذہب کا سہارا لیتی ہیں۔
اب اگر کوئی بیانیہ دہشت گردی کے خلاف ترتیب دیا جانا مقصود ہے تو متعلقہ شدت پسندی و دہشت گردی کے عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ بیانیے کا ہدف عمومی ہوگا یا مخصوص وجہ کو نشانہ بنایا جائے۔ اسی طرح کسی بھی بیانیے پر اغیار کی چھاپ اس کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ کوئی بھی ایسا بیانیہ جو کسی ایک خاص محرک کو نظر میں رکھ کر ترتیب دیا جائے گا تو شاید اتنا کارگر نہیں ہوگا اور اس مقصد کےلیے ایک کثیر جہتی سوچ و طریقہ کار کی ضرورت محسوس ہوگی۔