تحریر : رانا اعجاز حسین
امریکی ری پبلکن پارٹی کی جانب سے آئندہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں ایک انٹرنیشنل نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے’ پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کی اور کہا کہ میرے صدر بنتے ہی ڈاکٹر شکیل آفریدی امریکہ میں ہونگے’ پاکستان نے ہم سے بہت فائدے اٹھائے ‘ دوسروں کی طرح وہ بھی بدلے میں کچھ نہیں کرتا ‘اس روایت اور رجحان کو ختم کرینگے ‘میرے دور میں عزت کے بدلے عزت فائدے کے بدلے فائدے کے اصولوں پر کام ہوگا۔ پاکستان کے نیوکلیائی ہتھیاروں کی وجہ سے میں افغانستان میں دس ہزار امریکی فوجیوں کو مستقل طور پر تعینات رکھوں گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کا نوٹس باقاعدہ حکومت پاکستان کی طرف سے لیا جانا چاہیے تھا۔
پارلیمنٹ میں بھی اس پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ صرف وزیر داخلہ کی طرف سے امریکہ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے مگر اسے حکومت کی طرف سے آفیشل ردعمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے شکیل آفریدی کی قسمت کا فیصلہ پاکستان کی حکومت اور عدالتیں کریں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بھی بن جائیں تو یہ فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں۔شکیل آفریدی پاکستانی شہری ہے اور اسکے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا کسی اور کو حق حاصل نہیں۔ صرف شکیل آفریدی کی رہائی کے معاملہ پر ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بارے میں انکے تاثرات اور موقف انتہائی غلط ہیں، انہیں خود مختار ملکوں کے حوالے سے عزت و وقار کے ساتھ بات کرنی سیکھنی چاہئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ تاریخ سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں، انہیں یاد ہونا چاہئے پاکستان نے برسوں سے امریکہ کی پالیسیوں کا ساتھ دینے اور اسکے ساتھ تعاون کرنے کی بھاری قیمت چکائی ہے اور جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں اور بدلے میں امریکہ نے ہمیں جو ”مونگ پھلیاں” دی ہیں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خارجہ پالیسی کے گمراہ کن وڑن کے تناظر میں ہمیں دھمکانے کیلئے استعمال نہیں کرنی چاہئیں۔ شاید ان ہی حالات کے پیش نظر امریکی صدر اوباما اور دیگر ڈیموکریٹ رہنماؤں کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کو خبطی اور حواس باختہ شخص قرار دیا جاتا ہے۔
تعجب ہے کہ امریکہ کے سب سے بڑے عہدے کے حصول کی دوڑ میں ایسا شخص بھی شامل ہو سکتا ہے جو کبھی امریکہ سے مسلمانوں کو نکالنے کی بات کرتا ہے’ کبھی شکیل آفریدی جیسے سزا یافتہ شخص کو پاکستان سے بزور رہا کرانے کے ارادے کا اظہار کرتا ہے۔ بعید نہیں کہ وہ امریکہ کا صدر بھی منتخب ہو جائے۔ ایسا ہوا تو دنیا مزید عدم استحکام سے دوچار ہوجائیگی۔ پاکستان کے حوالے سے مخاصمانہ رویے کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ہی نہیں’ بش اور اوباما انتظامیہ کی طرف سے بھی ہوتا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکی کانگرس نے ایف 16طیاروں کی خریداری کیلئے پاکستان کی امداد روکے جانے کے بعد، ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کیلئے دباؤ ڈالنے کی غرض سے پاکستان کی امداد میں مزید کمی پر غور شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس نے حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کیلئے دباؤ بڑھانے کیلئے’ پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی خریداری کیلئے دی جانیوالی 43 کروڑ ڈالر کی امداد روک لی تھی۔ اب ری پبلکن اور ڈیموکریٹک قانون سازوں کے ایک گروپ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کیلئے پاکستان کی امداد روکے جانے کے حوالے سے نئے اقدامات پر غور شروع کردیا ہے۔
شکیل آفریدی کے معاملے پر امریکہ کئی بار پاکستان سے ناراضی کا اظہار کرچکا ہے۔ جنوری 2014 میں امریکی صدر بارک اوباما نے ایک بِل پر دستخط کیے تھے، جس میں شکیل آفریدی کی سزا کے باعث، پاکستان کو 3 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی امداد روکے جانے کی تجویز دی گئی تھی۔ اسی سال مئی میں امریکی ایوان نمائندگان نے شکیل آفریدی کی رہائی تک پاکستان کی فوجی امداد روکے جانے کے حوالے سے ایک بل کی منظوری دی۔ اسکے بعد سے کانگریس میں جب بھی پاکستان کیلئے بجٹ تجاویز پر بحث ہوتی ہے، تو امریکی قانون ساز یہ معاملہ ضرور اٹھاتے ہیں جبکہ کانگریس کی جانب سے پاکستان کیلئے 3 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی اس امداد کی اب تک منظوری نہیں دی گئی۔ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ایٹمی ملک ہے گو متعدد عاقبت نااندیش حکمرانوں نے اپنی بزدلی اور لالچ کے باعث امریکہ کے آگے ملک کو گروی رکھ دیا جس کے باعث پاکستان کی معیشت انحطاط پذیر ہوئی’ 100 ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا’ 60 ہزار پاکستانی اس جنگ کا ایندھن بن کر موت کی لکیر سے ادھر چلے گئے’ معذور اور بے گھر ہونیوالوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ پاکستان کو یہ سب امریکہ کی دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہراول دستہ بننے کے باعث برداشت کرنا پڑا۔ انسانی جان کی تو کوئی قیمت ہی نہیں ہو سکتی’ پاکستان کو جو مالی نقصان ہوا امریکہ نے تو اسکی بھی تلافی نہیں کی۔
پاکستان کی طرف سے تعاون کو امریکہ قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے’ پاکستان کیخلاف حقارت آمیز رویے کا اظہار’ امداد میں کٹوتی اور ایف سولہ کی عدم فراہمی جیسے اقدامات کرتا آیا ہے جبکہ پاکستان کو اسکی کٹھ پتلی افغان انتظامیہ اور اسکے اسلحہ کا بڑا خریدار اور دفاعی معاملات میں پارٹنر بھارت پاکستان میں دہشتگردی کو ہوا دے رہے ہیں۔ امریکہ ایک جانب تو پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی میں رکاوٹیں حائل کررہا ہے جبکہ دوسری جانب بھارت سے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدے کرکے خطہ کو عدم توازن کا شکار کررہا ہے ۔ پاکستان جس نے امریکہ اتحادی کا کردار ادا کرکے اپنا100 ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر تباہ کردیا ، اور امریکہ ہے کہ پاکستان کے کسی احسان کو تسلیم کرنے کے لئے ہی تیار نہیں ۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ماضی کی کوتاہیوںسے سبق حاصل کرے، اپنی خارجہ پالیسی بہتر کرے اور امریکہ کے صدارتی امیدوار کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پر باقائدہ احتجاج ریکارڈ کروائے ، تاکہ آئندہ پاکستان کی خودمختاری کے خلاف بات کرنے کی کسی کو جرائت نہ ہو۔
تحریر : رانا اعجاز حسین
ای میل ra03009230033@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033