تحریر : مہر بشارت صدیقی
امریکی صدر بارک اوباما بھارت کے تین روزہ سرکاری دورے پر نئی دہلی پہنچے تو ائر پورٹ پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے ارکان نے امریکی صدر کا استقبال کیا۔ امریکی خاتون اول مشیل اوباما بھی اس دورے میں ہمراہ ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نے مرکزی وزیر پیوش گویل اور دیگر بھارتی حکام کا صدر اوباما سے تعارف کرایا۔ بھارتی حکام نے نئی دہلی میں ہزاروں اہلکاروں کو تعینات کیا، شہر میں 15 ہزار سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے۔ن کا خصوصی طیارہ ایئرفورس ون بھارتی وقت کے مطابق صبح پونے دس بجے دہلی کے اندرا گاندھی ہوائی اڈے پر اترا۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر اوباما نے حیدر آباد ہائوس کے لان میں بیٹھ کر غیر رسمی بات چیت کی۔ اس دوران بھارتی وزیر اعظم نے اوباما کو خود اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پیش کر کے ٹی بوائے بننے کی یاد تازہ کر دی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق دونوں رہنما لان میں چہل قدمی کی اور خوش گپیاں کرتے رہے۔ نریندر مودی نے صدر بارک اوباما کی اہلیہ مشیل اوباما کو 100 بنارسی ساڑھیوں کا تحفہ پیش کیا ایک ساڑھی کی قیمت سوا لاکھ روپے ہے’ ساڑھی پر چاندی اور سونے کے تار کا کام کیا گیا ہے۔یہ بنارسی ساڑھیاں خاص طور پر بھارتی شہر ورانسی کے کاریگروں نے تیار کی ہیں۔ امریکی صدر کی آمد پر ان کا انتہائی پرتپاک استقبال کیا گیا، انہیں 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ اوباما مشترکہ پریس کانفرنس میں ہندی بولنے کی خوب تیاری کے ساتھ شریک ہوئے’ بارک اوباما نے پریس کانفرنس کے آغاز پر میڈیا اور بھارتی عوام کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ”میرا سب کو پیار بھرا نمسکار”
اس کے بعد اوباما نے کہا کہ میں اپنی خصوصی میزبانی اور چائے کے چرچا (مذاکرات) پر وزیراعظم مودی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ نریندر مودی اوباما کو خوش کرنے کیلئے بڑھاپے میں ایک بار پھر ”ٹی بوائے” بن گئے۔ اوباما بھارتی وزیراعظم سے گرم جوش مصافحہ کے بعد ان سے دو بار گلے ملے، گلے لگ کر ایک دوسرے کو تھپتھپاتے رہے۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان سول نیوکلیئر تجارت شروع کرنے کا سمجھوتہ ہوا ہے۔ دونوں ممالک نے اربوں ڈالر مالیت کی نیوکلیئر اور دفاعی تجارت کرنے دفاعی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کیلئے اقدامات اور منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قابل اعتماد و دیرپا سٹریٹجک شراکت عمل میں آئیگی، دونوں نے مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں جاری رکھنے، دونوں ممالک کے درمیان دیرپا تعلقات قائم کرنے کا اظہار کیا گیا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی حمایت کر دی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق صدر بارک اوباما اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ون آن ون ملاقات کے بعد سات بڑے اعلانات کئے گئے ہیں، ان میں سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی معاہدے میں پیشرفت، مزید دفاعی تعاون، انسداد دہشت گردی کیلئے مزید اقدامات، مزید تجارتی معاہدے کرنا، کلین انرجی پر مذاکرات جاری رکھنے،
سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون، امریکہ اور بھارتی قومی سلامتی کے مشیروں میں مزید ہاٹ لائنز کا قیام شامل ہے۔بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ سول نیوکلیئر معاہدے پر نریندر مودی نے بارک اوباما کو رام کرلیا۔اس طرح امریکا جوہری مواد پر ٹریکنگ ڈیوائس رکھنے کی شرط سے بھی دستبردار ہواہے۔بھارت ٹیکنالوجی کا پرامن استعمال کرے گا یا ہتھیار بنائے گا، امریکا لاعلم رہے گا۔بھارت اور امریکا میں سول ایٹمی معاہدے پر ٹریکنگ پر سب سے بڑا اختلاف تھا۔ امریکا بھارتی خوشنودی کی خاطر اپنے ہی اصول اور قوانین پس پشت ڈالتے ہوئے جوہری مواد سے ٹریکنگ ڈیوائس ہٹانے پر تیار ہو گیا ہے۔اس صورتحال نے خطے کے امن کے لئے تشویشناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت اگر پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی چاہتا ہے اور اس کے کوئی پس پردہ عزائم نہیں ہیں تو وہ جوہری ہتھیاروں کی ٹریکنگ سے فرار کیوں چاہتا ہے؟ایٹمی مواد اگر پرامن تونائی کے سوا کہیں اور استعمال نہیں کیا جائے گا تو بھارت اس کی نگرانی کیوں نہیں چاہتا؟نیوکلیئر ٹریکنگ کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے غلط استعمال کو روکنا ہے۔
دنیا بھر میں ہر سال ملکوں کے درمیان ایٹمی میٹریل کا لین دین ہوتا ہے۔ اس ایٹمی مواد پر ٹریکنگ کا پورا ایک نظام ہے جسے میٹریل کے حساب سے چار مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اس سلسلے میں گائیڈ لین فراہم کرتی ہے۔ ٹریکنگ ایٹمی مواد کے پرامن مقاصد کو یقینی بنانے کی ایک کوشش ہے۔ ٹریکنگ سے ایٹمی مواد کی سکیورٹی یقینی ہو جاتی ہے۔ میٹریل کو ہر لمحہ مانیٹر کیا جا سکتا ہے۔ گلوبل پوزیشنگ سسٹم کے ذریعے ایٹمی مواد کے غلط استعمال کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ تمام قوانین کو بلائے طاق رکھتے ہوئے امریکی معاہدہ دنیا کے امن کے لئے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔امریکی صدر بارک اوباما کے پڑوسی ملک کے حالیہ دورہ کے دوران بھارت کی طرف واضح جھکائو سے حکومتی و اپوزیشن حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ امریکی صدر نے برصغیر کے دوسرے دورے کے موقع پر بھی پاکستان کو نظرانداز کرکے صرف بھارت کا دورہ کیا۔ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی حکام نے صرف دورہ بھارت پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا تھا اور اس بات پر اصرار کیا تھا کہ جب بارک اوباما خطے کا دورہ کر رہے ہیں وہ پاکستان کا بھی دورہ کریں۔ اوباما کے بھارت کے پہلے دورے کے موقع پر آئندہ دورے میں پاکستان کا دورہ کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن دوسری بار بھی پاکستان کو نظرانداز کرنے سے پاکستان امریکہ تعلقات کو شدید دھچکا لگا۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کر رہا ہے اور اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہے لیکن امریکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ برابری کا سلوک روا نہیں رکھ رہا۔ امریکہ کے بھارت کے ساتھ سول نیو کلیئر معاہدہ کے تحت بھارت کو دی جانے والی استثنیٰ پر تشویش پائی جاتی ہے۔
امریکہ بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنوانا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ بھارت کو خطے میں پاکستان سمیت دیگر چھوٹے ممالک پر بالادست بنانا چاہتا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ امریکی صدر کے دورہ سے پاکستان بھارت کشیدگی میں کمی ہوگی لیکن یہ بات واضح ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن جانے سے خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ امریکہ بھارت گٹھ جوڑ پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے ،امریکہ میں مودی کو دیا جانے والا پروٹوکول اور اب بھارت میں اوبامہ کا استقبال خطے کی سالمیت کے خلاف ہے ،خطے میں بھارتی بالادستی قائم کرنے کا امریکی خواب کبھی پورانہیںہو گا۔ اگر امریکہ واقعی انسانی حقوق کا علم بردار ہے تو اسے چاہیے کہ وہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق دلانے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالے اورمسلمانوں اور مسیحی برادری کوجبراً ہندو بنانے کاسلسلہ بند کرائے ۔ عراق ،افغانستان ، عرب ممالک ، پاکستان سمیت دنیا بھر میں امریکی مداخلت ،ڈرون حملے، سیاسی عدم استحکام کی کوششیں ، ریمنڈ ڈیوس اور مودی جیسے دہشت گردوں کی سرپرستی کے باعث اصل دہشت گرد امریکہ ہے۔ امریکی پالیسیوں کے باعث اس وقت پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک عدم استحکام سے دوچار ہیں ، اوبامہ کا حالیہ دورہ بھارت بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ،
امریکہ ،بھارت گٹھ جوڑ خطے کی سالمیت اور پاکستان کی بقاء کے لیے خطرہ ہے ،امریکہ بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانا چاہتاہے تاکہ پاکستان اور چین سمیت خطے کے دیگر ممالک پر ان کی بالادستی قائم کی جاسکے لیکن جب تک پاکستان کا ایک بھی مسلمان زندہ ہے ان کا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ امریکہ میں مودی کا استقبال اور اب بھارت میں اوبامہ کو دیا جانے والا پروٹوکول بلاشبہ خطے کے امن کے خلاف ہے ۔ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گردخود امریکہ ہے جو عراق ، افغانستان ،یمن ، عرب ممالک ،پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں عدم استحکام اور دہشت گردی کا باعث ہے ، اسرائیل کی پشت پناہی ، ڈرون حملے اور ریمنڈ ڈیوس و گجرات میں مسلم کش فسادات کے ذمہ دار مودی جیسے دہشت گردوں کی سرپرستی اصل دہشت گردی ہے۔انہوں نے کہاکہ امریکہ اگر حقیقی معنوں میںانسانی حقوق کا علم بردار ہے تو اسے چاہیے کہ کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے مودی سرکار پردبائو ڈالے اور انہیں ان کا حق دلائے ،دوسری طرف بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو جبراً ہندئو بنایا جارہاہے اوبامہ اس پر بھی بات کرے ،امریکی صدر بھارت کی جانب سے پاکستان میں مداخلت ،دہشت گردوں کی سرپرستی اور بلوچستان میں شدت پسندوں کی حمایت پر بھی مودی سے جواب طلب کریں۔
تحریر : مہر بشارت صدیقی