کراچی میں گذشتہ برس پولیس کی گولی سے ہلاک ہونے والی دس سالہ امل عمر کی موت سے متعلق کمیشن کی سربراہ کے حتمی نوٹ پر ان کے والدین نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہسپتال میں سب کچھ درست تھا تو پھر اتنی قانون سازی کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کی سربراہ نے اس واقعے سے متعلق اپنے حتمی نوٹ میں امل عمر کیس میں ہسپتال انتظامیہ کی غفلت کے امکان کو مسترد کر دیا اور قرار دیا کہ ’ایمرجنسی روم کے عملے اور ڈاکٹر میں صلاحیت کا فقدان تھا‘۔
امل کے والدین نے کمیشن کی سربراہ کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کرنے پر تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا ہے۔
امل کے والد عمر عادل نے بی بی سی کو بتایا کہ تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد 13 نومبر کو انھیں ہیلتھ کمیشن کی رپورٹ دی گئی لیکن وہ نوٹ نہیں دیا گیا تھا جس میں چیئرپرسن نے نتیجہ اخذ کیا ہے۔
13 اگست 2018 کو امل عمر اور ان کے والدین کراچی میں ایک تقریب میں جا رہے تھے کہ ٹریفک سگنل پر ان کی گاڑی ایک ڈکیتی کی زد میں آگئی اور پولیس کی فائرنگ میں 10 سالہ امل کی موت واقع ہوئی تھی۔
جب امل عمر کو گولی لگی تو ان کے والدین اُنھیں قریب ترین ہسپتال نیشنل میڈیکل سینٹر لے گئے۔ امل کی والدہ کے مطابق ہسپتال کے عملے نے ان کے مدد کرنے کے بجائے تاخیر سے کام لیا جس کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔ سپریم کورٹ نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیا اور یہ معاملہ ابھی تک زیر سماعت ہے۔
رپورٹ میں کیا کہا گیا تھا؟
پانچ ڈاکٹروں پر مشتمل ہیلتھ کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ’نیشنل میڈیکل سینٹر کے ایمرجنسی روم میں ونٹی لیٹر نہیں تھا، کسی کنسلٹنٹ یا نیورو سرجن کو بلانے کی کوشش نہیں کی گئی، سہولت ہونے کے باوجود ایکسرے نہیں کیا گیا، ہسپتال کا اپنا بلڈ بینک ہونے کے باوجود خون کا انتظام نہیں کیا گیا، ڈاکٹر کے نوٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ دماغ کو شدید چوٹ آئی تھی جس کے لیے سی پی آر یعنی مصنوعی طریقے سے سانس کی فراہمی ضروری ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔‘
مریض کے آمد اور ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں تضاد ہے، 10 بج کر 10 منٹ آمد اور موت کا وقت بھی یہ ہی تحریر ہے جبکہ ڈاکٹر کے بیان کے مطابق 10 بج کر 45 منٹ پر موت ہوچکی تھی۔ 29 نکات پر مشتمل رپورٹ میں ہسپتال کی انتظامی صلاحیت اور انتظامات پر کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
ہیلتھ کیئر کی چیئرپرسن کے نوٹ میں کیا کہا گیا ہے؟
ہیلتھ کمیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر نرگس گھلو نے اپنے نوٹ میں کہا ہے کہ ماہرین کی رائے اور انسپیکشن رپورٹ کی روشنی میں وہ نہیں سمجھتیں کہ این ایم سی غفلت کا مرتکب ہوا ہے۔ ’ہسپتال کے عملے اور ڈاکٹر نے ایمرجنسی روم میں مریضہ کو اٹینڈ کیا اور ہوش میں لانے کی کوشش کی، مصنوعی طریقے سے سانس فراہم کیا گیا لیکن طریقہ کار کمپرومائیزڈ تھا۔ اس کے علاوہ عملے اور تیمارداروں میں رابطے کا بھی فقدان رہا۔‘
امل کے والد عمر عادل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ مکمل رپورٹ کے بجائے صرف جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے اسی کو ہی پڑھے گی کیونکہ انھوں نے چیئرپرسن کو طلب کیا ہے کہ وہ بتائیں جنھوں نے ہسپتال کو کلین چٹ دے دی ہے۔
’میں چاہتا ہوں کہ ایک ایک چیز عوام کے سامنے آئے، ہم تو پبلک کے لیے کھڑے ہیں ہمارا جو نقصان ہوا ہے وہ تو واپس نہیں آسکتا۔ ہیلتھ کمیشن نے جو اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی ہے اس کے مطابق ایسا حادثہ تو پھر ہونا ہی تھا۔‘
حکومت سندھ نے امل عمر کی ہلاکت کے بعد سندھ اِنجرڈ پرسنز کمپلسری میڈیکل ٹریٹمنٹ (امل عمر) ایکٹ 2019 منظور کیا، جس کے مطابق:
ہسپتالوں کو پابند کیا گیا ہے کہ آنے والے ہر زخمی مریض کا بنا کسی تاخیر کے یا میڈیکو لیگل کارروائی کے فوری علاج کیا جائے گا۔
زخمی کا علاج لازمی ہے اور اُن کو فوری طور پر پیسے دینے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔
ہسپتال کے عملے اور زخمی کے لواحقین کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔
عمر عادل کے مطابق حکومت نے دباؤ میں آکر قانون منظور کرلیا۔ جس کے لیے ان کی بیگم نے پرانے قوانین نکالے، رابطے کیے اور حکومت کو قانون کا مسودہ بناکر دیا۔ اب اس پر دستخط ہو چکے ہیں، تکنیکی طور پر یہ قانون لاگو ہے لیکن تاحال ان ہسپتالوں کی وہ چاہے پرائیویٹ ہوں یا سرکاری، نشاندہی نہیں کی گئی جہاں ایمرجنسی کی صورتحال میں جانا چاہیے۔
امل کے والد کے مطابق وہ ’راہ امل‘ کے نام سے ایک فلاحی اداراہ بنا رہے ہیں جو اس قانون پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گا۔
دوسری جانب سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کی سربراہ ڈاکٹر نرگس گھلو سے رابطے کی متعدد بار کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔