وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امریکا کو پہلے ہی نومور کہہ چکے ہیں، ٹرمپ افغانستان میں ناکامی پر مایوسی کا شکار ہیں جس کا غصہ پاکستان پر اتار رہے ہیں جبکہ امریکا افغانستان میں بند گلی میں پھنسا ہوا ہےاور امریکا افغانستان میں ناکامی کا حساب اپنے لوگوں سے لے جو وہاں گئے تھےہم تو امریکا کو ایک ایک پائی کا سرعام حساب دینے کے لئے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا ہکہ امریکا افغانستان کا فوجی حل کے بجائے پرامن حل ڈھونڈے، امریکا کی طرف سے دیئے گئے پیسوں کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے،جو سروسز ہم نے انہیں دی تھیں اس کے بدلے ہمیں پیسے ملتے تھےاور ہم نے اپنی سرزمین کی حفاظت کی قسم اٹھائی ہوئی ہے۔
یہ بات وزیر خارجہ نے جیو نیوز کے پروگرام’کیپٹل ٹاک‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کے دوران کہی جبکہ پروگرام میں ن لیگ کے رہنما بیرسٹر ظفر اللہ ، پیپلز پارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ اور دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب بھی شریک تھے۔
اس موقع پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیاست میں بازاری زبان کا استعمال درست نہیں ہے، پیپلز پارٹی کا کسی کے ساتھ اتحاد نہیں ہواہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے معاملہ پر روزِ اول سے طاہر القادری کے ساتھ ہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائےجبکہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ پر عملدرآمد ہونا چاہئے جس میں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ بھی ذمہ دار ٹھہرتے ہیںاور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نےاب تک صرف 3 دفعہ پٹرول کی قیمتیں بڑھائی ہیں۔
بیرسٹر ظفر اللہ خان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ منتخب امریکی صدر ہے لیکن اس کا اسٹائل کاؤ بوائے والا ہے، ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیانات کو سنجیدگی سے لینا چاہئے، امریکا نے پاکستان کے خلاف کئی محاذ کھولے ہوئے ہیں، امریکا پاکستان کی معیشت کو زک پہنچانے کے لیے تیار ہےجبکہ ہمیں اپنی افغان پالیسی کا بغور جائزہ لے کر مزید فیصلے کرنا ہوں گے، پاکستان کی سیاست نواز شریف اور اینٹی نواز شریف کے گرد گھوم رہی ہےاور اگر سپریم کورٹ کسی قانون کو آئین کے خلاف سمجھے تو مسترد کرسکتی ہے۔
امجد شعیب نے کہا کہ ٹرمپ مایوسی میں دھمکیاں نہیں دے رہا بلکہ پلان میں تبدیلی آئی ہے، ٹرمپ کا حقیقی ٹارگٹ سی پیک اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ہیں، امریکا نے سی پیک کی وجہ سے پاکستان کیخلاف جارحانہ رویہ رکھا ہوا ہے، امریکا طالبان یا داعش کے ذریعہ گوادر پورٹ کے ساتھ سی پیک کا لنک ختم کرنا چاہتا ہےجبکہ امریکا ایک وقت طالبان سے مذاکرات کی کوشش کرتا رہاپھر خود ہی انہیں سبوتاژ کیا، امریکا اب افغانستان میں مذاکرات نہیں چاہتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا افغانستان میں امن کیلئے نہیں اپنا گیم کھیلنےکے لیے بیٹھا ہے، امریکا کے پاس پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہےجبکہ امریکا افغانستان میں بیٹھ کر ایران، روس اور پاکستان کو تنگ کرنا چاہتا ہےاور پاکستان امریکی رقم کے مقابلہ میں اپنی قربانیاں اور نقصان دنیا کے سامنے رکھےتاہم شریف برادران سعودی عرب این آر او کیلئے نہیں گئے بلکہ ان کی روانگی کا تعلق سعودی عرب میں ان کے مالی معاملات سے ہے۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف نےبتایا کہ ٹرمپ پاکستان کو جو پیسہ دینے کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں وہ رقم بھی شامل ہے جو افغانستان میں آپریشنز کے دوران پاکستان کے ہونے والے خرچے کی مد میں دی جاتی تھی،جو سروسز ہم نے انہیں دی تھیں اس کے پیسے ہم نے ان سے لیے اور یہ رقم انہوں نے ہمیں خداواسطے نہیں دی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری زمین، سڑکیں، ریلوے کے علاوہ بھی مختلف سروسز استعمال ہوئیں ،جس کی وہ ادائیگی کرتے تھے، امریکا کی طرف سے دیئے گئے پیسوں کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہےجبکہ ٹرمپ نے مقامی کھپت کے لیے ایران اور پاکستان کیخلاف ٹوئٹ کیا ہے اور امریکا افغانستان میں بند گلی میں پھنسا ہوا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ٹرمپ افغانستان میں ناکامی پر مایوسی کا شکار ہیں، جس کا غصہ پاکستان پر اتار رہے ہیں، ٹرمپ کو اپنی افغان پالیسی کا ازسرنوجائزہ لینا چاہئےجبکہ امریکا افغانستان میں اپنی موجودگی میں توسیع کر کے اپنی ناکامیوں کومضبوط کررہے ہیںتاہم افغانستان کے مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہےاور امریکا کو افغانستان کا پرامن حل ڈھونڈنا چاہئے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے ہمسائے پرامن حل کو ڈھونڈ سکتے ہیں، امریکا افغانستان میں ناکامی کا حساب اپنے ان لوگوں سے لے جو وہاں گئے تھے، امریکا کو ایک ایک پائی کا سرعام حساب دینے کے لئے تیار ہیںجبکہ امریکا نے پاکستان میں ڈرون حملے کیے تو اس کا حساب چکائیں گے، ہم نے اپنی سرزمین کی حفاظت کی قسم اٹھائی ہوئی ہےاور ہم امریکا کو پہلے ہی نومور کہہ چکے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کی سمت پاکستان کے مفاد میں ہے، اس وقت کوئی اور سمت نہیں جس طرح ماضی میں ہوتا تھا، یہ سمت صرف پاکستان کی اپنی سمت ہے۔
پروگرام کیپٹل ٹاک میں معاون خصوصی وزیراعظم برسٹر ظفر اللہ خان کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ کسی زما نے میں پاکستان کی سیاست بھٹو اور اینٹی بھٹو ہوتی تھی اب کچھ عرصے سے معاملہ یہ ہوگیا ہے کہ ایک طرف نواز شریف ہیں اور دوسری طرف سارے اکٹھے ہوگئے ہیں۔