واشنگٹن (ویب ڈیسک) جب امریکہ کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) 11 ستمبر 2001 کے حملے روکنے میں ناکام رہی تو اکثر لوگوں نے یہ سوالات پوچھے کہ کیا ایجنسی ان حملوں کو روکنے کے لیے مزید کچھ اقدامات کر سکتی تھی؟میتھیو سید کا کہنا ہے کہ ایجنسی کو پہلے سے ان حملوں کے شواہد نہ بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔۔۔ ملنے کی اصل وجہ سی آئی اے میں تنوع یعنی مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کی کمی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔حملوں کے اس منصوبے کے شواہد کا پہلے سے پتہ لگانے میں ناکامی کو انٹیلیجنس کی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع معاملات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ وجوہات کو جاننے کے لیے کمیشن بنائے گئے، جائزہ رپورٹس مرتب کی گئیں، تحقیقات ہوئیں اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوا۔ایک طرف وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ سی آئی اے ممکنہ خطرے کے اشارے سمجھنے میں مکمل ناکام رہی تھی۔ جبکہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اس طرح کے خطرات کے بارے میں پہلے سے معلوم کرنا بہت زیادہ مشکل ہے اور سی آئی اے نے وہ سب کچھ کیا جو وہ ممکنہ طور پر کر سکتی تھی۔لیکن کیا ہو کہ اگر آپ کو بتایا جائے کہ یہ دونوں لوگ ہی غلط ہوں؟ اور کیا ہو کہ سی آئی کی حملوں کا منصوبہ پہلے سے جاننے میں ناکامی ایسی ہو جس پر دونوں نے توجہ ہی نہ دی ہو؟ اور کیا ہو کہ اصل مسئلہ انٹیلیجنس کی ناکامی سے بھی اوپر کا ہو اور وہ آج بھی ہزاروں تنظیموں، حکومتوں اور ٹیموں کو خاموشی سے نقصان پہنچا رہا ہو۔اگرچہ اس حوالے سے ہوئی متعدد تحقیقات میں حالات اس نہج پر پہنچنے کی وجوہات جاننے کی کوشش کی گئی تاہم چند افراد ایسے بھی ہیں جنھوں نے سی آئی اے کہ اندرونی ڈھانچے کا بھی مطالعہ کیا، خصوصاً ایجنسی میں لوگوں کو بھرتی کرنے کی پالیسی کا۔ نوکری حاصل کرنے والوں کو نفسیاتی، طبی اور دیگر امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایجنسی انتہائی غیر معمولی افراد کو نوکری دیتی ہے۔سی آئی اے کے ایک نہایت تجربہ کار افسر کہتے ہیں کہ امیدوار کی انٹیلیجنس کا پتہ چلانے کے لیے ’سیٹ‘ کی طرز کے دو اہم امتحان لیے جاتے ہیں اور نفسیاتی پروفائل کے ذریعے ذہنی کیفیت معلوم کی جاتی ہے۔اس افسر کا کہنا تھا کہ جس سال انھوں نے سی آئی اے میں نوکری کی درخواست دی تھی اس سال ایجنسی نے ہر بیس ہزار امیدواروں میں سے صرف ایک امیدوار منتخب کیا تھا۔’جب سی آئی اے کہتی ہے کہ وہ سب سے بہتر کو نوکری دیتے ہیں تو وہ بالکل درست کہتی ہے۔‘اور اگر بھرتی ہونے والے سب نئے چہروں کو دیکھیں تو یہ بالکل ایک ہی طرح کے لگتے ہیں۔ سفید فارم، مرد، اینگلو سیکسن، اور پروٹیسٹنٹ امریکی۔’بھرتی‘ میں اس رجحان کو ’ہوموفائلی‘ کہتے ہیں یعنی کہ لوگ ان لوگوں کو ہی نوکری دیتے ہیں جو ان کی طرح ہی سوچتے ہیں اور اکثر ان کی طرح ہی لگتے ہیں۔یہ ایک طرح سے اس بات کی توثیق ہے کہ آپ ان لوگوں میں ہی گھرے ہوتے ہیں جو آپ کے نقطۂ نظر اور عقائد سے مطابقت رکھتے ہیں۔ دماغ پر ہونے والے ٹیسٹ بتاتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی باتوں کے ذریعے آپ ہی کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے تو آپ کے دماغ کے مسرت حاصل کرنے والے حصے پرجوش ہو جاتے ہیں اور آپ خوشی محسوس کرتے ہیں۔انٹیلیجنس کے ماہر مائلو جونز اور فلپے سلبرزاہن نے سی آئی اے پر کی گئی اپنی تحقیق میں کہا ’سنہ 1947 سے لے کر سنہ 2001 تک سی آئی اے کی شناخت اور ثقافت کا پہلا ٹھوس وصف یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی نسل، جنس، قومیت اور درجہ بندی (باقی امریکہ اور پوری دنیا کے حوالے سے) میں یکسانیت رکھتی ہے۔‘انسپکٹر جنرل کی ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ سنہ 1964 میں سی آئی اے کی ایک شاخ ’دی آفس آف نیشنل ایسٹیمیٹس‘ میں کوئی سیاہ فام، یہودی یا خاتون پروفیشنل نہیں ہوتی تھی اور صرف چند کیتھولک تھے۔رپورٹ کے مطابق سنہ 1967 تک سی آئی اے کے 12 ہزار نان کلیریکل سٹاف میں 20 سے بھی کم افریقن امریکن تھے اور سنہ 1960 سے لے کر سنہ 1980 کی دہائی تک ایجنسی نے وطیرہ بنایا ہوا تھا کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں کو نوکری نہیں دینی۔ سنہ 1975 تک ایجنسی میں کھلے عام ہم جنس پرست لوگوں کو ملازمت نہیں دی جاتی تھی۔سی آئی اے کے ایک بھیدی نے بتایا کہ سنہ 1980 کی دہائی میں نوکری پر رکھنے کا عمل اس طرح تھا کہ نئے افسر بھی بالکل ان افسروں کی طرح لگتے تھے جنھوں نے انھیں نوکری دی ہوتی تھی۔نوکری حاصل کرنے والے لوگ سفید فام، زیادہ تر اینگلو سیکسن، مڈل اور اپر کلاس سےتعلق رکھنے والے اور لبرل آرٹس کالج گریجویٹ ہوتے تھے۔ کچھ خواتین بھی تھیں اور کچھ دوسری نسلوں سے تعلق رکھنے والے بھی جن میں یورپی پس منظر والے بھی تھے۔ ’دوسرے لفظوں میں، وہاں اتنا تنوع بھی نہیں تھا جتنا ان لوگوں میں تھا جنھوں نے سی آئی اے بنانے میں مدد کی تھی۔‘سرد جنگ کے بعد مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں یعنی تنوع کو مزید کم کر دیا گیا۔ ایک سابق آپریشن افسر نے کہا کہ سی آئی اے میں چاول کے دانوں کی طرح سفید افراد رکھنے کا کلچر تھا۔9/11 سے چند ماہ پہلے انٹرنیشنل جرنل آف انٹیلیجنس اینڈ کاؤئنٹر انٹیلیجنس میں کہا گیا تھا ’شروع ہی سے انٹیلیجنس برادری میں سفید فام پروٹیسٹنٹ اشرافیہ رکھے گئے ہیں، یہ اس لیے نہیں کہ یہ کلاس برسرِاقتدار تھی بلکہ یہ اس لیے تھی کہ وہ اشرافیہ اپنے آپ کو امریکی اقدار اور اخلاقیات کا ضامن اور محافظ سمجھتی تھی۔‘یہ یکسانیت کیوں اہمیت رکھتی ہے؟ اگر آپ ریلے ٹیم کے لیے بھرتی کر رہے ہیں تو کیا آپ سب سے تیز دوڑنے والے رنرز نہیں چاہیں گے؟ اس سے کیا فرق پڑے گا کہ وہ ایک ہی رنگ، جنس، سوشل کلاس وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔لیکن یہ منطق دوڑنے جیسے عام کام میں تو ٹھیک لگتی ہے، انٹیلیجنس جیسے پیچیدہ کام کے لیے الٹی ہو جاتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جب مسئلہ پیچیدہ ہو جاتا ہے تو کسی ایک شخص کے پاس سارے جواب نہیں ہوتے۔ ہم سب کو کچھ جگہیں نظر نہیں آتیں، اور ہماری چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت میں خالی جگہیں ہوتی ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ لوگوں کے ایک گروہ کو جس کا نقطۂ نظر اور پس منظر ایک جیسا ہو ایک جگہ لائیں تو ان سب کو وہ بلائنڈ سپاٹس یا خالی جگہیں نظر آ جائیں گی۔ اور اس کا مطلب ہے کہ ان بلائنڈ سپاٹس کو چیلنج یا ٹھیک کرنا تو درکنار ان میں اضافہ ہی ہو گا۔نقطۂ نظر کے اندھے پن کا مطلب ہے کہ ہمیں اکثر اپنے ہی پلائنڈ سپاٹس نظر نہیں آتے۔ ہمارے سوچ کے طریقے ایسے ہو چکے ہیں کہ ہم بہت کم ہی سوچتے ہیں کہ وہ کیسے ہمارے حقیقت کے احساس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔صحافی رینو ایڈو لاج اس دور کے متعلق بتاتی ہیں جب وہ سائیکل پر کام کے لیے جایا کرتی تھیں۔’جب میں اپنی بائیسکل اٹھائے سیڑھیوں پر اوپر نیچے جایا کرتی تھی تو مجھ پر ایک تکلیف دہ سچائی آشکار ہوئی اور وہ یہ کہ زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ آسانی سے نہیں ملتی۔ اپنے پہیے اٹھانے سے پہلے میں نے اس مسئلے پر کبھی دھیان نہیں دیا تھا۔ میں اس حقیقت سے بھی دور تھی کہ رسائی تک کمی سے سینکڑوں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔‘اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب سٹیشنوں پر ریمپس اور لفٹس لگا دینی چاہیے۔ لیکن اس سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ ہم صرف اس وقت بامعنی تجزیہ کر سکتے ہیں جب تخمینے اور فوائد سے متعلق سوچ لیا جائے۔ یہ نقطۂ نظر کے تنوع کے ساتھ جڑتا ہے۔ وہ لوگ جو ہمیں اپنے بلائنڈ سپاٹس دیکھنے میں مدد کرتے ہیں اور جن کی ہم انھیں دیکھنے میں مدد کرتے ہیں۔سنہ 1996 میں اسامہ بن لادن نے تورا بورا کے ایک غار سے امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ تصاویر میں ایک مرد دکھائی دیتا ہے جس کی داڑھی چھاتی تک لٹکتی ہے۔ اس نے فوجیوں کی جیکٹ کے نیچے عام کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔آج جب ہمیں پتہ ہے کہ اس نے کتنی تباہی پھیلائی ہمیں اس کا اعلانِ جنگ بہت خطرناک لگتا ہے۔ لیکن امریکہ کی سب سے بڑی انٹیلیجنس ایجنسی میں کام کرنے والے ایک شخص کہتے ہیں کہ سی آئی اے کو اس پر یقین نہیں تھا کہ داڑھی والا یہ لمبے قد کا سعودی باشندہ جو آگ کے آلاؤ کے سامنے بیٹھا ہے، امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔تجزیہ کاروں کی زیادہ تعداد کو بن لادن قدیم لگتا تھا جس سے سنجیدہ خطرہ محسوس نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رچرڈ ہالبروک جو صدر کلنٹن کی انتظامیہ میں سینیئر افسر تھے اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں:’یہ کیسے ممکن ہے کہ غار میں بیٹھا ایک شخص دنیا کے سرکردہ مواصلاتی معاشرے کو بے رابطہ کر دے۔‘ایک اور نے کہا: ’صاف بات یہ ہے کہ کیونکہ وہ شخص غار میں رہتا تھا اس لیے انھیں اس بات کا خیال تک نہ آیا کہ بن لادن اور القاعدہ کو ڈھونڈنے کے لیے زیادہ ذرائع استعمال کیے جائیں۔ ان کے لیے وہ پسماندگی کا نچوڑ تھا۔‘اب ذرا دیکھیں کہ کوئی شخص جو اسلام کے متعلق کچھ جانتا ہے اسی تصویر کو کیسے دیکھے گا۔بن لادن نے یہ سادہ کپڑے اس لیے نہیں پہنے تھے کہ وہ ذہانت یا ٹیکنالوجی میں پسماندہ تھا۔ بلکہ وہ اس لیے پہنے تھے کہ وہ پیغمبرِ اسلام کو اپنا ماڈل سمجھتے تھے اور ان ہی کی طرح سادگی سے اٹھتے بیٹھتے نظر آنا چاہتے تھے۔ مغرب میں رہنے والوں کو یہ پسماندہ لگتا ہے لیکن یہ عین اسلامی روایت ہے۔ لارنس رائٹ نے بھی 9/11 پر پیولٹزر انعام جیتنے والی کتاب میں لکھا ہے کہ بن لادن نے اپنے آپریشن کو ایسی تصاویر کے ذریعے ترتیب دیا جو کے بہت زیادہ مسلمانوں کے لیے تو بامقصد تھیں لیکن ان کے لیے عملی طور پر بالکل پوشیدہ تھیں جو اس عقیدے سے واقف نہیں تھے۔‘جونز لکھتے ہیں ’داڑھی اور آگ کے آلاؤ کی کہانی ایک بڑے نمونے کا ثبوت ہے جسے غیر مسلم امریکیوں اور انٹیلیجنس کے تجربہ کار افراد نے ثقافتی وجوہات کی بنیاد پر اہمیت نہیں دی۔غار اس سے بھی زیادہ بامعنی ہے۔ جیسا کہ سب مسلمانوں کو پتہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام نے مکہ کے ظلم کرنے والوں سے فرار ہو کر غار میں پناہ لی تھی۔ ایک مسلمان کے لیے غار ایک مبارک جگہ ہے۔ اسلامی آرٹ بھی غاروں کی اندورنی تصاویر سے بھری پڑی ہے۔بن لادن نے تورا بورا میں اپنے قیام کو اپنی نجی ہجرت کے طور پر ماڈل کیا اور غار کو ایک پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا۔ جیسا کہ بن لادن کے متعلق ایک سکالر کہتے ہیں: ’بن لادن پرانے خیالات نہیں رکھتے تھے، وہ حکمتِ عملی بنانے والے تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ قرآن کے تصور کو کس طرح ان کے لیے استمعال کیا جا سکتا ہے جو بعد میں 9/11 کے حملے کرنے والے شہید بن جائیں۔‘تجزیہ کار اکثر اس سے بھی گمراہ ہوتے تھے کہ بن لادن اکثر اپنے اعلانات میں شاعری استعمال کرتے تھے۔ ایک سفید فام مڈل کلاس تجزیہ کار کو شاید یہ انوکھا لگے، جس سے اس کے ذہن میں ’غار میں ملا‘ کا تصور مزید تقویت پائے۔ تاہم مسلمانوں کے لیے شاعری کا مطلب مقدس ہے۔ طالبان بھی اکثر اپنے اعلانات میں شاعری کا استعمال کرتے ہیں۔سی آئی اے کی سوچ میں ایک اور نقص یہ سمجھنا تھا کہ بن لادن امریکہ کے خلاف لڑائی شروع نہیں کریں گے۔ وہ جنگ ہی کیوں شروع کریں جو وہ جیت ہی نہیں سکتے؟ ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ جہادیوں کے لیے فتح زمین پر نہیں بلکہ جنت میں حاصل کی جاتی ہے۔اس منصوبے کے لیے القاعدہ کا کوڈ ’دی بگ ویڈنگ‘ یعنی ’بڑی شادی تھا۔‘ خود کش بمباروں کے نظریے کے مطابق شہادت کا دن ان کی شادی کا دن بھی ہوتا ہے جب جنت میں حوریں انھیں خوش آمدید کہتی ہیں۔سی آئی اے کو چاہیے تھا کہ وہ القاعدہ کے لیے زیادہ وسائل مختص کرتی۔ وہ ان میں شامل ہونے کی کوشش کرتے۔ لیکن وہ اس کی فوری ضرورت سمجھنے سے قاصر تھے۔ انھوں نے زیادہ وسائل نہیں دیے کیونکہ وہ اسے خطرہ ہی نہیں سمجھتے تھے۔انھوں نے القاعدہ میں خفیہ طور پر شامل ہونے کا خیال اس لیے نہیں کیا کیونکہ وہ اپنے تجزیے میں پائی جانے والی کمی سے لاعلم تھے۔ مسئلہ 2001 کی خزاں میں نقطے سے نقطہ ملانا نہیں تھا بلکہ تمام انٹیلیجنس کے دائرے کی ناکامی کا تھا۔ایجنسی میں مسلمانوں کی کمی صرف ایک مثال ہے کہ یکسانیت کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی انٹیلیجنس ایجنسی کس طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ اگر زیادہ متنوع گروہ ہوتا تو نہ صرف القاعدہ بلکہ دنیا بھر میں خطرات کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا تھا۔سی آئی اے میں ملازمین کی ایک بڑی تعداد کا تعلق مڈل کلاس خاندانوں سے ہے جنھوں نے تھوڑا بہت مشکلات کا سامنا کیا ہو، یا ان چیزوں کا جو بنیاد پرستی کی طرف توجہ دلوا سکتی ہیں، یا پھر ایسے کوئی سے بھی تجربات جو انٹیلیجنس کے عمل میں ابتدائی روشنی ڈال سکیں۔کسی متنوع ٹیم میں ان میں سے کوئی بھی چیز ایک اثاثہ ہوتی ہے تاہم بطور ایک گروہ کے اس میں خامیاں تھیں۔لیکن یہ صرف سی آئی اے سے متعلق نہیں ہے۔ حکومت کی طرف نظر دوڑائیں، قانونی کمپنیوں کی طرف، آرمی لیڈر شپ ٹیمز، سینیئر سرکاری ملازمین، بلکہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اعلیٰ اہلکاروں کی طرف بھی۔ ہم لاشعوری طور پر ان لوگوں کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں جو ہماری طرح سوچتے ہیں۔ ہم شاذ و نادر ہی خطرہ بھانپتے ہیں کیونکہ ہمیں اپنے ہی بلائنڈ سپاٹس کا علم نہیں ہوتا۔کمیڈین جان کلیز یہ اس طرح سمجھاتے ہیں۔ ’ہر ایک کے نظریات ہوتے ہیں۔ خطرناک لوگ وہ ہیں جنھیں اپنے نظریات کے متعلق اداراک نہ ہو۔ مطلب یہ کہ جن نظریات پر وہ کام کرتے ہیں وہ زیادہ تر لاشعوری طور پر ہوتا ہے۔‘انسانی گروہوں میں تنوع کی درست مقدار لانا آسان نہیں ہے۔وہی باتیں دہراتے، ان کی تائید کرتے اور محدود کرنے والے دماغوں کی بجائے نظریات کو چیلنج کرنے والے، ان میں اضافہ کرتے اور ان کی نشوونما کرنے والے درست دماغوں کو اکٹھا کرنے کے پیچھے ایک سائنس ہے۔ اور یہ تنظیموں بشمول سکیورٹی ایجنسیوں کے لیے مسابقتی فائدے کے لیے ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ اس طرح ایک مکمل چیز اپنے حصوں کے مجموعے سے بھی بڑی بن جاتی ہے۔9/11 کے بعد سی آئی اے نے بامقصد تنوع کی طرح قدم بڑھائے ہیں لیکن اب بھی ایجنسی کو اس مسئلے کا سامنا رہتا ہے۔سنہ 2015 میں سی آئی اے کی ایک اندرونی رپورٹ میں بہت زیادہ تنقید کی گئی تھی۔جیسا کہ اس وقت کے ڈائریکٹر جان برینن نے کہا تھا کہ ’سٹڈی گروپ ہماری ایجنسی پر بہت تنقیدی نظر رکھنے کے بعد اس واضح نتیجے پر پہنچا ہے کہ سی آئی اے کو چاہیے کہ وہ متنوع اور ملانے والی قیادت کا ماحول پیدا کرے جو ہماری اقدار چاہتی ہیں اور ہمارا مشن جن کا مطالبہ کرتا ہے۔