امریکا کہ جس کی ایک سو سالہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے علم ہوتا ہے کہ امریکی استعمار نے دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں مختلف حیلے بہانوں سے نہ صرف جارحیت کی ہے بلکہ کئی ایک ممالک پر متعدد مرتبہ فوجی چڑھائیاں بھی کی ہیں۔ حالیہ صدی میں افغانستان اور عراق پر امریکی فوجی یلغار بڑی مثالوں کی صورت موجود ہیں جبکہ امریکا، جو سات سمندر پار ہے لیکن پوری مسلم دنیا میں اس نے فوجی اڈے بنا رکھے ہیں، اس کے بحری بیڑے دنیا کے تمام سمندروں میں موجود ہیں۔ کسی بھی وقت کسی بھی ملک کے خلاف کوئی بھی جھوٹ پر مبنی حیلے بہانے بنا کر حملوں کا آغاز کر دیا جا تا ہے۔
پہلے یہی امریکا افغانستان کے جہادیوں کے ذریعہ روس کے خلاف جہاد میں ان کی مدد کرتا رہا اور پھر یکایک انہی جہادیوں کا دشمن بھی بن گیا اور ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا۔ اسی طرح عرا ق میں صدام جیسے ظالم و فاسق مجرم کے ذریعے کبھی ایران پر حملہ کروایا تو کبھی کویت بھی عراقی جارحیت سے محفوظ نہ رہا۔ پھر اچانک امریکا کو عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ڈبلیو ایم ڈیز یاد آگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر عراق میں فوجیں پہنچ گئیں؛ پھر عراق کے قدرتی ذخائر بشمول سونا و تیل پر امریکیوں نے قبضہ جمالیا۔
بہرحال، جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ امریکی شیطان کی جارحیت اور ظلم و جبر کی داستان ایک سوسال سے بھی طویل ہے اور اسے بیان کرنے کےلیے سیکڑوں کتابیں بھی لکھی جائیں تو کم ہیں۔
حالیہ دنوں ستائیسوں رجب المرجب کی بابرکت شب کو دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکا نے شام پر فرانس اور برطانیہ کی مدد سے حملہ کیا اور کہا جارہا ہے کہ پچاس کے لگ بھگ کروز میزائل داغے گئے جبکہ یہ حملہ کرنے کےلیے جہاں بحیرہ روم (میڈیٹیرینیئن سی) میں موجود برطانوی و فرانسیسی افواج موجود ہیں، وہیں اس حملے میں قطر کی سرزمین بھی استعمال کی گئی ہے۔ امریکا نے شام پر حملہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب شام کی افواج نے دیگر اپنے اتحادیوں بشمول روس اور ایران کے ساتھ مل کر شام کے متعدد علاقوں کا کنٹرول سنبھالنا شروع کردیا ہے۔
گزشتہ دنوں مغربی میڈیا پر جس طرح من گھڑت خبروں کا پرچار کیا جارہا تھا، اس کا منہ توڑ جواب شامی علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے ہزاروں شہریوں کو بحفاظت نکال کر دے دیا ہے جس کی درجنوں ویڈیوز مختلف ٹی وی چینلز نے نشر کی ہیں۔
اس تمام صورتحال کا اگر کسی کو فائدہ پہنچ رہا تھا تو وہ شامی حکومت اور عوام تھے کہ جو مسلسل دہشت گردوں سے نبرد آزما ہیں اور حالیہ دنوں بڑی کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے نجات حاصل کر رہے تھے۔ ایسے حالات میں امریکی و برطانوی ڈراما نگاروں میں شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ڈراما ایسے ہی علاقے میں رچانے کی کوشش کی کہ جس کا کنٹرول اب شامی افواج سنبھال رہی تھیں۔ بھلا ایسا کوئی کیوں کرے گا کہ جب کامیابی بھی ملے اور وہ اپنی کامیابی کو خود اپنے ہاتھ سے ضائع کردے؟
پوری دنیا اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے لیکن کسی کو ابھی تک اس بات کا جواب نہیں ملا ہے کہ شامی حکومت خود ہی اپنے ماتحت علاقوں پر کیوں کیمیائی ہتھیاروں کا حملہ کرے گی؟
شامی علاقے دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق اقوام متحدہ بھی حرکت میں آگئی اور پوری دنیا میں موجود امریکی پے رول پر چلنے والے ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر اسلامی لبادوں میں چھپے امریکی نوکر بھی سوشل میڈیا پر سرگرم ہوگئے جبکہ حقیقت میں ایسا کوئی کیمیائی حملہ دوما نامی علاقہ میں ہوا ہی نہیں۔ دوما کے مقامی اسپتال کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تاحال ان کے پاس کوئی ایک متاثرہ مریض کہ جسے کیمیائی حملے نے نقصان پہنچایا ہو، رپورٹ نہیں ہوا ہے۔
دوسری طرف اقوام متحدہ میں امریکا، اسرائیل، برطانیہ اور فرانس سمیت چند ایک عرب ممالک نے خوب بڑھ چڑھ کر شامی حکومت پر الزام عائد کیا اور حملوں کی دھمکی دی اور پھر ستائیسوں شب کو حملہ کیا بھی گیا۔ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا کہ جب ایک طرف اقوام متحدہ کا کمیشن دوما کے علاقے میں تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ جمع کروانے ہی والا تھا لیکن اس رپورٹ کے جمع کروانے سے قبل ہی امریکا نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر حملہ کر دیا۔
بہرحال، ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ امریکا اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے شامی حکومت پر عائد کیا جانے والا الزم جھوٹ پر مبنی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف شام پر امریکی حملے کا جواز پیدا کرنا ہے کیونکہ اب شام کے تقریباً تمام علاقوں میں ان تمام دہشت گرد گروہوں کا قلع قمع کیا جارہا ہے کہ جن کی مدد امریکا، اسرائیل، برطانیہ، فرانس، قطر، ترکی، سعودی عرب، اردن اور دیگر یورپی و عرب ممالک کر رہے تھے۔ یکے بعد دیگر تمام دہشت گرد گروہوں کا صفایا ہورہا ہے اور باقی ماندہ علاقے شامی حکومت کے کنٹرول میں آ رہے ہیں۔ ایسے اوقات میں ترکی کی عفرین نامی علاقوں میں جارحیت اور فوجی کارروائی اور اسی طرح امریکی و یورپی اتحادیوں کا شام پر حملہ، دونوں ہی دراصل شامی حکومت کو کمزور کرنے اور شامی عوام کے حقوق کو پامال کرنے کے مصداق ہیں۔
ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ جس طرح پاکستان اور چند ایک ممالک میں سوشل میڈیا پر موجود اسلامی لبادہ اوڑھے امریکی خدمت گار شام کے علاقے غوطہ اور اس سے قبل حلب کا نوحہ پڑھ رہے تھے کہ جس دوران ان کے ہم خیال دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری تھی، لیکن اب یہی فیس بکی جہادی امریکا کے خلاف کچھ بولنے یا لکھنے سے کیوں قاصر ہیں؟ کیا ان کی خاموشی کو اس طرح سمجھا جائے کہ امریکا کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے، جب چاہے حملہ کرے؟
اور اگر امریکا نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا بہانہ ہی استعمال کیا ہے تو پھر پوری دنیا کو مل کر سب سے پہلے امریکا کے خلاف حملے کرنے چاہئیں کیونکہ دنیا بھر میں کیمیائی ہتھیاروں کا فراہم کرنے اور استعمال کرنے والا امریکا ہی ہے، جس نے پہلے ماضی میں ایران کے خلاف عراق کو کیمیائی ہتھیار فراہم کیے جس کا صدام نے ایران کے خلاف استعمال کیا تھا اور اسی طرح امریکا نے ایٹم بم ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرا کر دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی اور جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
اسرائیل کی غاصب جعلی ریاست امریکی سرپرستی میں دسیوں ہزار فلسطینیوں سمیت دنیا بھر میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں قتل و اغوا جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہے۔ اسی طرح ویت نام، افغانستان، عراق، یمن، لیبیا، افغانستان، پاکستان میں جاری ڈرون حملے وغیرہ، یہ سب جواز ہیں کہ دنیا امریکا کے خلاف مشترکہ حملے کا اعلان کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ شام کو تقسیم کرنے کا امریکی ایجنڈا ناکام ہو چکا ہے اور اسرائیل کی سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں کیونکہ شام سے فرصت کے بعد شام میں امریکی، صہیونی و عربی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف سرگرم عمل قوتیں بالآخر مقبوضہ فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی آزادی کی طرف بڑھیں گی۔
خطے کے حالات نے تمام راستے القدس کی آزادی کی طرف کھول دیئے ہیں۔ ایسے حالات میں اب امریکا کا نہ صرف تنہا بلکہ یورپی بیساکھیوں کا سہارا لینا اور ناکام قسم کا حملہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا کی شیطانی طاقتیں اب زیادہ دیر تک طاقت کے مزے میں گم نہ رہیں گی بلکہ ان کا ضعف و ناتوانی اب دنیا پر آشکار ہوچکے ہیں کہ جب حالیہ شام میں ہونے والے حملوں میں شامی افواج نے پرانے قسم کے ایئر ڈیفنس سے امریکی جدید ترین میزائلوں کا رخ بدل ڈالا اور نشانہ لگا کر متعدد میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کر دیا۔ اس ساری صورتحال میں امریکا و اسرائیل کی پریشانی مزید بڑھ رہی ہے اور امریکا کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ شام سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں امریکی شیطانی سیاست ناکام ہو چکی ہے۔
امریکی و یورپی ممالک کے ساتھ گٹھ جوڑ کیے ہوئے چند ایک عرب خائن بادشاہوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور افغانستان کے جہادیوں اور عرا ق و لیبیا کے ڈکٹیٹروں کے ساتھ امریکیوں کا برتاؤ یاد رکھتے ہوئے اپنے انجام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ اگر ان عرب حکمرانوں نے اسی طرح حسنی مبارک، قذافی، صدام یا افغانستان کے جہادیوں جیسا تعلق و رویہ رکھا تو پھر مسلم امہ ان کی پشت پر کھڑی نہ ہوگی اور اگر بہادری اور دلیری دکھائی اور بشارالاسد کی طرح شیطانی امریکی و صہیونی قوتوں کے مدمقابل قیام کیا تو یقیناً دنیا کا ہر مسلمان ان کے ساتھ ہوگا۔