تحریر: محمد عتیق الرحمن
بانی پاکستان محمد علی جناح نے کشمیر ی رہنماؤں کی دعوت پر 1939ء میں کشمیر کا دورے میں خطاب کرتے ہوئے کہا ’’اے مسلمانو ! ہمارا اللہ ،پیغمبرﷺاور قرآن ایک ہے ۔ ہم سب ایک ہیں ۔آپ کی اورہماری آزادی کا ایک ہی مقصد ہے ۔‘‘اور جب بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں زبردستی داخل کیں تو بانی پاکستان نے پاکستانی افواج کو انڈین افواج کا مقابلہ کرنے کی ہدایت کی اور کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور کہا ’’کشمیر کی آزادی کے لئے ہم خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے ،ہم پہاڑوں اور سمندروں میں بھی لڑیں گے۔‘‘بانی پاکستان ؒ نے22اکتوبر 1939ء کوایک بیان دیاجس میں کہا کہ ’’مسلمانو!میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا ،شہرت کے لطف اٹھائے ۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں ۔ میں چاہتاہوں کہ جب مروں تواس یقین اور اطمینان سے مروں کہ میرا ضمیر اور میرا اللہ گواہی دے کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی،تنظیم اور مدافعت کااپنا فرض اداکردیا ہے ۔میرااللہ یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مرے ۔‘‘
وادی کشمیر کے مسلمان عرصہ دراز سے ظلم وستم ،جبر اور غلامی کے خلاف کھڑے ہیں ۔جنت نظیر پر گلاب سنگھ ڈوگرہ نے پہلا غاصبانہ قبضہ اس وقت جمایاجب انگریزوں نے محض 75لاکھ نانک شاہی روپے کے عوض اس پورے خطہ ارضی کو اس کے ہاتھوں فروخت کردیا ۔ اس وقت یہ زمین 84471مربع میل تھی اور اس حساب سے 155روپے فی مربع میل کے حساب سے اسے وہ زمین ملی جس کو فردوس بریں کہا جاتا ہے اور اس کی آبادی کے تناسب سے سواسات روپیہ پڑی ۔اس وقت کے کشمیری مسلمانوں نے ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی لیکن اتحاد واجتماعیت کے فقدان کی وجہ سے کوئی تحریک کھڑی نہ کرسکے ۔ڈوگرہ مظالم کے بعد تقریباََ1929ء جموں کے علاقے میں چودھری غلام عباس نے اے ۔آرساغر اوردیگر چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر (Young Men)ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔
ایسوسی ایشن نے مسلمانوں کے حقوق کے لئے خاطر خواہ جدوجہد کی ۔ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم کشمیریوں پر شدید سے شدید ترہوتے گئے ۔جموں وکشمیر میں ہونے والے مظالم کے خلاف جب کشمیری احتجاج کرتے تو ان کے پرامن احتجاج کو سختی سے کچلا جاتا ۔کشمیر ی مسلمانوں پر مظالم کی خبریں پورے ہندوستان کے مسلمانوں تک پہنچتی تو ان میں غم وغصہ کی لہر وقتا فوقتا اٹھتی رہتی ۔اکتوبر 1931ء میں پورے پنجاب میں چلو چلو کشمیر چلو کی صدائیں گونجیں اور قافلے کشمیر پہنچے ۔یوں اس موقع پر برطانوی حکومت کو کشمیر میں مظالم بندکروانا پڑے لیکن یہ تحریک مکمل آزادی کی صور ت اختیار نہ کرسکی ۔تقسیم ہندوستان کے وقت ریڈ کلف کی ملی بھگت سے بھارت کو کشمیر تک راستہ ملا تو پاکستانی قبائل نے کشمیریوں کی مددکے لئے پہنچنا شروع کیا اور ڈوگرہ فوج کے ساتھ ساتھ اس وقت کی بھارتی فوج کے ساتھ لڑ کر کشمیر کا ایک حصہ آزاد کروایا جسے آزاد کشمیر کے ہم جاناجاتاہے ۔جب بھارت نے دیکھا کہ مجاہدین کو اگر نہ روکا گیاتو وہ پورا کشمیر ہی آزاد کروالیں تو ہمیشہ کی طرح مکار بنیاء بھاگابھاگا اقوام متحدہ میں گیااور جنگ بندی کی اپیل کی اور قراردادپیش کی کہ کشمیریوں کافیصلہ استصواب رائے سے کیا جائے گا اورانہیں حق خود ارادیت دیاجائے گا ۔یوں 15اگست 1948ء کو اقوام متحدہ میں بھارتی مکاری نے کشمیریوں کی آزادی سلب کرلی ۔
اس کے بعد کشمیریوں نے وقتا فوقتا اپنے تئیں جدوجہد آزادی شروع کی جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اتارچڑھاؤآتارہا۔1966ء میں محمد مقبول بٹ نے نیشنل لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی ،اس کا مقصد بھی کشمیریوں کوآزادی دلوانا تھا یہ تحریک بھی چلتی رہی تاوقتیکہ روس افغانستان پرحملہ آور ہوا ۔مجاہدین افغان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد نہ صر ف روسی تسلط سے افغانستان کو نجات دلوائی بلکہ جہادی تھپیڑوں سے روس ٹکڑوں میں بٹ گیا ۔۔اس افغان جہاد نے کشمیریوں کو ایک نیا ولولہ اور ایک نئی سوچ دے دی جس نے بالآخر مسلح جدوجہد کی طرف کشمیریوں کو ابھارا ۔چنانچہ 1988ء کے آخر میں عسکری جدوجہد کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں لشکرطیبہ ،حزب المجاہدین ،البدر ،البرق اور جیش محمد جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں ، جن میں آج بھی لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین بھارتی عصاب پر حاوی نظر آتی ہے ۔افغانستان میں امریکی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کی کوشش کی اور بہت سے اقدامات کئے ۔
یقیناان قدامات سے تحریک آزادی متاثر ہوئی لیکن دب نہ سکی ۔یہی وجہ ہے کہ 2008ء میں جب امرناتھ یاترا اور اس سے ملحقہ جگہ ہندوؤں کے نام کرنے کا فیصلہ کیاگیا تو پوری وادی سراپااحتجاج بن گئی ۔ یہ احتجاجی تحریک اس قدر شدید تھی کہ بھارتی حلقوں نے بھی کہنا شروع کردیا کہ بھارت کو اب کشمیر سے جان چھڑوا لینی چاہیئے ۔یوں موجودہ حالات تک تحریک آزادی کشمیر مختلف مراحل سے گذرتی رہی اور اس میں نشیب وفراز بھی آئے لیکن کشمیریوں کاجذبہ آزادی کسی بھی بھارتی ہتھکنڈے سے ماند نہ ہوسکا ۔لاکھوں کشمیری اس تحریک آزادی کیلئے اپنی جان قربان کرچکے ہیں ،ہزاروں کشمیری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنی عصمتیں گنوا چکی ہیں اور بلامبالغہ ہرکشمیری مسلمان کے سر پر ایک بھارتی فوجی گن تانیں کھڑا ہے ۔
مئی کے پہلے ہفتے میں ایک امریکی میگزین ’’فارن پالیسی ‘‘ میں ایک آرٹیکل شائع ہوا تھا جس کا عنوان تھا “India is Losing Kashmir”(انڈیا کشمیر کھورہاہے) ۔امریکا کا یہ موقر جریدہ لکھتا ہے مقبوضہ کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکل رہاہے ۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی عوامی حمایت بڑھ رہی ہے ۔ بھارتی کالے قوانین کی وجہ کشمیری نوجوان بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے۔حریت پسندوں کے ساتھ کھلی عوامی حمایت نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں کھلبلی مچادی ہے ۔حریت نوجوانوں کے جنازوں پرہزاروں کشمیریوں کی شرکت اور وہاں AK-47سے فائرنگ کرکے ان مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرنا کشمیریوں کی تحریک آزادی کو ایک نیا موڑ دے رہی ہے ۔جریدہ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مودی حکومت کا کشمیریوں سے رویہ انہیں مجبور کرتاہے کہ وہ بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد کو تیز کریں ۔2011ء میں پلوامہ میں ہونے والی جھڑپ کے دوران مقامی لوگوں نے بھارتی فوج پر اینٹیں برسائیں اور حریت پسندوں کو بھارتی فوج کے حصار میں سے نکلنے کی مدد فراہم کی ۔گذشتہ اکتوبر میں لشکر طیبہ کے کمانڈر کی شہادت کے بعد ا ن کے جنازے پر کشمیریوں کاٹھاٹھیں مارتاسمندراور پھر رواں برس حزب المجاہدین کے شارق احمد کے جنازے میں 25,000کشمیریوں کی شرکت نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی راتوں کی نیند اڑاکررکھ دی ہے ۔اس وقت ہر طر ح کے کشمیریوں کی مددوحمایت کشمیر ی حریت پسندوں کے ساتھ ہے ۔
امریکی جریدہ اس حوالے سے لکھتا ہے کہ کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم نے واضح کیا ہے کہ ہم آخری منزل کو حاصل کرنے کے لئے بندوق کا استعمال بھی کرسکتے ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں آزادی کی خاطر بندوق اٹھانا کوئی جرم نہیں ہے ۔کشمیر میں 2008,2009اور 2010میں سویلین احتجاج اہم موڑ ثابت ہوئے ۔ ان پر امن مظاہروں میں سینکڑوں نوجوانوں کی شہادت نے کشمیریوں کی بھارت سے نفرت میں اضافہ کردیا ۔پڑھے لکھے کشمیری نوجوان آج سوشل میڈیا کا پہلے کی نسبت بہتر اور موثر استعمال کررہے ہیں جس کی مثال برہان مظفر وانی ہیں جو اپنے اکاؤنٹ پر کشمیر کے حالات اور ویڈیو پیغامات اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں ۔امریکی میگزین فارن پالیسی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اگر بھارت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو بہت جلد کشمیر اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔
امریکی میگزین میں چھپنے والا یہ آرٹیکل بتاتا ہے کہ کشمیری حریت پسندوں نے بھارتی سورماؤں کی راتوں کی نیندیں حرام کردیں ہیں ۔ مقبوضہ جموں وکشمیر بھارت کے لئے وہ ہڈی بن چکا ہے جس کو نہ نگل سکتاہے اور نہ تھوک سکتا ہے ۔اگر نگلنے کی کوشش کرتاہے تو کشمیری وہ مار مارتے ہیں کہ اس مار کی درد دہلی و بمبئی کے درباروں تک محسوس ہوتی ہے اور اگر تھوکتا ہے تو بھارت میں دوسری آزادی پسند تنظیموں کے حوصلے مزید بلند ہونگے خصوصاََخالصتان تحریک کے ۔موجودہ صورت حال میں سب سے اہم کردار پاکستانی حکومت کا ہے ،کشمیریوں نے اپنا حق اداکردیا ہے کیونکہ وہ جس جگہ بھی اکٹھے ہوتے ہیں ’پاکستان سے رشتہ کیا ،لاالہ الااللہ ‘ کا نعرہ لازمی لگاتے ہیں ۔ اب پاکستان کا حق بنتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو اس بات پر مجبورکرے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرے ۔
تحریر: محمد عتیق الرحمن