تحریر : سید توقیر زیدی
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونز نے کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں پاکستان اور بھارت دہشت گردی کیخلاف تعاون کریں’ دہشت گردی دونوں ممالک کیلئے حقیقی خطرہ ہے۔ گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف مخصوص گروہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ وہ ان گروپوں کیخلاف بھی کارروائی کرے جو ہمسایہ ممالک پر حملوں میں ملوث ہیں اور خود پاکستان کیلئے خطرہ نہیں ہیں’ اسے بلاتفریق تمام دہشت گرد گروپوں کے ٹھکانے ختم کرنا ہونگے۔
پاکستان بھارت تنازعات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو تصفیہ طلب تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہونگے۔ ہمیں پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں پر تشویش ہے۔ پاکستان کی فوجی امداد روکے جانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مارک ٹونز نے کہا کہ امریکی محکمہ دفاع کے فیصلے کے باوجود پاکستان کی مدد جاری رہے گی اور اسلام آباد کی ہر ممکن امداد کی جائیگی۔
امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو اب تک یہی گمان رہا ہے کہ ڈیموکریٹک اوبامہ انتظامیہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کو بخوبی جانتی اور اسکی قربانیوں کو تسلیم کرتی ہے۔ امریکی صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران پاکستانی نڑاد امریکی باشندے اسی تناظر میں کھل کر ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن کا ساتھ دے رہے ہیں کہ انکے دور اقتدار میں پاکستان کو ان سختیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا جو ریپبلکن انتہاء پسند ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں پاکستان اور پاکستانی نڑاد امریکی باشندوں کو امریکہ میں درپیش آسکتی ہیں۔
دہشت گردی کی جنگ میں پاکستانی نڑاد امریکی باشندوں نے بلاشبہ دیگر نسلوں کے امریکی شہریوں کے مقابلے میں زیادہ قربانیاں دی ہیں اور اسی بنیاد پر ہلیری کے انتخابی جلسوں میں امریکی مسلم شہریوں اور پاکستانی نڑاد امریکی باشندوں کی ترجمانی امریکی سلامتی کیلئے جان نچھاور کرنیوالے پاکستانی نڑاد ہمایوں خان کے والد خضرخان پرجوش انداز میں کررہے ہیں جس سے ریپبلکن امیدوارٹرمپ زچ بھی ہو رہے ہیں۔ چنانچہ گمان یہی تھا کہ موجودہ صدارتی انتخاب میں بھی ڈیموکریٹس کی کامیابی کی صورت میں دہشت گردی کی جنگ میں نہ صرف پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرکے ان کا صلہ دیا جائیگا بلکہ بھارت اور افغانستان میں موجود دہشت گردی کے روٹ کاز کے تدارک کیلئے بھی پاکستان کی معاونت کی جائیگی۔
پاکستان اور بھارت کے مابین جاری دیرینہ تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھی کردار ادا کیا جائیگا جس کا اوبامہ نے اپنی پہلی ٹرم میں اعلان بھی کیا تھا اور اس مقصد کیلئے سابق صدر کلنٹن کو رابطہ کار بھی مقرر کیا تھا مگر یہ امر حیران کن ہے کہ اس وقت جبکہ امریکی صدارتی انتخاب کی مہم فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوچکی ہے’ اوبامہ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پر دبائو بڑھا کر اس سے ”ڈومور” کے تقاضوں میں شدت پیدا کردی گئی ہے۔ پاکستان کو ایف 16 کی خریداری کیلئے مختص رقم میں ناروا کٹوتی سے 30 کروڑ ڈالر کی امداد روکنے تک کے امریکی کانگرس کے فیصلوں کے ذریعے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کو مشکوک ہی سمجھا جاتا رہا ہے اور افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی کے بعد بھی پاکستان سے ”ڈومور” کے تقاضے برقرار رکھے گئے ہیں جس سے بادی النظر میں اس تاثر کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ امریکہ کو صرف اپنے مفادات سے ہی سروکار ہے۔
اس حوالے سے وہ اپنے کسی حلیف کے ساتھ طوطا چشمی کے مظاہرے میں ذرہ بھر نہیں ہچکچاتا۔ ریپبلکنز کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں زیادہ سخت گیر سمجھا جاتا ہے جس کیلئے ریگن اور بش سینئر و جونیئر کے ادوار کے شواہد موجود بھی ہیں۔ اگرچہ اوبامہ نے دہشت گردی کی جنگ میں بش انتظامیہ کی پالیسیاں ہی قرار رکھی تھیں جس کے تحت سلالہ چیک پوسٹوں سے لے کر اسامہ بن لادن کیخلاف ایبٹ آباد اپریشن تک پاکستان کی خودمختاری میں مداخلت کی گئی جبکہ پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کا تسلسل بھی برقرار رکھا گیا تاہم آنیوالے صدارتی انتخاب میں ہلیری کی کامیابی کی صورت میں پاکستانی نڑاد امریکی باشندے مسلم دنیا کے ساتھ امریکی تعلقات کے معاملہ میں آسودگی محسوس کررہے تھے مگر امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے جس تحکمانہ لہجے میں پاکستان سے مبینہ طور پر ہمسایہ ممالک میں حملے کرنیوالے گروپوں کیخلاف سخت کارروائی کا تقاضا کیا ہے۔
اس سے ڈیموکریٹس کے ساتھ وابستہ امیدوں کے سارے محل دھڑام سے نیچے آگرے ہیں۔ مارک ٹونز کا یہ بیان دہشت گردی کی جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے نیٹو ممالک سے بھی زیادہ قربانیاں دینے والے پاکستان کی دل آزاری کے مترادف ہی نہیں’ حقائق کے سراسر منافی بھی ہے اور اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان سے یہ تقاضا کابل انتظامیہ اور دہلی انتظامیہ سے باقاعدہ بریفنگ لے کر کیا گیا ہے اور انہی کے لب و لہجے میں یہ تقاضا کیا گیا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے صدارتی انتخاب کے بعد امریکہ کے پاکستان کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات ہونگے۔ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں تو پوری مسلم امہ کو امریکی عزائم سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جبکہ اب اوبامہ انتظامیہ کے ترجمان کی جانب سے پاکستان کو سخت لہجے میں دی گئی ڈکٹیشن سے ڈیموکریٹس کی ممکنہ اگلی ٹرم میں بھی پاکستان کیلئے خیرسگالی کا کوئی جذبہ نظر نہیں آرہا۔ چنانچہ اب پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ سے تعلقات پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی اور ملکی سلامتی’ خودمختاری اور بہترین قومی مفاد کو اپنی قومی خارجہ پالیسی کا محور بنانا ہو گا۔
اگر امریکہ کو پاکستان کے فراہم کردہ ان ٹھوس شواہد کا بھی احساس و ادراک نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی بیشتر وارداتوں میں بھارتی ایجنسی ”را” کا نیٹ ورک ملوث ہے اور بھارت اپنے دہشت گردوں کو افغان سرزمین میں تربیت دے کر انہیں افغانستان ہی کے راستے سے پاکستان بھجواتا ہے جس کا بھارتی جاسوس کلبھوشن نے اعتراف بھی کیا ہے’ اسکے باوجود امریکہ کا دوسرے ممالک میں مبینہ طور پر حملے کرنیوالے گروپوں کیخلاف پاکستان کو کارروائی نہ کرنے کا مورد الزام ٹھہرانا حقائق سے آنکھیں بند کرنے اور پاکستان کے ازلی مکار دشمن بھارت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے کے مترادف ہے۔ اگر امریکہ نے دانستہ طور پر ایسی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور اسے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیری عوام اور نوجوانوں پر توڑے جانیوالے بھارتی فوجوں کے مظالم بھی نظر نہیں آرہے جبکہ کشمیر سمیت باہمی تنازعات کے حل کیلئے پاکستان کی بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے ہمہ وقت آمادگی کا بھی احساس نہیں ہو رہا اور اسکی جانب سے مذاکرات کیلئے پاکستان پر ہی زور دیا جارہا ہے تو اس سے بھارت کیلئے امریکی کھلی جانبداری کا تاثر ہی اجاگر ہوتا ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ سارک وزراء داخلہ کانفرنس میں شرکت کیلئے آئے بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی اسلام آباد میں اپنی سردمہری اور دراندازی کے الزامات کے ذریعے پاکستان کو زچ کرنے کے بعد بھارت واپس جا کر لوک سبھا میں بڑھکیں لگائیں اور الزام عائد کیا کہ پاکستان خود کو بدلنے کیلئے تیار نہیں ہے جبکہ اب امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھی راجناتھ سنگھ والے لب و لہجے میں پاکستان پر دہشت گردوں کے کسی مخصوص گروپ کیخلاف کارروائی سے صرفِ نظر کا الزام عائد کیا ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی کہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف امریکہ اور بھارت کا یکساں مفاداتی گٹھ جوڑ ہوچکا ہے اور وہ باہمی ملی بھگت سے اس عالمی دبائو کو ٹالنے یا کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اس وقت بالخصوص کشمیری نوجوانوں کو بے دریغ شہید’ اندھا اور اپاہج کرنے کے ردعمل میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر ڈالا جا رہا ہے جبکہ پاکستان اپنی متحرک سفارتکاری کے ذریعے دنیا میں ان بھارتی عزائم کو بے نقاب کررہا ہے جو علاقائی اور عالمی سلامتی کیلئے سنگین خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔
اس تناظر میں دفتر خارجہ پاکستان کا موثر کردار بھی لائق ستائش ہے جس کے نتیجہ میں کشمیر ایشو پر پاکستان کے موقف کو بھی مزید تقویت حاصل ہو رہی ہے اور کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو بھی دنیا میں تسلیم کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھی کشمیر کو ہڑپ کرنے کی بھارتی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے درست لائحہ عمل طے کیا ہے جو اپنی ہر تقریر اور بیان میں کشمیر کو فوکس کررہے ہیں اور بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادیں یاد دلا رہے ہیں۔ انہوں نے اسی تناظر میں آزاد کشمیر لیجیسلٹواسمبلی کے انتخابات کے بعد صدر آزاد کشمیر کیلئے بھی ایک ایسی باوقار شخصیت مسعود خان کو نامزد کیا ہے جو مختلف ممالک میں بطور سفارتکار بھی کشمیر میں پاکستان کے موقف کی بھرپور وکالت کرتے رہے ہیں اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے بھی وہ عالمی قیادتوں کے سامنے پاکستان کے کشمیر کیس کو اجاگر کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے خالص کشمیری ہونا بھی ان کا طرہ امتیاز ہے چنانچہ آزاد کشمیر کا صدر منتخب ہونے کے بعد وہ زیادہ موثر انداز میں پاکستان کے کشمیر کیس کی وکالت اور بھارتی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کا توڑ کر سکیں گے۔
چونکہ پاکستان کی ایسی جامع پالیسیوں سے بھارت کو کشمیر پر مستقل تسلط جمانے کے اپنے عزائم پر اوس پڑتی نظر آرہی ہے اس لئے وہ امریکہ کی سرپرستی حاصل کرکے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو ناکام بنانا چاہتا ہے۔ اگر اس معاملہ میں امریکہ کھل کر بھارت کا ساتھ دے رہا ہے تو وہ بھی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی بھارتی سازشوں میں برابر کا شریک ہے اس لئے ہمیں اب بہرصورت اپنی قومی خارجہ پالیسی کی سمت درست کرناہوگی اور بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی باور کرانا ہوگا کہ انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں تو ہم بھی اپنی سلامتی’ خودمختاری اور قومی مفادات پر کوئی مفاہمت نہیں کر سکتے۔
تحریر : سید توقیر زیدی