تحریر : کرنل محمد انور مدنی
دنیائے بے ثبات میں ہر انسان منفرد طرز ِزندگی رکھتا ہے ۔نگاہ تاریخ نے گلشن ِہستی کو ویرانیوں اور بربادیوں کے شعلوں سے بھسم کرتے ،سفاکیوں اور خون آشامیوں سے بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلتے اور سہاگ ِانسانیت لوٹتے اُن لوگوں کو دیکھا ہے جو خالق ومعبود کو نہ پہچانتے ہیں اور نہ ہی بندگی کرتے ہیں بلکہ نیکی کے جتنے چراغ اُن کی زد میں آئیں اُنہیں گُل کرنے کے درپے رہتے ہیں ۔لیکن دوسری طرف وہ احباب ِ ذی قدر بھی جلوہ فرما ہیں جو اپنی قوتیں عروس ِ گیتی کی نوک پلک سنوارنے میں صرف کرتے ہیں۔
علم وعمل کے کاروان ِحکمت کی قیادت اُن کا طرہ امتیاز ہوتا ہے ۔زندگی کے سنسان صحرائوں میں نیکیوں کے خیاباں آباد کرنا اُن کا شوق ہوتا ہے ۔شاہراہ ِ حیات پہ ہر قدم انتہائی ذمہ داری سے رکھنا اُن کا افتخار ہوتا ہے۔ایسے ہی ذی مرتبت لوگوں میں عشق ِرسول ۖکے سفیر ،محبت آل ِرسول ۖکے پرجوش علم بردار ،علمی وادبی حلقوں میں معروف اسلامی سکالر ، معتدل اور ذہین سیاسی قائد اور سماجی رہنماہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے ادیب اور قادر الکلام شاعرجناب مخدوم سید علی عباس شاہ ہیں کہ جن کاقلم محض ایک بلند پایہ ادیب کاہی قلم نہیں بلکہ ایک داعی اور مربی کا قلم بھی ہے۔
آپ کی تحریرمیں تحقیق کے ساتھ خلوص اور دردمندی کی وجہ سے گہری تاثیر پائی جاتی ہے ۔آپ سادہ مگر دلچسپ اور مئوثرانداز سے بات کہنے کی قابل ِرشک صلاحیت رکھتے ہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ علمی ثقاہت کے بوجھ تلے شاعری اور تحریر کی شگفتگی دم توڑ جاتی ہے مگر آپ کی نثر ہو یا نظم نمایاں خوبی یہ ہے کہ خالص علمی موضوعات کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے بھی ان کی تحریرمیں سلاست و روانی کے ساتھ تازگی برقرار رہتی ہے۔
آپ نے افراط وتفریط کے اس دور میں استقامت کے ساتھ تحریر وتقریر کے ذریعہ اپنے تبلیغی مشن کو جاری رکھا ہواہے ۔یہی وجہ ہے کہ دین سے سچی الفت رکھنے والے ان کے نیاز مند اور ممنون دکھلائی دیتے ہیں ۔میلاد النبی ۖ کی پرنور محافل ہوں یا اہل ِبیت ِرسول کی محبت کاذکر ،اصحاب ِرسول اور اولیاء اللہ کی منزلت کا اظہار ہو یا صوفیائے کرام کے ملفوظات کا تذکرہ آپ کی زبان وقلم اسلاف کی ترجمان ہوتی ہے ۔جلوت ہو یا خلوت ، تحریر ہو یا تقریر ،اعتقادی نظریات ہوں یا فروعی معاملات کبھی بھی آپ نے اکابرین ِامت کے مسلمہ مئوقف اور اجتہادی فیصلوں پر اپنی تحقیق وتدقیق اور رائے کو مقدم نہیں جانا بلکہ پوری جانفشانی سے راسخ الاعتقادی کے مبلغ ہیں۔
قوت ِگویائی نعمت بھی ہے اور طاقت بھی ۔بے حس قوموں کے لیے زندگی کی نوید بھی ہے اور الجھے بکھرے جذبات کے لیے نشان ِمنزل بھی ۔ٹوٹے دلوں کے لیے راحت وتسکین بھی ہے اور مردہ دلوں کے لیے مسیحائی بھی ۔کمزوروں کے لیے استقامت بھی ہے اور جوانمردوں کی علامت بھی اندھیروں میں سراج ہے تو فتح ونصرت کا تاج ۔غرض قوت ِنطق وہ شرف ِلطیف ہے جس سے ایک خاکی جسم اپنے انواع سے ممتاز ہوکر انسانیت تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جہاں شمشیریں رُک جاتی ہیں وہاں تقریریں نہیں رکتیں ۔ سنگین دلوں کے سومنات جوتیز دھار ِتیغ سے فتح نہ ہوسکیں زباں کی جادوبیانی سے بڑی آسانی سے زیر دام آجاتے ہیں ۔دلوں میں اتر جانے والی گفتگو بہار کی اُس بارش کی طرح ہے جس کا ایک ایک قطرہ بنجر زمینوں میں روح بن کر اترتا ہے اور صحرا کو گلستاںبنا دیتا ہے۔
کوہ ِصفا پر تسنیم وکوثر سے دُھلے ہوئے مقدس الفاظ ہی تھے جن کے نور سے کفر وشرک کے اندھیروں میں ہدایت کے چراغ روشن ہو گئے۔ کیادلنشیںکلام تھا کہ جس کے آگے فصحائے عرب بے زبان ہو کر رہ گئے ۔الغرض خطابت ایسے فن کا نام ہے جس سے دوسروں کے سامنے اپنے مؤقف و مدعا کوخوبصورت انداز میں پیش ہی نہیں کیا جاسکتا بلکہ منوایا بھی جاسکتا ہے ۔آج کے پرفتن دور میں افراتفری ،قتل و غارت ،فرقہ پرستی کا طوفان ،نفرتوں کی یلغار یہ سب کچھ ان خطیبوں کی زبان ِآتش فشاں کانتیجہ ہے جن کے ذہنوں میں طاغوت نے زہر گھول رکھا ہے ۔چراغ ِمصطفوی ۖسے شرار ِبولہبی کی ستیزہ کاریوں تک خطبا کے کردار اور خطبات کے اثرات کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مخدوم علی عباس شاہ ان حقیقت شناس اہل ِحق خطبامیںسے ہیں جن کے خمیر میں دین ِمصطفٰی ۖکی محبت رچی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی تقریریں اور تحریریں جہاں ناموس ِ مصطفٰی ۖ،عظمت ِاہل ِبیت ِاطہار وا صحابِ کبار کی امین ہیں وہیں وطن ِعزیز سے وفا کے جذبے سے سرشار ہوتی ہیں۔آپ کی خطابت میں شائستگی اور سنجیدگی کے اظہار کے ساتھ جہاں دلائل کی بھرمار ہوتی ہے وہاں الفاظ کا دامن محبت سے تربتر ہوتا ہے ۔دلوں میں اتر جانے والی زبان ِفیض نے اِن کے گرد محبت کرنے والوں کا ایک جہاں آباد کر رکھا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکیزہ خیالات کے اظہار کے لیے قلب ونظر کی طہار ت نماز کے وضو کی طرح ضروری ہے ۔آواز اور لہجہ کتنا ہی دلفریب کیوں نہ ہو صراط ِمستقیم کی نشاندہی کے لیے کبھی کارگر ثابت نہیں ہوتا ۔بے عمل مقرر کی تقریر بے موسم بارش کی مانند ہے جس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔لوگوں کے جذبات ابھار کر دین میں فساد پیدا کرنے والا شعبدہ باز تو ہوسکتا ہے پاک رسو ل ۖکے منبر کا وارث نہیں ہو سکتا۔
مخدوم سیدعلی عباس شاہ صاحب کی ہمہ جہت شخصیت میںتقویٰ وپرہیزگاری ،شب بیداری و جگر کاری آپ کے لطیف مزاج کا حصہ ہے ۔تصوف وطریقت گھر کی میراث ہے توحسب ونسب کی شرافت آپ کا نصیب ہے ۔آپ کے شبانہ روز خانقاہی طرزِزندگی کے تحت اورادووظائف میں گزرتے ہیں۔سلسلہ عالیہ حسینیہ حیدریہ کی روحانی درگاہ ِفیض کی مسند ِارشاد کے وارث ہیں۔ہزاروں لوگ اپنے دلوں کی صفائی کے لیے آپ کے حضور دامن پھیلائے حاضر ہوتے ہیں ۔ملک کے طول وعرض میں پھیلے آپ کے عقیدت مند مریدین جن کی روحانی تربیت آپ کی ذمہ داری ہے آپ کی مصروفیت کا حصہ ہیں۔
آپ کے خطابات ، مقالات ،ارشادات اور علمی نوادرکا ایک ایک لفظ جہاں محبت سے اجلا اور نکھرا ہے وہیں خوشبودار بھی ہے ۔آپ کی مثال اُس پھول کی سی ہے جو کانٹوں میں کھلتا اور مسکراتا ہے نہ صرف پاس سے گزرتی ہوائوں کو مہک دار بناتا ہے بلکہ مسلنے والے ہاتھ بھی خوشبودار بنا دیتا ہے۔ آج کے اس دور میں بے مقصد شاعری کے دریا سُوبہ سُو امنڈتے دکھائی دیتے ہیں جن میں لب و رخسار ،شراب وکباب کے تذکروں میں رنگ ِمجازی نمایاں اور حسن ِناپائیدار کی مدحت میں مادی ہوس کے خطرناک جام چھلکتے نظر آتے ہیں۔
گویا حقیقت سے دور مجازی افسانوں کی فراوانی کو شاعری کا مقصد ِاولین بنا لیا گیا ہے جس سے لادینیت کو کافی فروغ حاصل ہوا۔نوجوان معاشرے میں اخلاقی پستی ،دین سے بیگانگی ،تصوف سے ناآشنائی ،ذکر وفکر سے انحراف کی خوفناک اور مایوس کن طلسم آمیزصورت ِحال نے جنم لیا ہے آخر اس تنائو اور بگاڑکا ذمہ دار کون ہے ۔یقینامغربی تہذیب وتمدن کے دلدادہ ،محبوب ِحقیقی کے اوصاف ِ جلیلہ سے ناواقف ،راہِ سلوک کی خط ِمستقیم سے نا آشنا ،حقیقی عشق وکیف کی لذتوں سے بے بہرہ ، دنیاوی شہرت وہوس کی خاطرأسْفَلَ سٰفِلِیْن کی وادیوں میں آسودہ خوا ب نام نہاد شعراء ہیں۔
احکام ِشریعت کا اتباع وابلاغ آپ کا مقصد ِتخلیق ہے تو تصوف وطریقت کا سرچشمہ آپ کے گھر کی جاگیر ہے ۔جذب ومستی ،کیف ونیاز آپ کے ضمیر میں شامل ہے ۔سرور ِ دوجہاں ۖسے آپ کا نسبی وقلبی تعلق ہے۔ علوم ِشریعہ اور رموز ِطریقت پر دسترس حاصل ہے ۔طبیعت میں لطافت ونفاست کا عنصر ،شائستگی فن ،بے ساختگی ٔاظہار ، جذبات وحقائق کی ہم آہنگی کا سلیقہ آپ کا طرہ امتیاز ہے سرمستی وادب کے امتزاج سے پیدا ہونے والے ان کے لہجے میں کھنک بھی ہے اورکسک بھی ،اس لیے وہ دل ودماغ کو بیک وقت متاثر کرتا ہے۔
آپ نے تقریباًتمام شعری اصناف ،حمد ،نعت ، غزل ،منقبت ،نظم ،مرثیہ وغیرہ پر فارسی ،اردواور پنجابی زبانوں میں طبع آزمائی فرمائی ہے۔ آپ کے رشحات میں کمال درجہ کا نیاز وگداز،طلب واشتیاق ،جذب ومستی ،سیرت ِمصطفوی کے خدوخال ،ملی آشوب کا عکس ، طبع ِگراں کو ہلکا کرنے کا سامان پڑھننے سننے والوں کو بہم میسر آتا ہے ۔آپ کے کلام میں الفاط کی جھلمل اور اشعار کی ترنم خیزیاں ھُوْ کا عالم طاری کر دیتی ہیں۔
بعض مقامات پر تو کئی کئی واقعات ومعجزات اور کمالات کے تذکرے کنایوں اور استعاروں کی جل تھل میں سما جاتے ہیں ۔آپ کی نظم کاہرشعراورنثرکی ہر سطر جاندار بھی ہے او رشاندار بھی ۔جام جم سے کہیں سوا یہ جام حقیقی مستیوں سے سرشار کر دیتے ہیں۔
ایک اور پہلو سے آپ کے فن ِسخن کا جائزہ لیں تو جہاں آپ کے اشعار میں مدحت ِمحبوب ِدوعالم اور قصائد ِآل ِمصطفٰی کے تذکرے اوج پر ہیںاور غزلیات میں طہارت کا حسن اپنے جوبن پر ہے وہاں منکرین اوصاف ِنبوت اور دشمنان ِعترت ِمنعوت ِجہاںسے بیزاری کا رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے ۔چونکہ آپ کا نسبی تعلق بھی خاندان ِرسول ۖسے ہے اس لیے آپ کا پسندیدہ موضوع ِسخن عظمت ِاہل ِبیت وشان ِاصحاب ِرسول ہے ۔مریدوں کی محفل ہو یا بزم ِیاراں سجی ہواگر آپ کی دکھتی رگ پہ ہاتھ آجائے تو پھر آپ کی سخنوری کا آفتاب غروب ہونے کو نہیں آتا۔
کیونکہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ جس کو جس سے پیار ہوتا ہے مَنْ أحَبَّ شَیئاً فَأِکْثَرَ ذِکْرُہْ اس کی زبان پر اسی کا ذکر اذکار ہوتا ہے۔ مخدوم سید علی عباس شاہ کو اپنے موضوعات ونظریات سے صرف دلچسپی اور ہمدردی ہی نہیں ، عشق ہے بلکہ عشق بھی جنون کی حد تک ہے جو ان کے عمیق مطالعے اور گہرے مشاہدے کا بین ثبوت ہے۔ وہ قابل ِتحسین ہیں۔
ایک منفرد طرز کے محقق اور جادو بیاں مقرر ہیں اور اسلامی تاریخ وتحقیق کے حوالے سے درجنوںمقالات ومضامین کے مصنف ہیں ۔اگر ان کی تمام تصانیف کے حوالے سے ذکر کیا جائے تو ایک طویل داستان بن جائے گی ۔آپ کا انداز ِتحریر مئوثر ،جاندار اور مدلل ہے جس سے ہر شخص ہمیشہ مستفید و مستفیض ہوتا رہے گا۔
تحریر : کرنل محمد انور مدنی