تحریر : علی عمران شاہین
”ہم جو کہتے ہیں وہ ویسے ویسے، بغیر کسی حیل و حجت اور چون و چرا کے مان لو ورنہ…” اور پھر 7اکتوبر2011ء کی شب دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ نے دنیا کے سب سے بڑے جنگی اتحاد نیٹو کے ساتھ مل کر اس نحیف و نزار ملک افغانستان پر لاکھوں من بارود برسانا شروع کیا جس کی دنیا کے نقشے پر کوئی حیثیت نہیں تھی، جس کی آبادی کا بڑا حصہ پڑوسی ملکوں میں مہاجرین کی زندگی بسر کر رہا تھا… جہاں آج کی چکاچوندھ دنیا اور ترقی کے سونامی کا نام و نشان نہیں تھا… یہ کیسی جنگ تھی کہ جس میں سارا جہاں اپنے تمام تر لائو لشکر اور قوت و ہیبت کے ساتھ دوسری طرف کے بے آب و گیا صحرائوں، ریگزاروں، بیابانوں اور کوہستانوں پر حملہ آور ہو گیا تھا ،جہاں انسان بھی دیکھنے کو نہ ملتا تھا، کہا گیا یہ آپریشن اینڈیورنگ فریڈم Operation Enduring Freedom یعنی ” آپریشن برائے پائیدار آزادی” ہے۔ پھر جب دنیا کے سب سے بڑے جنگی اتحاد کی جانب سے کئی ہفتوں کی آتش و آہن کی بے پناہ بارش سے بات نہ بنی تو امریکہ نے اپنے اسلحہ خانہ سے وہ بم نکال لیا جسے ”ڈیزی کٹر” کہا جاتا ہے۔ اس بم کا وزن 15ہزار پائونڈ یعنی 6ہزار 8سو کلوگرام ہے جو دنیا میں ایٹم بم کے بعد سب سے بڑا اور سب سے خطرناک ہتھیار ہے۔ امریکہ کہتا ہے کہ یہ بم جہاں گرتا ہے ایک مربع کلومیٹر کے علاقے کو مکمل طور پر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ بم ویت نام کے خلاف اپنی جنگ میں امریکہ نے خصوصی طور پر تیار کیا تھا تاکہ بڑے بڑے جنگلات کو جہاں ویت نامی گوریلے چھپے ہوتے تھے، اس کے ذریعے سے بھسم کر کے ختم کیا جائے۔ پھر امریکہ نے ان بموں سے وسیع جنگلات ملیامیٹ بھی کئے تھے لیکن اسے وہاں ایسی ہزیمت اٹھانا پڑی کہ آج بھی امریکی ویت نام کا نام سن کر کانپ اٹھتے ہیں۔
ویت نام کے بعد ان بموں کا استعمال افغانستان میں ہوا جب ان بموں نے اس بے کس و بے یارومددگار ملک کا چپہ چپہ کھدیڑ ڈالا تو تبھی سپرپاور کے کمانڈوز نے زمین پر ”فاتحانہ” قدم رکھے تھے۔ پھر 13سال سے زائد کا عرصہ گزرا، امریکہ ہی نہیں اس کے اتحادی نیٹو نے اپنی تاریخ کی سب سے لمبی جنگ لڑی ، اس عرصہ میں نئے سے نئے فوجی آپریشن لانچ ہوئے۔ امریکی اور نیٹو ممالک کی اسلحہ ساز کمپنیوں نے ہر روز کی ناکامی کے ساتھ نئی سے نئی ٹیکنالوجی ایجاد کر کے افغانستان میں اتاری۔جنگی گاڑیاں لوہے کا پہاڑ بنیں۔جنگی طیارے بغیر پائلٹ کے سامنے آئے۔خلائی سیاروں اور ڈرون طیاروں سے جاسوسی کر کر کے ایک ایک پتھر پر بم مارا گیا۔ ایک ایک حصہ کھدیڑا گیا لیکن… افغانستان توفتح نہ ہوا البتہ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں میںان کے مایہ ناز کمانڈوز کے تابوتوں کی قطاریں اترتی رہیں۔ آخرکار 27اکتوبر 2014ء کو برطانیہ نے ہلمند کا کیمپ بیسشن خالی کیا تو 28دسمبر 2014ء کونیٹو نے یکطرفہ طور پر ہی افغان مشن کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ 28دسمبر کے روز عالمی شہرت یافتہ برطانوی اخبار دی گارڈین اور دی آبزرور میں صحافی ولیم ہوٹن کا کالم چھپا جس کا عنوان تھا:
Right-of-centre ideology has lost us the war in Afghanistan and much more besides
The ignominious retreat from Afghanistan is emblematic of a wider malaise that is afflicting Britain today
”ہماری افغان جنگ میں شکست اور دیگر ہزیمتوں کی وجہ دائیں بازو کے سیاسی نظریات ہیں۔ افغانستان سے شرمناک، ذلت آمیز پسپائی، ایک وسیع اور لمبی بے چینی کی عدالت ہے جو برطانیہ کو ذلیل و رسوا کر رہی ہے اور ایذا دے رہی ہے۔” اس کالم کا آغاز کچھ یوں کیا گیا :”برطانیہ کے بارے میں اس کا اپنا نظریہ یہ ہے کہ ہم جنگیں جیتتے ہیں، آج ہماری فوج اگرچہ ماضی سے چھوٹی ہے لیکن اب بھی یہ دنیا کی بہترین فوج ہے۔ ہماری شکست ناقابل تصور ہے لیکن افغانستان میں برطانیہ کو ایک عبرتناک شکست ہوئی ہے۔ اتنی زبردست شکست کہ اس کی مثال گزشتہ نصف صدی میں نہیں ملتی اور اگر بات دلائل و براہین سے کریں تو زمانہ جدید کی بدترین شکستوں میں سے ایک۔ سچ بہت کڑوا ہے کہ ہم آج کوئی عظیم معاشی قوت نہیں ،ہم ٹیکنالوجی کی کوئی قوت نہیں ہیں اور نہ عسکری قوت ہی ہیں۔ ہمارے ملک میں تین وزیراعظم اورچھ وزیردفاع گزر گئے لیکن 8سال میں ہم 40ارب پائونڈ خرچ کر کے بھی افغان صوبہ ہلمند میں کوئی ایک ہدف بھی حاصل نہیں کر سکے(یاد رہے کہ برطانوی فوج کو افغانستان میں سب سے مرکزی کردار صوبہ ہلمند میں دیا گیا تھا)۔
لکھا گیا کہ برطانوی فوج کی بہادری پر شک تو نہیں کیا جا سکتا، ہمارے453فوجی قتل ہوئے، 247نے اعضاء گنوائے اور 2600 نے زخم اٹھائے جبکہ دوسری طرف ہزاروں افغانی جان سے چلے گئے۔ اس سب کے باوجود آج بھی ہلمند میں کوئی منظم یا مستحکم حکومت نہیں ہے۔ صوبے کی معاشی بحالی کی امید نہیں، ہیروئن کی پیداوار عروج پر ہے، باہمی لڑائیاں بھی کم نہیں ہوئیں۔ اگر ہلمند میں برطانیہ کی فتح کا مطلب جنوبی افغانستان کو محفوظ بنانا تھا تو ہمارے آخری ٹھکانے میں آخری حقیقت یہ ہے کہ ”برطانیہ اب کم محفوظ ہے۔”
اسی حقیقت کا اعتراف تو سپرپاور امریکہ کے صدر باراک اوباما نے 28دسمبر کی پسپائی کے موقع پر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”افغانستان اب بھی خطرناک ملک ہے۔”… جی ہاں! وہی امریکہ جس کے افغانستان میں اترنے والے لاکھوں فوجی اب ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار ہیں۔ ہسپتالوں میں علاج معالجے کی گنجائش نہیں تو ڈاکٹر بھی کم پڑ چکے ہیں۔8لاکھ کی تصدیق تو امریکی ذرائع ابلاغ کرتے ہیں۔ کیا یہی وہ امریکہ ہے جس نے 7اکتوبر2001ء کو جب افغانستان پر چڑھائی کی تھی تو اس نے سب کچھ پائوں تلے کچل دیا تھا لیکن اب وہی افغانستان ہے اور اس کا2001ء کا حکمران ملا محمد عمر جس کا تعاقب تک کرنے سے اب سپر پاور امریکہ نے انکار کر دیا ہے اور امریکہ اس ملا محمد عمر کے قدموں میں پڑا اپنے کٹھ پتلیوں کے ذریعے سے انہیں حکومت میں شامل ہونے کی منتیں دے رہا ہے۔
کہاں ہیں وہ عقل سے پیدل ،جبری دانشور اور اپنے ہی خیالات کے گھوڑے دوڑانے والے فلسفی کہ جو کہتے تھے اور اب بھی جھوٹ چھپانے کو کہتے ہیں کہ افغان جہاد میں روس کو شکست دینے میں اصل کردار امریکہ کا تھا۔ اب تو کوئی بتائے کہ اپنے زمانے کی سپرپاور برطانیہ کو جب اسی افغان قوم نے 1842ء اور پھر 1880ء میں دوبار عبرتناک شکست سے دوچار کیا تھا تو اس وقت ان کے پیچھے کون سا امریکہ تھا؟ آج انہوں نے امریکہ سمیت 48ملکوں کے اتحاد کو عبرتناک شکست سے دوچار کر کے الٹے پائوں دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کیا ہے تو اس کے پیچھے آج کون سا ”امریکہ” ہے؟جب غور و غزنی سے اٹھنے والے انہی افغانوں نے طاقت کے نشے میں ڈوبے ہند کے کتنے ہی راجوں مہاراجوں کو درجنوں بار روندا تھا اور ایک ہزار سال تک ہند پر مسلمانو ں کی حکومت کی بنیاد ڈالی تھی تو اس وقت پس پردہ کون تھا…؟ اور اگر آج بھارت آج کے غوریوں اور غزنویوں سے تھرتھرکانپ رہا اور شکست خوردہ برطانیہ اور امریکہ کو دہائیاں دے رہاہے تو پس پردہ کون ہے…؟
تحریر : علی عمران شاہین