تحریر: سلطان حسین
امریکہ میں ہر چار سال بعد جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو پوری دنیا کی نظریں اس پر لگی رہتی ہیں ہر ملک اسے اپنی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ یہ ان کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس کے لیے وہ کسی خاص امیدوار کی حمایت بھی کرتے ہیں اور فنڈ بھی دیتے ہیں امریکی انتخابات کے اثرات پوری دنیا پر پڑتے ہیں اس میں پاکستان بھی شامل ہے اسی لیے ان انتخابات پر پاکستان کی خصوصی نظر رہتی ہے الیکن امریکہ میں ریپلکن پارٹی کی حکومت ہو یا ڈیموکرٹیک پارٹی کی دونوں کی پالیسی میں پاکستان کے لیے کوئی خاص جگہ نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود پاکستان کے حکمران اور وزارت خارجہ خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں ان کی خوش فہمی اس وقت دور ہوتی ہے جب امریکی صدر ”موشن” میں آتے ہیں اس وقت چار سال بعد ایک بار پھر امریکہ میں صدارتی انتخابات کی دوڑ جاری ہے جو اس سال نومبر میںہوں گے ہیلری کلنٹن نے اپنی صدارتی مہم مزید تیز کردی ان کی مہم میں ان کے شوہر بل کلنٹن اور ان کی بیٹی چیلسی بھی شامل ہوچکی ہے ۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ میڈلن البرائٹ نے بھی ہیلری کی حمایت کردی جبکہ سار پولن ٹرمپ کی حمایت میں سامنے آئی ہیں ریپبلکن پارٹی کی امیدواری حاصل کرنے کی کوشش میں ارب پتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اہلیہ کو آگے لے آئے ہیں۔
کبھی فرنٹ رنر خیال کیے جانے والے بش خاندان کے دوسرے چراغ، جیب بش کی مہم کے لیے بش سینئر اور جونیئر دونوں کوششیں کر رہے ہیں ۔ ٹیڈ کروز بھی اس میدان کے شہسوار ہیں ڈیموکریٹس کی طرف سے برنی سینڈرز بھی سرگرم ہیں تقریباََ سب ہی امیدوار ان دنوں جہاں اپنی حمایتی پیداکرنے میں لگے ہوئے ہیں وہاں انتخابی اخراجات پورے کرنے کے لیے بڑے بڑے لوگوں سے فنڈ لینے میں بھی مصروف ہیں جبکہ بعض ملک بھی انہیں فنڈ دے رہے ہیں سب نے اپنی صدارتی مہم کے لیے فنڈ کے حصول اور انتخابی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے نابئین مقرر کر رکھے ہیںہیلری اس وقت اپنے نائبین کو سب سے زیادہ ادائیگی کر رہی ہے ۔
ہیلری کلنٹن کی قریبی دوست ہما عابدین جن کے والد کا تعلق بھارت اور والدہ کا پاکستان سے ہے اسوقت امریکہ میںصدارتی مہم کا حصہ بننے والی مہنگی ترین خاتون بن گئیں ہیںجس کی سالانہ تنخواہ 227.000 امریکی ڈالر ہے عابدین کو پہلی سہ ماہی میں 09.69.263 ڈالر کی ادائیگی کی گئی تھی جو کسی بھی مہم چلانے والی خاتون کی آمدنی سے زیادہ ہے اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جان پاڈیسلاجو ہیلری کلنٹن مہم کی چیئرمین ہیں کی تنخواہ محض 3.588 امریکی ڈالر ہے جبکہ مہم کے منیجر جینیفر کو 27.825 امریکی ڈالر ادا کیے جاتے ہیں کانگریس کے سابق رکن انتھونی کی اہلیہ عابدین ہیلری کلنٹن کی جانب سے شروع کردہ مہم ”ہیلری امریکہ کے لیے” کی وائس چیئرمین ہیں عابدین ہیلری کے معاملات کو آزادانہ طور پر دیکھ رہی ہیں اور اکثر میٹنگ میں بھی ہیلری کی جگہ وہ شامل ہوتی ہیں اس حوالے سے مہم سے وابستہ ہیلری کی قریبی دوست کا کہنا ہے کہ ہیلری عابدین کو اپنا خاص راز دان سمجھتی ہیں اور ان پر بہت زیادہ بھروسہ کرتی ہیں امریکہ کے صدارتی الیکشن 2016 کا بخار آہستہ آہستہ امریکن میڈیا پر بھی چھا رہا ہے۔
اگرچہ اس وقت سینکڑوں چھوٹے بڑے امیدوار میدان میں ہیں لیکن مبصرین توقع کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں صحیح معرکہ ہیلری کلنٹن اور جیب بش کے درمیان ہو گااب اصل ٹکٹ کس کو ملتا ہے یہ ابھی طے ہونا باقی ہے تاریخی طور پر زیادہ تر ان امیدواروں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے جنہوں نے اپنے انتخابی مہم کیلئے زیادہ رقم اکٹھی کی 2012کے انتخابات میں صدر اوباما اور ان کے حامیوں نے 100ارب یعنی ایک کھرب روپے سے زائد رقم اکٹھی تھی جبکہ ان کے مقابل میٹ رومنی نے 99ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی لیکن اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی وہ ہار گئے ایک رپورٹ کے مطابق 2012کے کانگریس کے انتخابات میں 84فیصد کامیاب امیدوار وہ تھے جنہوں نے اپنے مدمقابل امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ رقم جمع اور خرچ کی اس وقت تک جو امیدوار میدان میں ہیں ان کی اب تک جمع کی گئی رقوم کا موازنہ کریں تو ہیلری کلنٹن اور جیب بش واضح برتری حاصل کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہیلیری کلنٹن فنڈ کے حوالے سے اس وقت سب سے آگے جارہی ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی انتخابی مہم میں 80فیصد سے زائد رقم ایسے افراد کی طرف سے آ رہی ہے جو 200 ڈالر یا اس سے کم کی رقم چندہ کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ان کی انتخابی مہم پر روزانہ اڑھائی کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیںدوسری طرف جیب بش کی کل جمع شدہ رقم 114.4ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے البتہ اس میں چھوٹے چندے دینے والوں کا حصہ صرف 11ملین ڈالر ہے جبکہ دولتمند افراد اور بڑی کاروباری کمپنیوں کی طرف سے تقریبا100ملین ڈالرکا حصہ ڈالا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس الیکشن جس کے انعقاد میں ابھی وقت ہے اس کی آمد اوراختتام پذیر ہوتے ہوتے یہ دنیا کی تاریخ کا مہنگاترین الیکشن ہو گا اور یہ مہنگا اس لیے ہے کہ ہر امریکی امیدوار امریکہ کے ذریعے دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے امریکی جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا تھا
کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اسکا صدر بھی منتخب نمائندوں کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا اب جوصورتحال نظر آرہی ہے اس میں نظر یہی آرہا ہے کہ امریکی جمہوریت بھی دولتمندوں کی محتاج ہو گئی ہے اور ان کے بغیر کامیابی ممکن نہیں امریکہ میں انتخابات جہاں ٹو پارٹی سسٹم کے تحت چل رہے ہیں وہاںاب دو مزید تبدیلیاں بھی دیکھنے کو بھی مل رہی ہیں اس کو آپ تبدیلیاں کہہ لیں یا خرابیاںلیکن جمہوریت کے حوالے سے اسے خرابیاں ہی کہا جاسکتا ہے اس میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ امریکی انتخابات بھی تیسری دنیاکی طرح اب دولت مندوں کے نرغے میں آگئے ہیں (اور اس میں بھی حکومت خاندان میں رکھنے کی خواہش موجود ہے ) ظاہر ہے جو لوگ امیدوار کو کامیابی کے لیے فنڈ دیں گے کامیابی کے بعد اس سے اپنے مفادات پورے کرنے کی توقع بھی رکھیں گے اسی لیے جہاں امریکی صدراتی امیدوارکو تیسری دنیا کے بعض ممالک اپنے مفادات کے لیے سپورٹ کرتے ہیں
وہاں امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیاں بھی انہیں کامیابی کے لیے فنڈ کے نام پر ”رشوت” دیتی ہیں تاکہ مستقبل میں کامیابی کی صورت میںان سے اپنے کام نکلوا سکیں اور گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ میں یہی کچھ ہو رہا ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ اب ڈیموکریٹ پارٹی ہو یا ری پبلکن پارٹی ہو دونوں پر خاندانی سیاست کی پرچھائیاں پڑ گئی ہیں ہیلری کلنٹن ہوں یا جیب بش ہو دونوں کے بڑے اقتدار میں رہ چکے ہیں ہیلری کلنٹن کے شوہر آٹھ سال اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں جبکہ جیب بش کے بش سینئر اور بش جونئیر بھی سولہ سال تک اقتدار کی طاقت کا نشہ دیکھ چکے ہیں اب دونوں کے جانشین سامنے آگئے تاہم ایک بات یہ واضح ہے کہ ریپلکن پارٹی کا امیدوار کامیاب ہو یا ڈیموکرٹیک پارٹی کا دونوں کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے بلکہ دونوں نے پاکستان کے حوالے سے سخت پالیسی ہی اپنانی ہے کیونکہ اس سے قبل ہیلری کی پالیسی پاکستان دیکھ چکی ہے جبکہ بش کے بڑوں کا بھی پاکستان کے ساتھ کوئی زیادہ اچھا رویہ نہیں رہا تھا ڈیموکرٹیک پارٹی تو ویسے ہی پاکستان کے لیے کوئی اچھا ضذبہ نہیں رکھتی اس لیے کسی کے حوالے سے بھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس حوالے سے اپنی حکمت عملی پہلے سے مرتب کرلینی چاہیے۔
تحریر: سلطان حسین