میں نے اپنے بھائی امیر العظیم کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد کیا اور اب جبکہ وہ ملک کی واحد جمہوری اور منظم ترین سیاسی پارٹی جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل مقرر کئے گئے ہیں تو ان کے لئے مبارکباد کے الفاظ کے ساتھ ان کے لئے دل سے ڈھیروں دعائیں بھی نکلتی ہیں کہ وہ ایک ایسے فریضے کی ادائیگی کے لئے منتخب کئے گئے ہیں جو پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا تخت ہے۔ جماعت کے سیکرٹری جنرل کو قیم جماعت کہا جاتا ہے۔ اس کے پہلے قیم مولانا طفیل محمد بنے جو انیس سو بیالیس سے انیس سو پینسٹھ تک اس منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ پھر وہ امیر جماعت مغربی پاکستان مقرر کر دئے گئے اور ان کی جگہ چودھری رحمت الہی نے سنبھالی جو پینسٹھ سے اٹھہتر تک فرائض ادا کرتے رہے۔ ان کی جگہ قاضی حسین احمد جیسے دبنگ لیڈر نے سنبھالی۔وہ اٹھہتر سے ستاسی تک سرگرم عمل رہے۔ ان کے بعد چودھری محمد اسلم سلیمی آئے۔ وہ دھیمے لہجے کے انسان تھے ۔ اور ستاسی سے ترانوے تک اپنے کام میں منہمک رہے۔ ان کے بعد سید منور حسن کو قیم کا منصب دیا گیا۔ میاں طفیل جو 23 برس تک قیم رہے۔ ان کے بعد سولہ برس کے طویل عرصے کے لئے سید منور حسن کو اس منصب پر فائز کیا گیا۔ جناب لیاقت بلوچ ان کے جانشین کے طور پر سامنے آئے۔ جنہوں نے دس برسوں تک جماعت کے لئے اپنی توا نائیاں وقف کیں۔ا ب یہ منصب عزیز القدر امیر العظیم کے حصے میں آیا ہے۔ ہو سکتا ہے امیرالعظیم کی جوانی ڈھل گئی ہو مگر میںنے انہیں پہلی بار کوٹ لکھپت جیل میں دیکھا۔ ایک ہنس مکھ نوجوان۔ معلوم نہیں کس پاداش میں جیل کی ہوا کھانے کو ملی ۔ اس ملک میں ناکردہ جرم کی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے۔ اس کی زندہ مثال مولانا مودودی کی سزائے موت ہے جنہیں لاہور کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل اعظم خان کے دور میں پھانسی کی سزا میں کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ اس وقت ملک کی باگ ڈور گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھ میں تھی جن سے زیادہ اپاہج اور معذور حکمران اس ملک کے حصے میںنہیں آیا۔ ایسی ہی سزا بھٹو صاحب کو بھی سنائی گئی ا ورا س پر عمل بھی ہوا۔یہ جنرل ضیا کے مارشل لا کا دور تھا۔ مولانامودودی کی رہائی کی اپیلیں عالم اسلام کے ہر حکمران کی طرف سے موصول ہوئیں جنہیں حکومت وقت کے لئے ٹھکرانا ممکن نہ تھا۔ ایسی ہی اپیلیں جناب بھٹو کے لئے بھی آئیں مگر بھٹو کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ جماعت اسلامی ا ور اس سے ملتی جلتی دنیا بھر میں اسلامی تنظیمیں ایک ہی چیلنج کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ ہے اسلامو فوبیا۔ دنیا میں اسلام کو برداشت نہیں کیا جاتا اور بدقسمتی سے اسلام کے نام پر قائم کئے گئے پاکستان میں تو دینی جماعتوں کی گردن زدنی کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ حالانکہ پاکستان اور دنیا بھر میں جدید ذہن کے نوجوان اگرا سلام کو گلے لگائے ہوئے ہیں تو انہی اسلامی تحریکوں کے طفیل۔ ان میں سید قطب اور حسن البنا سے لے کر مولانا مودودی تک کا لٹریچر شامل ہے جو تشکیک کے ماحول میں صدق و صفا کا درس دیتا ہے۔ آج کی دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینا ایک فیشن بن گیا ہے۔ مغربی اور لبرل ذہن آزادی اظہار کے نام پر اسلام کی تذلیل اور تضحیک کرتا ہے اور بد قسمتی یہ ہے کہ دنیا ئے اسلام میں سرمایہ دار، جاگیر دار اور مادر پدر آزاد طبقہ بھی اسلام کے خلاف مورچہ زن ہے۔ اس ماحول میں جماعت اسلامی کو ایک چومکھی جنگ در پیش ہے۔ جماعت اسلامی کے کل ارکان کی تعداد چالیس ہز ار کے قریب ہے جبکہ لادینی نظریات کا رجحان رکھنے والے کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ جماعت کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ توازن کے ساتھ چلنے کی عادی ہے۔ سستی نعرے بازی۔ جھوٹے وعدے اور قول و اقرار اس کا شیوہ نہیں۔ نہ ایک ارب درخت۔ پچاس لاکھ گھرا ور ایک کروڑ نوکریوں کی دلکشی کی سیاست کرتی ہے۔ وہ ایک نظام حیات کے قیام کے لئے کوشاں ہے۔ مساوات محمدی کی قائل ہے۔ مگر یہ لڑائی اب جناب امیر العظیم کو لڑنی ہے۔ میرے جیسے قلم کار تو ان کے دست بازو بن سکتے ہیں مگر میدان میں اترنے کے قابل نہیں۔ امیر العظیم ایک نظم کے پابند ہیں، انہیں جماعت کے امیر محترم سراج الحق اور جماعت کی شوریٰ کی ہدایات کے تحت چلنا ہے۔ اس جماعت میں کسی کومن مانی کرنے کی اجازت نہیں ، یہاں شورائی نظام چلتا ہے جو ریاست مدینہ کا خاصہ تھا، ریاست مدینہ کی باتیں تو کرنے والے بہت ہیں مگر خدا کسی کو عمل کی توفیق بھی عطا کرے تو یہ ملک ایک خطہ امن اور سرزمین خیر و فلاح بن جائے۔
جماعت ا سلامی کا بنیادی مقصد ملک کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے سانچے میں ڈھالنا ہے۔ یہ کام قائد اعظم کی مسلم لیگ کوانجام دینا تھا مگر وقت کے ساتھ اس کے حصے بخرے ہوگئے۔ باقی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی عرصے اقتدار میں ہیں مگر انہوں نے پاکستان کا مقصد کیا، کی طرف دھیان نہیں دیا۔ موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت ریاست مدینہ کا نام تو لیتی ہے مگر اس کی جھلک دوردور تک نظر نہیں آتی۔ اس تناظر میں جماعت اسلامی کو سنگلاخ چیلنجز در پیش ہیں۔ اس ملک کا اشرافیہ جو جاگیر داروں۔ سرمایہ داروں۔ صنعتکاروں۔ قرض خوروں۔ منی لانڈروں،اور نام نہاد لبرل ازم کا شکار ہے، وہ اسلام کواسکی اصل روح کے مطابق قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اور نہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق اسلام کے منافی قوانین کو درست کیا گیا ہے۔ اس ملک کی افسر شاہی بھی اسلام کو اپنے مفادات کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتی ہے۔ یوں جماعت اسلامی کو ایک ناممکن کام کو ممکن بنانا ہے۔ اس کا فرض تلوارا ٹھانا نہیں بلکہ تبلیغ، حکمت اور دانائی سے ملک کو اسلام کے راستے کی طرف موڑنا ہے۔ میری دعا ہے کہ جناب امیر العظیم جماعت اسلامی کے لئے ایک اثاثہ ثابت ہوں۔ وہ میاں طفیل محمد، چودھری رحمت الہی۔ قاضی حسین احمد۔ منور حسن، اسلم سلیمی اور لیاقت بلوچ کی صف میں شامل ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی زندگیاں ایک نیک اور ارفع مقصد کے لئے کھپا دیں۔ جماعت کو ماضی میں کئی کامیابیاں بھی ملیں۔ افغان جہاد میںاس کا راہنما کردار تھا۔ کمیونزم اور سویت روس کی شکست و ریخت میں اسے بڑی کامیابی ملی۔ بجا کہ اس میں انہیں امریکہ اور عالمی قوتوں کی حمایت حاصل تھی ۔مگر جماعت کے نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ جماعت کے لٹریچر نے کمیونزم اور سوشل ازم کا ابطال کیا۔ آج جماعت کو ملک کے دنیا دار اور مفاد پرست ٹولے کے خلاف جدوجہد کرنی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ بظاہر ناممکن کام ہے مگر ریاست مدینہ کی تشکیل بھی ایک ناممکن کام تھا۔ وہ ہو گیا اور کامیابی سے ہو گیا تو آج بھی اس ناممکن کو ممکن بنانا کوئی ناممکن نہیں۔ امیر العظیم ماضی میں کئی مہمات سر کر چکے ہیں۔ وہ ملین مارچ کے بانی ہیں۔ ان کے جذبے جوان ہیں ، ان کی توانائیاں عروج پر ہیں اور جماعت کی شوریٰ اورا س کے امیر محترم اپنے مقصد میں سچے ہیں۔ دنیا میں سچ کا پرچم ہی لہراتا ہے۔
تو آیئے دعاٰ کریں کہ امیر العظیم کی نئے منصب پر تقرری ملک اور قوم کے لئے ایک نیک فال ثابت ہو۔