ورلڈ بینک سے ایشئن ڈویلپمنٹ بنک کا ’الٹرا ساونڈ‘ بتا رہا ہے کہ حکومت ڈیلیور کرنے کے قابل نہیں، وزیر خزانہ اسد عمر کہتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے قرض نہ لیا تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ سٹاک ایکسچینج بدترین حالت پر آگئی، بجلی اور گیس کے نرخ بلند ترین سطح پر پہنچ گئے، ڈالر دنوں میں ڈیڑھ سو کراس کر جائے گا مگر وفاقی وزیر فیصل واوڈا کہتے ہیں کہ چار ہفتوں میں ایسی ترقی ہونے والی ہے کہ نوکریوں کے لئے بندے نہیں ملیں گے، ایسی خوشحالی ہو گی کہ ٹھیلے والا بھی ٹیکس دے گا۔ آپ ہی بتائیے جس مذکورہ نے آٹھ ماہ میں ڈیلیوری کا سارا نظام ہی تباہ کر لیا ہو، وہ ڈیلیور کہاں سے کرے گی، نوویں مہینے خوشخبری کیسے دے گی۔ چھوڑیں جناب یہ طب کے دقیق معاملات، ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ انڈیا اگلے ایک، ڈیڑھ ہفتے پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے۔ سوشل میڈیا پر شور مچا ہے کہ ہم سی وی کو ٹاکی ماریں یا بندوق کو مگر سوشل میڈیا کے ٹرولر ز کو خود خان صاحب نے پیچھے چھوڑ دیا ہے، کہتے ہیں، میاں مودی کی کامیابی سے امن مذاکرات کا راستہ نکلے گا یعنی وزیرخارجہ جس سے حملہ کروا رہے ہیں وزیراعظم اسی سے امن پیدا کروا رہے ہیں، کالم پھر گائنی وارڈ میں چلا گیا حالانکہ اسے لکھنے والی پنجاب کی وہ وزیر صحت بھی نہیں ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے سپیکر مشتاق غنی کہتے ہیں کہ اگر عوام دو روٹیاں کھاتے ہیں تو ایک روٹی کھائیں اور پھر وہ وقت بھی آئے گا کہ انہیں اڑھائی روٹیاںملیں گی تو مجھے وہ بچہ یاد آ گیا جو کسی امریکی صدر کو اپنی اہلیہ کے ساتھ افریقہ کے کسی سرسبز و شاداب قصبے میں چشمے کنارے سُستاتا ہوا ملا، انہوں نے خاتون اول کے مشورے سے پیش کش کہ وہ ان کے ساتھ چلے،
ان کے ساتھ رہے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ بچے نے پوچھا، پھر کیا ہو گا۔ بتایا گیا کہ وہ کسی بڑی کارپوریشن کا اعلیٰ عہدے دار بنے گا۔ سیاست میں حصہ لے کرامریکا کا صدر بھی بن سکتا ہے۔ بچے نے پوچھا کہ وہ امریکا کا صدر بن گیاتو پھر کیا ہو گا۔ جواب ملا، دنیا کی واحد سپر پاور کا صدر بن کے دنیا پر راج کرنا، جب ریٹائر ہونا تویہیں آجانا اور اسی جگہ لیٹ کر انجوائے کرنا۔ بچہ پی ٹی آئی والوں سے زیادہ عقل مند تھا، بولا، مجھے پاگل مت بناو کہ انجوائے تو میں پہلے ہی کر رہا ہوں ، بالکل اسی طرح، جیسے دو روٹیاں تو پاکستانی نیا پاکستان بننے سے پہلے بھی کھا رہے تھے بلکہ اب تو وہ دو، دو روٹیاں چپڑی ہو کے ملنے والی تھیں۔ پاکستانیوں کو ریکوڈک میں سونے چاندی اور چکوال میں لوہے کے ذخائر کے خواب دکھائے گئے تو خان صاحب کیوں پیچھے رہتے، انہو ں نے ڈیلیوری کے نام پر سمندر سے گیس نکال لی بالکل اس خاتون کی طرح جس نے حاملہ ہونے پر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا مگرنوویں مہینے جا کے پتا چلا کہ اسے گیس تھی۔ میں اخبار اٹھاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ سٹاک ایکسچینج میں ایک دن میں اٹھانوے ارب ڈوب گئے، ورلڈ بنک کہتا ہے کہ مہنگائی کا عذاب مزید بڑھے گااور وزیراعظم اسی دن اعلان کرتے ہیں کہ وہ شریف خاندان کے خلاف مزید مقدمات بنائیں گے ۔ایک ویب سائیٹ ہے، سیاست ڈاٹ پی کے، جو اس وقت پاکستانیوں کو یہ بتا رہی ہے کہ
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے دور میںمصنوعی طور پر ڈالر ، پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں کو کنٹرول کر رکھا تھا، مصنوعی طریقے سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر رکھا تھا، مصنوعی طریقے سے ریلوے کو بحال کر دیا تھا، غلط طریقے سے مریضوں کو ہسپتالوں میںمفت ادویات ملتی تھیں یعنی کرپشن کے ساتھ نہ صرف موٹرویز بن رہی تھیں بلکہ پٹرول بھی چھیاسٹھ روپے لٹر تھا اور دیانتداری کے ساتھ سو روپے لٹر۔ کرپشن والی میٹرو تیس ارب میں بن گئی تھی اور ایمانداری والی میٹرو سو ارب کھا کر بھی نہیں بن پا رہی، کبھی اس کی سڑک کی گنجائش بسوں سے چوڑائی سے کم نکلتی ہے تو کبھی سیوریج نہ ڈالے جانے کا انکشاف ہوتا ہے، کبھی بارش اور ہوا اس کی چھتیں اڑا دیتی ہے تو کبھی علم ہوتا ہے بسوں کے دروازے بس سٹاپ کی طرف نہیں ہیں۔ مجھے وہاں اندازہ ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے جو کام پاکستان میں پہلی مرتبہ کیا ہے وہ پڑھوں لکھوں کو گدھا بنانے کا ہے ۔ میں وہاں کمنٹس دیکھتا ہوں توسوچتا ہوں کہ میں کسی پاگل خانےمیں ہوں کیا؟ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پیجز پرشور دیکھا کہ اسلامی صدارتی نظام آنے والا ہے، مخصوص حوالوں سے معروف تجزیہ کار کی ٹوئیٹ بھی دیکھی، فرمایا گیا، ’ عمران خان پاکستان کے موجودہ سسٹم کا آخری وزیراعظم ہے اور نئے آنے والے سسٹم ’ اسلامک صدارتی نظام‘ کا پہلا صدر پاکستان ہو گا‘ ۔ خداجانے،یہ اسلامی صدارتی نظام کس پارلیمنٹ کی کوکھ سے جنم لے گا، کیا اس سے جس میں اگلے وزیراعظم کے لئے شاہ محمود قریشی کا نام لیا جا رہا ہے۔
یہاں مجھے گاؤں کا وہ سائیں یاد آ گیا جو ذہنی معذوری کی وجہ سے پرائمری پاس نہیں کر سکا تو اسے مدرسے داخل کروا دیا گیا کہ حافظ بنے گا۔ واقعہ نقل کروں، مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کو اپنی بیٹی زیب النساءکیلئے استاد درکار تھا۔ یہ خبر سن کر ایران اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے بیسیوں قادر الکلام شاعر دہلی آگئے کہ شاید قسمت یاوری کرے اور وہ شہزادی کے استاد مقرر کر دیئے جائیں۔ان ایام میں دہلی میں اس زمانہ کے نامور شاعر برہمن اور میر ناصر علی سرہندی بھی موجود تھے۔ نواب ذوالفقار علی خان، ناظمِ سرہند کی سفارش پر برہمن اور میر ناصر کو شاہی محل میں اورنگزیب کے روبرو پیش کیا گیا۔ سب سے پہلے برہمن کو اپنا کلام سنانے کا حکم ہوا، برہمن نے تعمیلِ حکم میں جو غزل پڑھی، اسکا مقطع تھا۔”مرا دلیست بکفر آشنا کہ چندیں بار،بکعبہ بُردم و بازم برہمن آوردم‘۔ یعنی میرا دل اسقدر کفر آشنا ہے کہ میں جب بھی کعبہ گیا، برہمن کا برہمن ہی واپس آیا۔گو یہ محض شاعرانہ خیال تھا اور تخلص کی رعایت کے تحت کہا گیا تھا لیکن عالمگیر انتہائی پابند شرع اور سخت گیر بادشاہ تھا، اسکی تیوری چڑھ گئی اور وہ برہمن کی طرف سے منہ پھیر کے بیٹھ گیا۔میر ناصر علی نے اس صورتِ حال پر قابو پانے کیلئے اٹھ کر عرض کی کہ جہاں پناہ اگر برہمن مکہ جانے کے باوجود برہمن ہی رہتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، شیخ سعدی بھی تو یہی کہہ گئے ہیں۔”خرِ عیسٰی اگر بمکہ رودچوں بیاید ہنوز خر باشد“ مطلب عیسٰی کا گدھا اگر مکہ بھی چلا جائے وہ جب واپس آئے گا، گدھے کا گدھا ہی ہوگا۔ واقعہ عین علمی، ادبی اور فکری ضروریات کے تحت نقل کیا گیا ہے تاہم قارئین اپنی ذاتی ذمہ داری پراس میں علمی، ادبی اور فکری پہلوتلاش کریں، کالم نگار آپ کی سوچ اور اخذ کردہ نتائج کا ذمہ دار نہیں ہے۔