اسلام آباد(نامہ نگارخصوصی) کرونا وبا کے سبب افغانستان میں امریکی فورسز کی روانگی یں تیزی کی توقع کی جارہی ہے کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی چاہتے ہیں کہ افغان امن عمل جلد شروع ہو جائے اور وہ تین نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب سے قبل اپنی فورسز کی زیادہ سے زیادہ تعداد واپس بلا لیں۔۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ بین الافغان مذاکرات ہیں مگر یہ معاملہ ابھی تک تعطل کا شکار ہے۔موجودہ صورتحال میں افغانستان میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے پیش نظر امریکی فورسز کی واپسی کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ پھر چاہے بین الافغان ان مذاکرات میں خاطر خواہ کامیابی نہ بھی ملے، تب بھی یہ عمل جاری رہنے کی توقع ہے۔ ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق مستقل مندوب نے امریکی خبررساں ادارے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح افغانستان کو بھی کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سامنا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ لیکن اس وقت افغانستان میں دو سیاسی متحارب فریق شراکت اقتدار کے کسی معاملے پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ ان کے نزدیک بین الافغان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ ہے۔ ان کے نزدیک مذاکرات شروع نہ ہونے کی ایک اور وجہ صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان چپقلش ہے۔ ادھر امریکہ اور عالمی برداری افغان فریقین اور بالخصوص طالبان پر تشدد روکنے کے لیے زور دے رہے ہیں۔ لیکن تشدد کے واقعات میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ افغان فورسز اتحادی افواج کی حمایت سے ان کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ لیکن امریکہ اور افغان حکومت کا مؤقف ہے کہ ان کی کارروائیاں طالبان کی عسکری کارروائیوں کے ردعمل میں ہیں۔ اگر طالبان اپنے حملے روک دیں تو ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ کی سفارتی کوشش یہی ہے کہ کسی طرح طالبان کو اس بات پر راضی کر لیا جائے کہ وہ بین الافغان مذاکرات سے قبل وہ اپنے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی پر اصرار کرنے کے بجائے فی الحال اپنے دو ہزار قیدیوں کی رہائی کو ہی قبول کر لیں۔ تاکہ بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہو جائیں۔ سابق مندوب نے مزید کہا کہ دوسری طرف امریکہ کی یہ بھی کوشش ہو گی کہ صدر اشرف غنی بھی لچک دکھائیں۔ حال ہی میں امریکی حکام کی پاکستان کے اعلیٰ فوجی حکام سے ہونے والی گفتگو سے متعلق انہوں نے کہا کہ امریکہ کی توقع ہے کہ پاکستان اس مرحلے میں افغان امن عمل کی راہ میں درپیش مشکلات دور کرنے میں تعاون کرے۔ ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ افغان امن عمل میں فیصلہ کن کردار افغان فریقین اور امریکہ کا ہے۔ پاکستان ایک معاون کا کردار تو ادا کر سکتا ہے لیکن افغان فریقین کو اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنی ہو گی۔ ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ اس وقت امریکہ کی اولین ترجیح یہ ہے کہ افغانستان سے اپنی فورسز کو واپس بلایا جائے۔ ان کے بقول صدر ٹرمپ کی ترجیح یہ ہے کہ افغانستان میں تعینات فوجیوں کی واپسی خوش اسلوبی سے ہو جائے۔