تحریر : میاں نصیر احمد
بھارت اور امریکہ کے درمیان2008ء میں طے پانیوالے سول نیوکلیئر معاہدہ کے بعد ٹریکنگ ڈیوائس کے معاملہ پر سب سے بڑا اختلاف چل رہاتھا تاہم امریکی صدرنے بھارتی خوشنودی کی خاطر اپنے ہی اصول اورعالمی قوانین پس پشت ڈالتے ہوئے جوہری مواد سے ٹریکنگ ڈیوائس ہٹانے پررضامندی ظاہرکردی مودی سے ملاقات کے بعد صدر اوبامانے اعلان کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سول جوہری معاہدے کی راہ میں حائل اختلافات پر سمجھوتہ ہوگیاہے جن کی وجہ سے یہ معاہدہ اٹکا ہوا تھا،امریکی صدرنے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کیلئے مستقل رکنیت کی بھی حمایت کی کہ امریکہ اور بھارت دوستی کے نئے دورکیلئے پْرعزم ہیں بھارت کیساتھ دفاع،سکیورٹی اور تجارت سمیت کئی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا چاہتے ہیں امریکہ سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت کرتا ہے اوبامانے کہاکہ بھارت کیساتھ مضبوط تعلقات بہت ضروری ہیں عالمی امن کے قیام میں بھارت کا اہم کردار ہے،
افغانستان میں امریکہ کا جنگی مشن ختم ہوچکا ہے بھارت اور امریکہ یہ بھول گیا ہے کہ 2002ء میں بھارتی گجرات میں مودی سرکار ہی تھی جس نے ہزاروں مسلمانوں کا منظم قتل کیاگیابھارت گزشتہ چھ دہایوں سے کشمیریوں کو ان کا بینادی حق یعنی حق خود ارادیت دینے کے متعلق عالمی برادری سے اپنے ہی کیے ہوئے وعدوں سے مسلسل انکار کرتا رہا ہے بھارت نے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو صرف اس لئے شہید کیا کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتے تھے نئی دلی کے حکمران جمہوریت کی اڑ میں حق خود ارادیت مانگنے کی پاداش میں کشمیری عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں ، بھارت کا ایسا طرز جمہوریت دراصل جمہوری اقدار کی نفی کرتا ہے ہندوستان نے ایسی آزادی’تو غلامی کے دورمیں بھی نہ دیکھی ہو گی جب وائسرائے ہند آتے یا جاتے ہوں گے جیسا کہ اب دیکھنے کو مل رہا ہے بھارت شاید یہ بھی چاہتا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو بھی دہشتگردی کے زمرے میں لایا جائے اس لئے وہ بار بار دنیا کو باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کے اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے،
ممبئی حملے بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈالتا ہے پاکستان، چین اور افغانستان کیلئے بھی دونوں ممالک کے بڑھتے تعلقات اہم ہیں پاکستان کیلئے تو تنبیہ ہیں جس کا اشارہ باراک اوبامہ نے بھارتی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے محفوظ ٹھکانوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا امریکہ کو ہمیشہ پاکستان میں تو دہشتگردی اور انتہا پسندی کے ٹھکانے نظر آتے ہیں مگر بھارت میں دہشت اور انتہا پسندی کی دہکتی آگ نظر نہیں آتی 2002ء میں بھارتی گجرات میں مودی سرکار ہی تھی جس نے ہزاروں مسلمانوں کا منظم قتل کیا اس جرم کا تو امریکہ کی عدالت میں بھی مقدمہ چلتا رہا ہے کشمیر میں ہزاروں، لاکھوں لوگ ظلم اور بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ کئی جوانیاں لٹیں تو کئی سہاگ اجڑے، ہنستے بستے گھرانے خاکستر کر دیئے گئے امریکہ بھول گیا ہے کہ نائن الیون واقعہ کے بعد سب سے زیادہ پاکستان کا نقصان ہوا ہے، بھارت کا تو ایک پتا تک نہیں ٹوٹا پاکستان میں دہشتگردی کے نام پر ساٹھ ہزار کے لگ بھگ سویلین، فوجی پولیس اہلکاربچے بوڑھے اور عورتیں شہید ہو چکے ہیں سات لاکھ سے زائد افراد گھروں سے بے گھر ہوچکے، نہ جانے ابھی کتنے جنازوں کو کندھے دینے باقی ہیں ہر طرف بارود کی بو، بموں کی گھن گرج اور بندوقوں کی تڑتڑاہٹ ہے امریکہ شاہد اب افغانستان میں مستقل امن کیلئے قابل اعتماد پارٹنر چاہتے ہیں پاکستان نے بھارت کیلئے نیوکلیئر سپلائرز گروپ اور سلامتی کونسل کی رکنیت، کی مخالفت کردی پاکستان بھارت کیلئے نیوکلیئر سپلائرز گروپ اور سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ا پنے قومی سلامتی مفادات کے تحفظ کا حق رکھتا ہے
پاکستان دہشتگردی کیخلاف جنگ میں عالمی برادری کا صف اول کا اتحادی ہے پاکستان دوسرے ملکوں سے بھی ایسے ہی عزم کی توقع رکھتے ہیں دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے تمام ملکوں کے مشترکہ اقدام اور تعاون ضروری ہے پاکستان سمیت اکثر رکن ممالک سلامتی کونسل میں جامع اصلاحات کے حامی ہیں تاہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مخالفت کرنے والا ملک سلامتی کونسل کا رکن نہیں بن سکتا۔ پاکستان بھارت کیلئے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کی مخالفت کرتا ہے۔ پاکستان امتیاز پر مبنی پالیسیوں کی مخالفت کرتا ہے بھارت، امریکا نیوکلیئر معاہدہ جنوبی ایشیاء میں استحکام پر اثرات ڈالے گا۔پاکستان بھارت کیلئے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کی مخالفت کرتاہے۔ مشیر خارجہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ امریکا جنوبی ایشیاء میں استحکام اور توازن کیلئے مثبت کردار ادا کرے اوبامانے کہاکہ ہم روس کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتے اورنہ ہی اس سے لڑنا چاہتے ہیں لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ کوئی مضبوط ملک کسی کمزور کو دبائے اسی لئے ہم یوکر ائن کی مدد کر رہے ہیں،ہماری دوسری ترجیح یمن میں القاعدہ پر دباؤ برقرار رکھنا ہے کیونکہ یمن دنیا کا خطرناک ملک ہے۔ نریندر مودی نے کہاکہ امریکہ اور بھارت کی دوستی فطری گلوبل پارٹنر شپ ہے اور ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی امریکی صدر نے 2 مرتبہ بھارت کا دورہ کیاانکاکہناتھاکہ بھارت پوری دنیا میں امن و سلامتی اور خوشحالی چاہتا ہے اور یہ پارٹنرشپ دونوں ممالک اور دنیا کے امن، استحکام اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے ، امریکہ اور بھارت کے تعلقات تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں،
بھارتی وزیر اعظم کاکہناتھاکہ اب سول نیوکلیئرمعاہدے کی بنیاد پر کمرشل تعاون کی راہ ہموار ہوگئی اور امریکہ کیساتھ یہ سمجھوتہ بھارتی قوانین اوربین الاقوامی اصولوں کے دائرے میں ہے ، جوہری معاہدہ کے 6سال بعد اب بھارت اورامریکہ تجارتی سمت میں پیشرفت کر رہے ہیں، دونوں ممالک دفاع کے شعبے میں بھی مزید تعاون کی جانب بڑھ رہے ہیں جبکہ دو طرفہ تجارت کو نئی سطح تک لے جانے کے خواہاں ہیں، امریکہ اور بھارت کو دوستی پر کبھی شک نہیں رہا تاہم دیرپا تعلقات کیلئے اچھی شروعات کی ضرورت ہے۔بھارتی وزیراعظم نے کہاکہ امریکی صدر سے ملاقات میں دفاع میں تعاون کو فروغ دینے پراتفاق کیا گیا اور فیصلہ ہوا کہ بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون کو نئی بلندیوں پر لے جائینگے جبکہ ملاقات میں عالمی اور خطے کی صورتحال، ایشیا میں امن و استحکام سے متعلق اور دوطرفہ سرمایہ کاری معاہدے پر بات چیت شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا دہشت گردی عالمی خطرہ ہے جس کیخلاف کارروائی میں کسی ملک کو کوئی امتیاز نہیں رکھنا چاہئے جبکہ باراک اوباما سے ملاقات میں دہشت گردی کیخلاف مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے اور دونوں ممالک کے درمیان ہاٹ لائن قائم کرنے پر بھی اتفاق ہوا،ہم انسداد دہشت گردی سے متعلق صلاحیتیں بڑھائیں گے
مگر یہ دنیا جانتی ہے کہ بھارت نے کشمیر میں دشت گردی کا سب سے بڑا بازار گرم کیا ہوا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا روایتی طور پریومِ جمہوریہ پر ان مہمانوں کو بلاتا جاتا ہے جن سے یہاں کوئی تنازع نہیں کھڑا ہوتا اور جن کا تعلق ان ممالک سے ہوتا ہے جن کے ساتھ ہندوستان کے قریبی تعلقات ہوتے ہیںبھارت خصوصی طور پر ڈرونز اور کیریئر ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتا ہے جو اس کی فضائی اور بحری طاقت کی صلاحیت میں اضافے کے لیے نمایاں کردار ادا کرسکیں گی توانائی میں دونوں حکومتوں کو نامیاتی ایندھن کی ترسیل بہتر کرنے اور ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کیلئے صلاحیتوں کی تلاش ہے بھارت اور امریکہ یہ بھول گیا ہے کہ پا کستان میں دہشتگردی کے نام پرساٹھ ہزار کے لگ بھگ سویلین، فوجی پولیس اہلکاربچے بوڑھے اور عورتیں شہید ہو چکے ہیں 7 لاکھ سے زائد افراد گھروں سے بے گھر ہوچکے، نہ جانے ابھی کتنے جنازوں کو کندھے دینے باقی ہیں ہر طرف بارود کی بو، بموں کی گھن گرج اور بندوقوں کی تڑتڑاہٹ ہے امریکہ کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے سوچنا ضرور ہوگا کہ پاکستان کیلئے بھی بہت سارے دروازے کھلے ہیںاور بھارت اگر قطے میں استحکام چاہتا ہے جو اسے کشمیریوں کو ان کے حق کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دینی چاہیے اور امریکہ اگر حقیت میں انسانیت کی فلاح چاہتا ہے اور بھارت کو اقوام متحدہ کے فیصلوں پر عمل کرنے کے لیے مجبور کرے ناکہ بھارت کی ملک دشمن پالیسوں میں اس کا ساتھ دے
تحریر : میاں نصیر احمد