لاہور ;نظام بدلنے کے لئے لازمی ہے کہ تمام سابق اور موجودہ حکومتوں کو چندماہ کے لئے بطور سزا سرکاری ہسپتالوں اور جیلوں میں رکھا جائے تاکہ عام شہری کی تکلیف کا ذاتی تجربہ کیا جاسکے۔ان ستر برسوں میں کوئی حکومت ایسی نہ آسکی کہ پاکستان کی جیلوں کی حالت
نامور کالم نگار طیبہ ضیاء اپنے کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔اس قابل بنا سکتی کہ کوئی ‘‘شریف ‘‘ انسان عزت و آرام سے قید کاٹ سکتا اتفاق سے نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم بھی آجکل پاکستان کی ایک بدنام زمانہ اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور اس کی حالت زار پر دل گرفتہ ہیں۔ پریشان اور حیران ہیں۔سابق وزیراعظم نواز شریف اور انکی بیٹی کے حوالے سے چند ماہ قبل ہی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ اڈیالہ جیل کی’صفائی’ شروع کروا دی گئی ہے۔ اس وقت بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اس نوعیت کی افواہیں پھیلانے کا مقصد نواز شریف کو ڈرانا ہے۔ نواز شریف کو بزدلی اور سہل طلبی کا طعنہ 1999 سے دیا جا رہا ہے جب انہوں نے ایک آمر کے ساتھ ‘ڈیل’ کر کے سعودی عرب میں جلاوطنی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھاجو انکے سیاسی کیرئیر پر ایک داغ بن گیا۔ عام خیال یہی تھا کہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے عادی نواز شریف جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا نہیں چاہیں گے اوران سے بچنے کے لیے ہر سمجھوتہ کر گزریں گے۔نوازشریف اور مریم نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں رکھنے، انہیں بی کلاس دینے اور عدالتی کارروائی جیل ہی میں کرنے کے فیصلوں نے ایک مرتبہ پھر اڈیالہ جیل کو تمام تر توجہ کا مرکز بنا دیا۔
تقسیم ہند کے وقت پنجاب میں کل اٹھارہ جیلیں تھیں جن میں راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ جیل ایک اہم جیل تھی جہاں 4 اپریل 1979 کو پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ اس سے قبل اس کی ایک کوٹھڑی میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 1988 میں ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کو جنرل ضیا الحق کے حکم پر منہدم کرکے اس قطعہ اراضی پر جناح پارک بنا دیا گیا۔ ضیا حکومت کو ڈر تھاکہ کہیں اس جگہ کو بھٹو کا مزار نہ بنا دیا جائے۔ مشہور شخصیات جو یہاں قید رہ چکی ہیں ان میں ایان علی ،ذکی الرحمان لکھوی ، ممتاز قادری ، یوسف رضا گیلانی، قادیانی رہنما مرزا طاہر شامل ہیں۔سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مشرف آمریت میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزاکے تحت گیارہ فروری 2001 میں گرفتار کیا گیا اور پانچ برس بعد وہ سات اکتوبر 2006 میں اڈیالہ جیل سے رہا ہوئے۔ احتساب عدالت کا فیصلہ تھا کہ انہوں نے بطور سپیکر قومی اسمبلی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا۔1999 میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے مارشل لا لگائے جانے کے بعد میاں نواز شریف کو ایک فوجی عدالت نے اغوا، اقدام قتل، طیارہ اغوا، دہشت گردی اور کرپشن کے الزام میں
عمر قید کی سزا سنا کر اڈیالہ جیل میں قید کر دیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن اور سعودی شاہ فہد کی مداخلت کے بعد عدالت نے انہیں سزائے موت دینے سے گریز کیا اور آخر کار فوجی حکومت سے ڈیل کے نتیجہ میں میاں محمد نواز شریف سعودی عرب جلاوطن کر دیے گئے۔جبکہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر 2018 میں اسی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔اڈیالہ جیل کو کرپشن کا گڑھ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ناپسندیدہ قیدیوں پر تشدد سے لے کر خواتین اور مردوں سے جنسی زیادتی کی داستانیں عام ہیں۔ یہاں قیدیوں کو ان کی پسندیدہ نشہ آور چیزیں بھی مہیا کی جاتی ہیں۔عام سپاہی سے لے کر آفیسر تک بھاری رشوت لے کر اپنی ڈیوٹی یہاں لگواتے ہیں کیونکہ یہ پیسے کمانے کی جگہ ہے۔پاکستان کی تمام جیلوں میں کل چھتیس ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے جب کہ ان کی موجودہ تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ جگہ کم ہونے کی وجہ سے قیدی شفٹوں میں سوتے ہیں، مناسب بیت الخلا یا پنکھا تو وہ چیزیں ہیں جسے قیدی تعیش میں شمار کرتے ہیں‘‘۔ یہاں پر امیر زادے قیدی جیل حکام کا ریٹ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ بہترین اور آرام دہ کمروں کے لیے منہ مانگے دام رشوت کے طور پر دیے جاتے ہیں۔
ایان علی جب تک یہاں رہی اس کو ہر طرح کی سہولت میسر رہی۔ ایک وارڈن نے بتایا کہ ایان علی یہاں پر شہزادیوں کی طرح رہی ہے۔اس کو بہترین اور پسندیدہ کھانوں سے لے کر ہر قسم کی رہائشی سہولتیں فائیو سٹار ہوٹل کی طرح میسر تھیں۔ اور کوئی ناپسندیدہ شخص وہاں پر نہیں مار سکتا تھا۔ اس بات کو میڈیا نے بہت رپورٹ کیا لیکن جیل حکام کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس جیل کے کرتا دھرتا بہت طاقتور ہیں جو ہر طرح کے قانون سے بالاتر ہیں۔ نوائے وقت میں جیلوں سے متعلق ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس کے مطابق پنجاب کی جیلوں میں گنجائش سے57 فی صد زیادہ قیدی ہیں۔ 40جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش 30ہزار 331جبکہ ان جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 47ہزار 674ہے۔سال پہلے کی رپورٹ کے مطابق اڈیالہ جیل میں 150 خواتین اور ان کے 59بچے قید ہیں۔ انسپکٹر جنرل پنجاب جیل خانہ جات کی طرف سے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کی جیلوں میں گنجائش کم اور قیدی بہت زیادہ موجود ہیں۔ پنجاب میں 4ہزار 346قیدی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 57 قیدی ایسے بھی ہیں جو دماغی معذور ہیں۔پنجاب کی مختلف جیلوں میں مجموعی طور پر 913 خواتین قیدی ہیں۔ پاکستان میں اداروں کے خلاف شکایات سننے کیلئے قائم ادارے نے بھی راولپنڈی کی سب سے بڑی جیل اڈیالہ جیل میں خواتین قیدیوں کی حالت زار سے متعلق رپورٹ تیار کی ہے جس کے مطابق اڈیالہ جیل میں خواتین کیلئے تعلیم کا کوئی معقول انتظام نہیں۔ جیل میں سڑنے والی خواتین کو سستے اور فوری انصاف کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوعمر لڑکیاں کپڑے چوری کرنے جیسے معمولی جرائم میں قید ہیں۔ لڑکیوں کا والدین سے رابطہ ہے نہ ہی انصاف ملنے کی امید۔ قیدی لڑکیوں کو کوئی قانونی مدد بھی فراہم نہیں کی گئی۔ملک کی مختلف جیلوں میں خواتین قیدیوں کے ساتھ رات کے وقت بدسلوکی کی جاتی ہے۔