تحریر:رانا ابرار
اسرائیل کے قیام کے بعد یہودیوں کی سب سے بڑی طاقت امریکہ ہے کیونکہ امریکہ مذہب عیسائت کے نام پر نہیں بنا بلکہ سیکیولر ملک ہے ۔امریکہ میں اس وقت یہودی اقلیت میں ہو کر اس طرح اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں گویا کہ جتنے بھی اسرائیلی یہودی وہاں پہ آباد ہیں ہر ایک امریکن فوجی جیسا ہے۔ جب کی اسکے برعکس اسرائیل ایک مکمل مذہبی ملک ہے اور مذہب کے معاملے میں وہ پاکستان سے بھی زیادہ کٹر ہیں۔
یہ اندازا لگانا کہ امریکہ میں کتنے اسرائیلی یہودی آباد ہیں،بہت مشکل ہے۔سیگی بلاشا( CEO لاس اینجلس ، امریکی اور اسرائیلی کونسل) نے اسرائیلی لوگوں کی تعداد5 لاکھ سے8 لاکھ بتائی ہے جو کہ امریکہ کے رہائشی ہیں۔ اس اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ اسکو کتنا معلوم ہے یا اسکو کیا حکم ملا ہو گا۔چور کی داڑھی میں تنکا اور خود ہی کہتا ہے مختلف تنظیمیں مختلف طریقوں سے حساب کتاب کرتی ہیں اور نتیجہ نکالتی ہیں،اورن ہیمن چئیرمین “Moatza Mekomit” (جو کہ اسرائیلی طبقے کے لئے ایک نئی “Umbrella” تنظیم ہے) اس نے بھی سیگی بلاشا کی طرح تکا ہی لگایا ہے یا لگوایا گیا ہے کہ مطابق امریکہ میں رہائش پذیر یہودیوں کی تعداد 6.5لاکھ ہے ۔ ڈیوڈ جو کہ یہودی لوگوں کے کمیشن “UJA” کا منیجنگ ڈائریکٹر ہے وہ تعداد 2 لاکھ بتاتا ہے ۔ اسرائیلی وزارت داخلہ کے مطابق 7.6 لاکھ تعداد ہے جو لوگ اسرائیل چھوڑ چکے ہیں تب سے جب سے ریاست بنی ہے یعنی 1948 سے۔
وجہ؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ نہ تو یہودی ایجنسیوں کو اسکی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی اسرائیلی گورنمنٹ کوکہ یہ معلومات باہر نکلنے دیں۔ اس کے ساتھ امریکہ اسوقت نیوورلڈ آرڈر کے بعد سے دنیا میں اسوقت پولیس مین کا کردار ادا کر رہا ہے اور ہرمسلمان ریاست کے اندرونی اور بیرونی معاملات میں کسی نہ کسی طرح اپنی ٹانگ اڑا دیتا ہے۔ عیسائی لوگ جو واقعی ہی میں مذہبی ہیں ان کے مطابق عیسائی ہی ایک ایسی قوم ہیں جو کہ یہودیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں میرا خیال ہے کہ اتنی تعداد میں ان کی موجودگی کے باوجود وہ کیا کرسکے ہیں۔ اور اس بات کا اعتراف بھی امریکن شہری جو عیسائی ہیں کرتے ہیں کہ یہودی اس وقت امریکہ پر قابض ہیں یہ میں نہیں کہتا بلکہ ان کے ساتھ آپ کی بات کبھی ہو تو آپکو خود معلوم ہو جائے گا کہ کیا معاملہ ہے ۔لیکن اتنی بڑی آبادی کے ساتھ عیسائت کی افزائش اتنی تیزی سے نہیں ہو رہی جتنی تیزی سے مسلمان بڑھ رہے ہیں
حالنکہ اس وقت سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا بھی مسلمان کر رہے ہیں لیکن اسلام پھر بھی پھیل رہا ہے ۔کچھ لوگ اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور کچھ قدرت کو اصولوں کے مطابق پیدائش سے تعداد میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں ۔مخالفین انکی نسل کشی کر رہے ہیں تا کہ جو پیدائش سے بڑھ رہے ہیں انکو اس طریقے سے ختم کیا جائے اور جو غیر مذہب اسلام قبول کر رہے ہیں اس تبلیغ کے مقابلے میں سازشی نظریات پھیلا کر کے اسکا مقابلہ کر رہے ہیں۔
یہودیوں کی گرفت یورپ پر بہت مضبوط ہے ۔ اوراس کے علاوہ سوچ اور فکر کی بنیاد پریہاں ان ممالک میں لوگ اسلام سے متاثر ہو کر اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر رہے ہیں ۔مزیدایک نقطہ اس میںاسلام کے ماننے والوں کی تعداد کے بڑھنے کا یہ بھی شامل ہو جاتا ہے ۔جب انسان کو آسائش کی نسبت سکون کی طلب ہو گی تو کیا کوئی سائنسی ایجاد یا کوئی ڈاکٹر کی دوائی اس پر اثر کرے گی؟۔۔۔۔۔! نہیں۔ ہاں ایک بات ہے اسکو وقتی طور پر کچھ خوشی ضرور مل جائے گی لیکن اطمینان کہاں سے ملے گا تو جن لوگوں کو اطمینان نہیں اور انکی ذاتی زندگی بہت کٹھن ہو چکی ہے تو وہ سکون کی تلاش میں بھی نکلتے ہیں اور اسلام میں جو چیزیں انکو مل جائیں تو کیا ضرورت ہے انکو آسائش کی اور یہ ہر کسی کی اپنی سوچ پرمنحصر کرتا ہے کہ آیا اسے آسائش کی زیادہ ضرورت ہے یا سکون کی جس سے کسی کو اطمینان حاصل ہوتا ہو وہ اپنا مطلوبہ راستے کا انتخاب کرتا ہے ۔
“PEW Research Center” جولائی 2011 میں اپنی ایک ریسرچ رپورٹ شائع کرتا ہے۔ جس کا عنوان “The Future of the Global Muslim Population 2010 to 2030″ ہے ۔ ریسرچ سینٹر لکھتا ہے کہ 2009 کے اندازے کے مطابق پوری دنیا میں مسلم آبادی 1.29 ارب ہے ۔اور2010 میں مسلم آبادی 1.61 ارب ہے۔ آگے 2030 تک پوری دنیا کے 232 ممالک کی جس شرح سے آبادی بڑھ رہی ہے اسکی رپورٹ 2.19 ارب پیش کرتا ہے ۔ پھر ایک سمری پیش کرتا ہے جس میں واضح لکھتا ہے کہ مسلم آبادی کی شرح بڑھوتری بنسبت غیر مسلم آبادی زیادہ ہے۔ لکھتا ہے کہ مسلم آبادی کی شرح بڑھوتری جس طرح پچھلے دوعشروں میں بڑھی ہے ایسے ہی اگلے دو عشروں میں بڑھے تویہ نتیجہ آئے گا۔
اب ان چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک چیز سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ اس وقت دنیا میں مسلمان سب کے لئے خطرہ ہیں تو کیسے ہیں ؟؟؟؟ ۔۔۔مسلمانوں کی روز بروز بڑھتی آبادی! تو اسکا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ ایسا کیا جائے کہ انکو یا تو آپس میں لڑا دو یا ایسی جنگیں شروع کروجس سے دوہرا فائدہ ہو وہ کیسے جی؟ وہ ایسے جی کہ ہمیں انکی آبادی سے خدشہ ہے اور آپ ان کی معدنیات ،خام تیل وغیرہ کے جو ذخائر ہیں انکو حاصل کریں دونوں کا کام آسان ہو جائے گا
اس طرح دیکھا جائے تو جتنی بڑی ترقی یافتہ ریاستیں ہیں بنسبت ایشیا اور خاص کر جہاں مسلمانوں کی حکومتیں ہیں تو ان پر کوئی دہشت گردی کا دھبہ لگا کر کے حملہ کرو اور نسل کشی کرو،ان پر ظلم بھی کرو اور ساتھ تحفہ کے طور پر ان پر دہشت گردی کا لیبل بھی لگائو، جو کچھ ہو سکتا ہے لوٹ لو کیونکہ انکو معیشت کے ساتھ ہرپہلومیں کمزور کرنا ہے۔ اور انکے ساتھ نظریاتی جنگ کے لئے الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا کو قابو کرواور حقائق کو چھپا تے ہوئے یا انکاری کرتے ہوئے”Conspiracy Theory” کا جال بن دو انکے مرکز پر حملہ کرو ، انہیں اسلام سے دور کرو کیونکہ یہ بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے کھڑے نظر آرہے ہیں۔ جب انکو ان چیزوں میں الجھا دیا جائے گا تو اگر یہ ترقی کی طرف بڑھنے کی کوشش بھی کریں تو انکو نئی سے نئی الجھن میں ڈال دو تاکہ یہ کسی قسم کی ترقی نہ کر سکیں۔
تحریر : رانا ابرار