تحریر : شاہ بانو میر
27 فروری 2016 تاریخی دن جس دن سفیر پاکستان جناب غالب اقبال اور ادب کے سفیر جناب ڈاکٹر تقی عابدی صاحب کے ہمراہ شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کے پروگرام میں تشریف لائے ۔ سبحان اللہ کار سے دونوں اترتے ہیں اور جناب سفیر پاکستان انتہائی انکساری سے ڈاکٹر تقی عابدی صاحب کو پہلے ہال میں داخل ہونے کا کہتے ہیں یہ منظر اتنا خوبصورت تھا اور بالکل موجودہ دور کے غیر مہذب انداز معاشرت سے ہٹ کرتھا۔
ایسا خوبصورت لمحہ کہ میں کچھ لمحات کیلئے ماضی کے مکرم استاذہ کرام کی تعظیم کرتے شاگردوں کو سامنے دیکھنے لگی آج دیکھا کہ اپنی عاجزی انکساری کے سبب ایسے لوگ بڑے کہلاتے ہیں . جناب سفیر غالب اقبال صاحب کا یہ خاصہ (انکساری) بہت کم بلند مرتبت شخصیات میں دیکھنے کو ملتا ہے
سفیر محترم جیسے ہی ہال میں داخل ہوئے تو پروگرام میں شامل خواتین کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر آپ قدرے حیرت زدہ تھے اور آپ نےخواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے اتنی تعداد میں خواتین کو نہیں دیکھا یہ خوش آئیند ہے . آپ نے تمام خواتین کو سفارت خانہ پاکستان مدعو کیا . کہ 23 مارچ کو اس سے دوگنی تعداد میں خواتین سفارت خانہ میں آئیں ان کی دعوت پرتالیاں بجا کر خواتین نے خوشی کا اظہار کیا۔
شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کی خوش نصیبی کہ محترم غالب اقبال صاحب کا ادبی رخ ڈاکٹر تقی عابدی صاحب نے متعارف کروایا ان کا کہنا تھا . سفارت کاری کے حوالے سے تو “”اپنا تعارف آپ ہوا بہار کی ہے “” مگر غالب اقبال صاحب کے نام سے پیوست ادبی رخ شائد ہی کسی کو معلوم ہو کہ یہ کس قدر ادب شناس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں . غالب صاحب کی والدہ مصنفہ ہیں ادب سے گہرا شغف رکھتی ہیں۔
اردو ادب کے شعراء پر جب جب مشکل وقت آیا یا وہ کسی حکومتی عتاب کی نذر ہوئے تو ایسے میں ہمیشہ ان کی والدہ نے نہ صرف اخلاقی لحاظ سے ان کی مدد کی بلکہ دامے درمے سخنے بھی بغیر کسی تشہیر کے ان کی ہمیشہ مدد کی . فیض احمد فیض کے برے وقت میں جب اپنے پرائے ہو گئے تھے اس مشکل گھڑی میں غالب صاحب کی والدہ انکی ہمت بندھاتی رہیں اور ہر طرح سے مدد بھی کرتی رہیں بغیر کسی تشہیر کے یہ ظرف بہت کم لوگ رکھتے ہیں۔
ایسی بلند ظرف والدہ کے بیٹے غالب اقبال بھی انہی کی طرح اعلیٍ ظرف رکھتے ہیں. ان کی والدہ کا ادب سے لگاو ان کے بیٹے کے نام سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے غالب اقبال دو ایسے تاریخی شعراء جن کی نظیر ملنی مشکل ہے . ایسا نام جب رکھا جاتا ہے تو وہ شخصیت نام کی مناسبت سے ویسی ہی باوقار ذہین اور انفرادیت کی حامل ہوتی ہے۔
جناب سفیر کی تقریر الفاظ کے لحاظ سے معنویت کے حساب سے اور ضخامت کے اعتبار سے عام ذہن سے تجاوز کرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی . ان کا خطاب اعلیٰ تعلیم٬ اردو زبان کی مہارت اور ان کی وسیع سوچ کی مظہر تھی . ماحول پر ان کی مکمل گرفت تھی بارعب انداز تکلم اور متوازن لب و لہجہ کسی طور توجہ کو کہیں اور مرکوز نہیں ہونے دے رہا تھا۔
جناب غالب اقبال صاحب نے اپنی تقریر میں خواتین کے معاشرے میں مضبوط رول کو مزید اجاگر کیا اور انکی ہمت کو بڑہاتے ہوئے کہا کہ آپ بنیاد ہیں گھریلو نظام کی اور آپکی سوچ کا عکس اولاد کے قول و فعل کی صورت سامنے آئے گا . آپ لوگ دیار غیر میں ہیں اس لئے بہترین پاکستان کے تصور کو راسخ کرنے کیلئے ان کے ساتھ معاونت کریں۔
بچوں کو ایسے انداز میں پرورش کریں کہ ان کا اعتماد اور سوچ کی وسعت پھیلے وہ یہاں کی سیاست میں جلوہ گر ہوں اور پاکستانی لوگوں کے مسائل کو بڑے تناظر میں اسمبلیوں میں جا کر اجاگر کریں واحد یہی حل ہے جس سے موثر انداز میں آپ اپنے لیے اپنی اگلی نسل کیلئے کچھ کرجائیں گے۔
سفیر محترم نے دو نمبر کاغذات پر ہلکے پھلکے انداز میں روشنی ڈالی . ہال میں خواتین اس وقت مسکرا اٹھیں جب سفیر محترم نے بتایا کہ آج تک کچھ اہم لوگ ان سے بے ساختہ پوچھتے ہیں کہ جناب پاکستان ملک ہے یا گجرات ؟ اور جب وہ انہیں واضح کرتے ہیں کہ پاکستان ملک کا نام ہے اور گجرات شہر کا نام ہے تو وہ تعجب سے پوچھتے ہیں کہ ایک شہرسے لوگ اتنی بڑی تعداد میں کیسے ہر ملک میں موجود ہیں؟ کیا وہاں کے سب لوگ یہاں آگئے ؟؟ان کا کہنا تھا کہ سب ان کے کام کی بہت تعریف کرتے ہیں حالانکہ انہیں حکومت پاکستان خدمات کے عوض تنخواہ دیتی ہے۔
پہلے تو ان کی بات سمجھ نہیں آئی مگر سوچ سوچ کر جب میری ناقص عقل میں ان کی بات سمجھ آئی تو دل اش اش کر اٹھا جناب سفیر کی سادہ سی بات میں بہت معنی خیز پیغام چھپا ہوا تھا شائد ان کی بات کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ ایک آدمی جو جاب کو پوری ایمانداری جانفشانی اور توجہ سے کرتا ہے وہ اس لئے عام لوگوں کیلئے قابل تعریف یا منفرد بن جاتا ہے بد نصیبی سے پاکستان میں جاب سے وابستہ سہولیات لینے کا عام رواج ہے۔
مگر بدلے میں مقدور بھرذمہ داریوں کو احسن انداز میں نبھانے کا رواج عام نہیں ہے اپنے خطاب میں انہوں نے ادب کے حوالے سے شاہ بانو میرادب اکیڈمی کی منظم شاندار ٹیم کو سراہا اور میگزین کے شاندار اجراء پرمبارکباد دی انکا کہنا تھا کہ تصاویر تشہیرات پروگرامز کی نہیں ضرورت اخلاص کے ساتھ ذمہ داری سمجھ کر کام کرنے کی ہے اصل ضرورت بھرپور جدوجہد کی ہے کام کی ہے۔
اہلیت کے مطابق سب اپنا اپنا حصہ ڈالیں تا کہ بیرون ملک پاکستان کا نام بہتر ہو اپنی سوچ کو اپنے دور میں سفارت خانہ کے نظام کو جدید بنا کر کامیاب نتائج دکھا کر محنت کا نتیجہ دکھا چکے ہیں . اس لئے جانتے ہیں کہ محنت سے ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے تقسیم انعامات کے بعد جناب سفیر غالب اقبال رخصت ہوگئے۔
مگر پروگرام میں ان کا ذکر خیر آخر تک رہا ان کی آمد نے اس پروگرام کو تاریخی بنا دیا خواتین نے کہا کہ انہیں پہلی بار جناب سفیر کو سامنے سننے کا موقعہ ملا ہے ان کی سبق آموز باتوں نے ان کو بہت متاثر کیا ہے اب وہ اپنی کمیونٹی کے بہترین تاثر کیلئے انفرادی نہیں اجتماعی کوششیں کریں گی۔
خواتین کا کہنا تھا کہان کا ذہن کھلا ہے اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے ان کی آمد اکیڈمی کی افادیت پر مہر ہے جو ادارے کی اراکین کی حوصلہ افزائی اور مزید بہتر کارکردگی کیلئے ضروری امر ہے. شاہ بانو میر ادب اکیڈمی مشکور ہے جناب سفیر آپکی تاریخی آمد کی۔
تحریر : شاہ بانو میر