وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ میں ہونیوالے فیصلوں سے متعلق میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ نہ بجلی مہنگی کی ہے نہ گیس، ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ پرچھوڑ دیاہے، بیرون ملک سرمائے کی واپسی کے لئے ریکوری یونٹ قائم کردیاگیا ہے، سابق حکومت نے گرمیوں میں یوریا کھاد کے پلانٹ کوگیس کی سپلائی روک دی اورگیس روکنے کے ساتھ ایکسپورٹ کرنے کی بھی اجازت دے دی جس سے یوریا کی پیداوار میں کمی ہوئی اور اب ربیع کی فصل کیلئے ایک لاکھ ٹن یوریا کھاد برآمد کرنا پڑے گی۔ فواد چوہدری نے کہا کہ فی الحال تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس بڑھانے کافیصلہ نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت نے میٹرو بسوں پر آنیوالی لاگت کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے، بقول ان کے ارشد خان کو چیئرمین پی ٹی وی تعینات کرنے اور بورڈ آف گورنرز کی منظوری دیدی گئی ہے۔ وطن عزیز ہی کیا دنیابھر میں جمہوری طریقے سے برسراقتدار آنے والی حکومتیں ان وعدوںپر عمل کرنے کو اپنی اولین ترجیح قرر دیتی ہیں جن پر انہیں عوامی تائید حاصل ہوتی ہے۔ ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ جمہوریت ہوتی ہی جمہور کے لئے ہے۔ چنانچہ نئے نئے منصوبے بنتے ہیں، کچھ پرانے منصوبے ختم کئے جاتے ہیں، کچھ جاری بھی رکھے جاتے ہیں البتہ اس تمام کارگزاری کا مقصد اپنی ساکھ کو بحال کرنا، وعدہ وفائی اور ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر لے کر چلناہوتاہے۔ تحریک انصاف کو یہ بات لمحہ بھرکے لئے بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ وہ ملک سنوارنے اور عوام کی بدحالی کو خوشحالی میں تبدیل کرنے کے وعدے پر حکومت میں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے عوامی امیدیں بھی اتنی ہی زیادہ ہیں۔ وزیر اعظم خود یہ باور کراچکے ہیں کہ وہ غریب کی حالت تبدیل کرنے کو اولین ترجیحات میں جگہ دیں گے بلکہ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ وہ چین سے یہ ہنر سیکھنا چاہیں گے کہ اس نے اپنی 60کروڑ سے زائد آبادی کو کس طرح خط ِ افلاس سے نجات دلائی۔ یہ حقیقت بھی تحریک ِ انصاف کے علم میں تھی کہ مسائل بہت زیادہ ہیں اور ان کو حل کرنے کے لئے جان توڑ محنت کرنا پڑے گی۔ وزیراعظم اسی حقیقت کے پیش نظراپناعہدہ سنبھالنے کے بعد مصروف ِ عمل ہوگئے اور روز کسی نہ کسی محکمے کے بارے میں بریفنگ لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ احسن عمل یہ ہے کہ وزیراعظم کی کابینہ نے فیصلے کرنا شروع کردیئے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ کابینہ کوزمینی حقائق کا ادراک بھی ہے۔ ملک میں بجلی اورگیس مہنگی ہونے کی خبریں سامنے آئیں تو عوام میں مایوسی پھیلنا شروع ہوگئی، اس کے ساتھ ہی جب روزمرہ استعمال کی بنیادی چیزیں جن میں اشیائے خورونوش بھی شامل تھیں، گرانی کی زد میںآئیں تو سوشل میڈیا پر اچھا خاصا طوفان بپا ہو گیا۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران سے دوچارہے جس سے نکلنے کیلئے اسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) سے بھی معاملات اس کی مرضی کے مطابق طے کرنا پڑیں گے جس کے اثرات کاعوام پرمرتب ہونا ناگزیر ہوگا۔ لہٰذا حکومتی ٹیم کو ایسی حکمت عملی طے کرنا پڑے گی کہ خط ِ افلاس کے نیچے زندہ رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو نے پائے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں نہ بڑھانے کا عندیہ خوش کن ہے اور یہ بھی کہ ٹیکس آرڈیننس کو ترمیم کے لئے پارلیمینٹ میں لے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ور نہ متوسط طبقہ مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا۔ جہاں تک میگا پراجیکٹس کی تحقیقات کا تعلق ہے حکومت کو اس ضمن میں ضرور کام کرنا چاہئے تاکہ کرپشن کی نذر ہونے والی دولت کی واپسی کی راہ ہموارہو۔ اس میں شک نہیں کہ حکومت کوہر قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اگر اقتصادی ماہرین نے ملک کے متوسط طبقے کو خوشحال بنا دیا تو اس کا مطلب پاکستان کی خوشحالی ہوگا۔ یہ طبقہ کاروباری اور اقتصادی سرگرمیوں میں شامل ہو گیا تو پاکستان اندازوں سے قبل خودکفالت کی منزل حاصل کرنے میں کامران ٹھہرےگا۔