تحریر : علی عمران شاہین
کہاں وہ فرعونی و نمرودی لب و لہجہ اور ان سے بڑھ کر بھڑکیں کہ نائن الیون کے ذمہ داروں کو ہمارے حوالے کر دو، ورنہ… ورنہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، پتھر کے دور میں دھکیل دیں گے اور کہاں یہ ذلت و پستی وہی سپرپاور اپنے ایک اور سب سے بڑے دشمن ملا محمد اختر منصور کو شہید کرنے کے بعد جشن مناتے، ساتھ ہی منمناتے ہوئے کہہ اٹھے کہ ”افغان طالبان کے نئے رہنما کو ہمارے ساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے۔”کیسے اور کس طرف سے مذاکرات کی منتیں اور کس کے ساتھ…؟ اس بات کا تذکرہ کرتے حیرت ہونے لگتی ہے کہ کیا کل کلاں ایسا وقت بھی جائے گا کہ دنیا کا طاقتور ترین انسان ہونے کا دعویدار ،امریکی صدر خود گزرے کل اپنی اکڑی زبان کو سوکھے تالو سے لگا کر کہہ اٹھے گا ”براہ مہربانی، ہمارے ساتھ مذاکرات کرو۔”
کیا یہ وہی امریکہ ہے جس نے نائن الیون کے بعد سارے جہاں کو یوں ساتھ ملایا تھا کہ ہر کوئی اس غراتے بھیڑئے سے خوف کھاتا پھرتا تھا۔پھر ان سب نے مل کرکرئہ ارض کے انتہائی نحیف و نزار اور پتھر کے دورجیسی زندگی بسر کرتے اس بے آب و گیاہ ملک پر ایٹم بم کے علاوہ دنیا کا ہر ہتھیار آزمایا تھا۔ ڈیزی کٹر، نیپام بم، کروز میزائیلوں کی برسات اور پھر بی باون سے بے پناہ بمباریاں، نیز خلائی سیاروں کی مدد، سٹیلتھ ٹیکنالوجی کا استعمال اوریوں کرتے کرتے امریکی 38دن میں افغانستان کی زمین پر تب اترے تھے ،جب انہیں پوری طرح یقین ہو گیا تھا کہ اب ان کا مخالف ہر ذی روح خاکستر ہو چکا ہے۔ امریکہ کہہ رہا تھا کہ بس اس کے دو ہی ہدف یعنی ملا محمد عمر اور اسامہ بن لادن بچ گئے ہیں جنہیں ڈھونڈ رہے ہیں، باقی تو سب مکمل طور پر فنا ہو چکا اور تاریخ انسانی کی سب سے بڑی جنگ میں فتح یاب ہو چکے۔ پھر ان دونوں کی تلاش میں امریکہ اور اتحادی نیٹو کا وہی حال ہوا جو صوفی تبسم کے تیتر اور بٹیر کا پڑھاتھا،جو لڑنے میں تو تھے شیر لیکن ”لڑتے لڑتے ہو گئی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دم” امریکہ کے اتحادی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھکنے لگے تو ایک ایک کر کے ناپید دمیں چھپائے بھاگنے لگے لیکن امریکیوں کی چونچ پھنسی کی پھنسی رہ گئی، جسے چھڑانے کے سارے جتن ناکام ہو چکے۔
6مئی 2016 کو عالمی میڈیا میں ایک خبر آئی جس میں بتایا گیاکہ روسی ایوان حکومت یعنی کریملن میں ایک رپورٹ گردش کر رہی ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کی وزارت دفاع نے اپنی ایک خفیہ دستاویز میں اقرار کیا ہے کہ انہیں افغانستان میں ویسی ہی شکست ہوئی ہے جیسی روس کو ہوئی تھی ۔اب امریکہ اسلام آباد میں بیٹھ کر چہار فریقی (پاکستان ،افغانستان،چین اور امریکہ) مذاکرات کے ذریعے ویسے ہی افغانستان سے نکلنے کے لئے تگ و دو کر رہا ہے ،جیسی روس نے اپنی شکست کے وقت کی تھی۔1979سے 1989تک جاری رہنے والی افغانستان کی اس جنگ میں روس کے 14453 فوجی قتل اور 53753زخمی ہوئے تھے۔جنگ ختم ہوئی تو معاشی تباہی کے باعث 1991 میں روس کے ٹکڑے ہو گئے۔روس نے حالات کا ادراک کر کے 1985میں واپسی کی تیاری شروع کر دی تھی۔ روس نے بھی یہی کوشش کی تھی کہ افغانستان کی اپنی فوج اور عسکری ادارے کام سنبھال لیں۔ امریکہ کی افغان جنگ جس کا سارا کچا چٹھا اب کھل کر سامنے آ چکا ہے، امریکہ کی جانب سے اقرار کیا گیا ہے کہ یہاں31458 امریکی و اتحادی فوجی قتل اور 22773امریکی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔امریکہ اس جنگ پر 4 سے 6ٹریلین ڈالر خرچ کر چکا ہے، اسی کے نتیجے میںوہ19ٹریلین ڈالر کے قرض کی ادائیگی میں ہر روز سخت تر مشکل کا شکارہے۔امریکی سب کچھ وہی کر رہے ہیں جو روس نے کیا تھا ۔اب تو امریکی جنرل جان کیمبل نے ہائو س آرمڈ کمیٹی کے سامنے اقرار کیا ہے کہ انہیں2014کے اختتام کے بعد سے افغان طالبان کے خلاف کسی بڑے چھوٹے آپریشن کی اجازت نہیں۔
آج سے ٹھیک ایک سال پہلے امریکہ کے ایک نامی گرامی صحافیJohn Haltiwangerنے اسی حوالے سے اپنی امریکی ابلاغ کے لئے لکھی رپورٹ میں کہا تھا کہ 13سالہ افغان جنگ کے بعد امریکہ کی حالت یہ ہے کہ اسے ایک بھی ہدف حاصل نہیں ہوا تھا۔امریکہ دنیا کے کتنے خطوں میں اسلام پسندوں سے الجھ چکا ہے لیکن افغان طالبان پہلے کی طرح طاقتور ہیں۔ امریکی سیاسی شکست سے بھی دوچار ہوئے اور وہ افغان عوام کا بھی دل نہیں جیت سکے۔مورخین اور دانشور لکھ رہے ہیں کہ امریکہ کو یہاں ویت نام سے بھی بڑی شکست ہوئی ہے۔
ملا محمد عمر ہوں، اسامہ بن لادن یا ملا محمد اختر منصور… جس کا دنیا میں جو وقت مقرر تھا ،وہ اس پر اس دنیا سے رخصت ہوا لیکن خدا کی ایک کُن کے ساتھ بنائی دنیا میں خدائی کا دعویدار امریکہ ان کی دھول تک پہنچنے کیلئے سالہا سال بس دھول ہی چاٹتا رہا۔دنیا تماشا دیکھتی رہی کہ امریکہ کے سبھی اسلحہ ساز کارخانوں کی مشینریاں، سارے انجینئر،سارے عالی دماغ لوگ اور سارے اتحادی مل کر بھی افغان کوہساروں کی ریت اور پتھروں کا توڑ نہ کر سکے۔ اللہ نے تو اس سرزمین کو یہ اعزاز بخشے ہیں کہ اس نے انیسویں صدی میں برطانیہ کو ذلیل و رسوا کر دیا تھا۔ وہ کابل کا ہی تو ایک محاصرہ تھا جس کے لئے آنے والی 18ہزار برطانوی فوج میں سے افغانوں نے صرف ایک فوجی کو صرف اس لئے واپس جانے دیا تھا کہ وہ واپس جا کر اپنے ملک کے لوگوں کو بتا سکے کہ افغانستان میں ان کی فوج کے ساتھ کیا بیتی تھی۔؟جی ہاں! یہ وہی برطانیہ تھا جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ وہی برطانیہ ایک بار پھر امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی بناتو اس کے امریکہ کے بعد سب سے زیادہ فوجی مارے گئے۔اسی کے اپنے بی بی سی نے گزشتہ ہفتے خبر دی کہ برطانیہ کی معیشت کا مدت بعد اب ایسا بھٹہ بیٹھا ہے کہ پہلی بار صرف معیشت کمزور پڑنے کے باعث 10لاکھ نوجوانوں کو نئے گھر دستیاب نہیں ہو سکیں گے اور وہ اپنے پرانے گھروں میں والدین کے ساتھ رہیں گے۔
اس نہتی افغان قوم نے روسی ٹینکوں کو روکنے اور تباہ کرنے کے لئے کمبلوں میں گارا اور پتھر ڈال کر انہیں استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی دریافت کی تھی۔ وہ یہ بھاری کمبل، پہاڑوں اور کھائیوں میں چھپ کر روسی ٹینکوں کی چین میں ڈال دیتے۔ ٹینک رک جاتے اور افغان ٹینکوں پر چڑھ کر کلہاڑیوں سے فوجیوں کو قتل کرڈالتے تھے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ آج بھی سارے افغانستان میں اس روسی ریچھ کے انجر پنجر تباہ شدہ ٹینکوں، توپوں، ہیلی کاپٹروں اور ہوائی جہازوں کی شکل میں پڑے ہیں۔
امریکیوں نے بس ایک کمال کیا کہ انہوں نے اپنا ایسا سارا کچرا بھی خود ہی سارے ملک سے اٹھایا اور اسے کابل میں لا ڈھیر کیا۔ یہ ڈھیر اتنا بڑا تھا کہ لوہے اور جنگی سامان کا اتنا بڑا ڈھیر دنیا میں کبھی نہ لگا تھا۔ پھر امریکہ دنیا کا سب سے بڑا کباڑیا بنا اور اس نے یہ سامان بیچنا شروع کیا۔ اس شغل میں ان کے کئی مہینے تو گزر ہی گئے۔ امریکہ کو اپنی جس ٹیکنالوجی پر ناز تھا ،وہ یہاں چاروں شانے یوں چت ہوئی کہ امریکہ نے مالدیپ، جرمنی، ترکی، متحدہ عرب امارات، قطر اور پھر پاکستان تک گھر گھر دستک دی۔
جگہ جگہ اپنے پائوں پسار لئے کہ کہیں سے تو جان بچنے کی راہ نکلے گی۔اس ٹوٹی چونچ کو چھپاتی سپرپاور کی آخری امید وہی پاکستان ہے جسے اس نے پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکی دی تھی۔ اس سے مذاکرات کی بساط بچھا کر کامیابی کے ساتھ پسپائی کی راہ نکالنے کی منتیں ہوتی ہیں۔ بات نہ بنے تو کبھی ایف سولہ روکنے تو کبھی ادھار پر دیا جانے والا فوجی تعاون روکنے کی دھمکیاں سامنے آتی ہیں۔ ایک ایسی سپرپاور جسے یہ تکبر تھا کہ اس جیسی طاقت و سلطنت تاریخ انسان میں کوئی حاصل نہیں کر سکا، اس کی یہ لچی اور کمینی حرکتیں ایک جہاں کیلئے تماشا بن چکی ہیں۔
تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ذلت و رسوائی کی داستاں ابھی ختم ہونے والی نہیں۔دنیا مانتی ہے، افغانستان کی تاریخ میں ہے کہ جو یہاں فتح کے نشے میں چور آیا، کبھی باعزت واپس نہیں جا سکا ۔ اس خطے سے یہاں سے ہمیشہ فاتح ہی نکلے ہیں اور انہیں کوئی بھی زیر نہ کر سکا، سچ کہا تھا اقبال نے افغان باقی کہسار باقی، الحکم للہ الملک للہ
تحریر : علی عمران شاہین
( برائے رابطہ:0321-4646375)