تحریر: فہیم افضل
ہیلری کلنٹن کی شخصیت کے سحر سے امریکی عوام اب لگتا ہے پوری طرح نکل چکے ہیں، جس کا اندازہ حالیہ ہونے والیصدارتی انتخابات کے نتائج سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں ریپبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ نے اکثریت حاصل کر لی ہے اب لوگ اوباما کو گزرا ہوا کل کہہ رہے اور ہیلری کے کارکنان ملک میں مظاہرے کر رہے ہیں ، حالانکہ یہ بات بعید از قیاس ہے، اس سے پہلے سابق صدر بل کلنٹن بھی انہی حالات سے گذر کر دوسری مدت کے لئے صدر منتخب ہو چکے تھے ، اور اس کے علاوہ فی الحال ریپبلکن پارٹی کے اندر سے ایسی شخصیت سامنے آئی ہے جو براک اوبامہ کی ذاتی مقبولیت پر سایہ بادل کی طرح چھا گئی حالیہ انتخابا ت میں ہیلری کلنٹن کی واضح فتح بارے قیاس آرائیاں ہوتی رہیں جبکہ ڈونڈ ٹرمپ نے توقعات کے برعکس ہیلری کو ایک ضخیم اپ سیٹ دیا یعنی امریکہ کی پچاس ریاستوں میں سے چھالیس پر 278 کا سکور ایک غیر معمولی تبدیلی ہے۔
دونوں پارٹیوں کے امیدوار تبدیلی کے دلکش نعرے کے ساتھ میدان میں آئے ٹرمپ اپنی صدراتی مہم کے دوران پاکستانی افواج کے طرف سے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے کی صورت میں امریکی افواج کا بذات خود پاکستان میں آپریشن کا عندیہ دے کر اپنے خیالات کا واضح اظہار کر چکے تھے، مگر پھر بھی چند پاکستانی لیڈروں کو ان سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، حیرت انگیز طور پر اپنی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ بیرونی ممالک میں امریکہ سے زیادہ نہ مقبول تھے پھر بھی نتائج حیران کن نکلے ۔ پاکستان کے بارے میں پہلے یہ تبدیلی آچکی ہے کہ پہلی دفعہ کوئی امریکی صدر ہندوستان توگیا لیکن پاکستان جو کہ خطہ کا اہم ملک ہے اور نیٹو ممالک کے بعد امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی ہے کا دروہ نہیں کیا۔
اس سے پہلے سابق صدر بل کلنٹن کے دور میں بدترین حالات میں جب ملک میں مارشل لا تھا اور جمہوری حکومت ختم کر کے پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو بنے ہوئے تھے، تب بھی صدر کی جانب سے دونوں ممالک کا دورہ کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس وقت خیال کیا جا رہا تھا کہ مارشل لاء کی وجہ سے امریکی صدر پاکستان کا دورہ شائد نہیں کرِیں گے۔ ویسے تو ڈیموکریٹ پارٹی ہمیشہ سے پاکستان کی نسبت ہندوستان کے زیادہ قریب تصور کی جاتی ہے، لیکن ان حالات میں جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم اتحادی، جسے سب سے زیادہ ڈو مور کا الاپ سنایا جاتا ہے کا دورہ نہ کرنا کیا مثبت تبدیلی ہے؟ کیونکہ تبدیلی مثبت اور منفی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے اور پاکستان کے حوالے سے حالیہ تبدیلی مثبت بالکل بھی نہیں ہے۔
حالانکہ پاکستان کو یہ کہہ کر تسلی دی جا تی رہی کہ اگلے سال ملیں گے اور تب ہندوستان نہیں جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان سے اس طرح قطع نظر کرنا حکومت پاکستان کی کوتاہی تھی یا امریکہ کی ہٹ دھرمی؟کسی نے شاعر نے کہا تھا ”ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے” یہ کیسا اندھیر تھا جس کا اخیر ہی نہیں ہو رہا تھا۔ جس امت کا منشور ہی برائی کو روکنا ٹھہرایا گیا تھا، ہاتھ سے زبان سے وہ امت تماش بین بن گئی۔ اور جو قومیں ظلم ہوتا دیکھ کر تماش بین بن جاتی ہیں اں کی بربادی کا تماشہ دنیا دیکھتی ہے۔
اتنی بے حسی کہ سیالکوٹ میں دو نوجوانوں کو سرعام قتل کر دیا گیا اور کوئی روکنے والا موجود نہیں، سب تماشا دیکھنے والے۔ جس دین نے دشمنوں کی لاشوں کو بھی حرمت بخشی اس کے پیرو اپنے ہی امت کے لوگوں کی میتوں کو سربازار رسوا کرنے لگ گئے ۔ جو مثالیں تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی دیں کہ اگر ایک کتا بھی بھوک سے مر جائے تو عمر اس کا جوابدہ ہے، وہ دو انسانوں کی بے بسی کا تماشا دیکھنے لگیں۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا؟ ایسے ہی حالات کے بارے میں قانون قدرت ہے کہ ایسی قوموں پر کسی دوسرے گروہ کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔بٹر کے مکینو، کیا ایک بھی خدا خوفی رکھنے والا تم میں موجود نہیں رہا؟ ایسا ظلم کمایا ہے تم لوگوں نے کہ تمہاری پوری بستی بھی اجڑ جائے تو غم نہیں۔ وحشت اور بربریت کا ایسا الم ناک مظاہرہ کہ وحشی بھی لرز اٹھیں، انسان اتنا بے رحم کیسے ہو سکتا ہے۔
سندھ میں مقیم ایک ہندو واقف کار نے مجھ سے سوال کیا ”کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت پنجاب کے رہنے والے ہندوستان کے زیادہ مخالف ہیں؟” میں نے اسکا جواب دیا کہ شائد پنجاب والوں نے تقسیم کے دوران سب سے زیادہ فسادات کا سامنا کیا تھا، اور میرے دادا کی نسل تک کے افراد نے اپنی آنکھوں سے اجڑے ہوئے خاندان دیکھے تھے۔ جس کا ردعمل ناگزیر تھا۔ پھر ہمارے ملک کی ”باشعور” جماعت کے ادنی کارکن کے انہی اہل پنجاب کی طرف اشارہ کر کے ” جو لوگ سوئے تو ہندوستان کا حصہ تھے اور جاگے تو پاکستان کا حصہ، انہیں پاکستان کا مطلب کیا معلوم؟” جیسے سنہرے ارشاد پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا۔
لیکن اس ”باشعور طبقہ” کے افراد بے سروپا باتوں کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اور مجبور کرتے ہیں کہ ان کی تاریخ ان کے منہ پر دے ماری جائے۔ اب یہ حضور تبصرہ فرماتے ہوئے ”باشعور قوم” کے اس فرد نیمیری گفتگو پر تبصرہ کیا ہے، اسے ایک کلاسیکی تبصرہ کا درجہ حاصل ہے۔ جس تبصرے کا آغاز تحریر کو متعصب قرار دینے سے ہوا، اْسکا پیٹ صرف تعصب ہی سے بھرا گیا ہے اور اختتام اس بات پر کہ میرا تو کسی تنظیم سے تعلق نہیں بلکہ ہم تو حق کو حق کہنے والے ہیں، اسی موقع کی مناسبت سے پنجابی میں محاورہ ہے ”رووے یاراں نوں لے لے ناں بھرواں دے”۔ تو میرے باشعور قوم کے فرد جب آپ کے اجداد درختوں میں اْلٹا لٹک کر رات بسر کیا کرتے تھے، اس وقت ہمارے ہاں کئی تہذبیں جنم لے چکی تھیں جنہیں آپ گندھارا، ہڑپہ اور موہنجو دڑو کے نام سے شائد پہنچانتے ہوں گے۔
جب آپ کے اجداد کو قبیلہ کی ”ق” کا بھی علم نہیں تھا ہمارے ہاں شہر بسائے جا رہے تھے جسے آپ دریائے سندھ کی تہذیب کے نام سے شائد جانتے ہوں۔ لیکن شائد آپ کے علم کی وسعت یہاں تک پہنچنے سے قاصر ہو، یا حقیقت میں ان زمانوں تک جاتے وقت آپ کی نسل ہی کہیں بیچ میں روپوش ہو جاتی ہو، کیونکہ اس وقت تک آپ کے اجداد لکھنے سے بھی قاصر تھے۔ تو جس شعور کی باتیں آپ کر رہے ہیں وہ آپ کے آباء نے ہمارے آباء سے مستعار لیا ہے۔
اب دیکھیں نہ جس زبان پر آپ اتنا فخر کرتے ہیں، اس کا آغاز بھی انہیں علاقوں سے ہوا جہاں پنجابی بولی جاتی تھی، کہنے والے تو آپ کی زبان کو جدید پنجابی بھی کہتے ہیں۔ اب اس باشعور قوم کے بارے میں میں کیا عرض کروں جس کو نہ صرف پاکستان کا تصور ”جاہل قوم” کے فرد نے دیا بلکہ نام اور قومی ترانہ تک اسی ”جاہل قوم” کے افراد نے دیا۔
آپ کے اجداد کا الم ناک باب جو ہجرت کے نام منسوب ہے اور جسے آپ کسی موقع پر استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے، تاریخ انہیں پنجاب کے فسادات کے نام سے جانتی ہے، اور جن20 لاکھ کا رونا آپ روتے ہیں ان کی اکثریت پنجابی تھی، جو اپنا سب کچھ لٹا کر یہاں آ گئے تھے۔ ان میں سے کسی کا ماموں، پھوپھی، تائی اور نانی وہاں موجود نہیں ہے۔ آپ کے اجداد چونکہ باشعور تھے اس لئے آدھے خاندان وہاں اور باقی جہازوں اور ریل پر بیٹھ کر یہاں بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے مطلب کلیم حاصل کرنے اس غرض سے یہاں آئے تھے کہ بعد میں سب کچھ دوبارہ ٹھیک ہو جائے گا۔ اسی وجہ سے آپ کی باشعور جماعت کا ایک مشن ”کھوکھرا پار” کھلوانا ہے تاکہ عزیزوں سے رابطہ بحال ہو جائے۔ جن کو آپ مشورہ نما طعنہ ”احسان مانو انکا کے انہوں نے تمہیں گھر بیٹھے ہی آزادی دلوادی” دے رہے ہیں، وہ سب تو اپنا سب کچھ لٹا کر یہاں آئے تھے، پورے پورے خاندان میں ایک آدمی یہاں تک پہنچ پایا تھا۔ آپ یا آپ کے اجداد نے ان پر کونسا احسان عظیم کیا ہے۔
اولیاء ا کرام سے عقیدت برصیغر میں بسنے والے مسلمانوں میں رچی بسی ہے، اسی عقیدت کی بدولت تقریباً ہر علاقہ میں صوفیاء کے مزار اور خانقاہیں مل جاتی ہیں۔ اجمیر شریف سے لے کر بھٹ شاہ تک لوگ ان صوفیاء کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔ اسی عوامی پذیرائی کی بدولت ہمارے ایک ”بھائی” کو بھی پیر بننے کا شوق چرایا تھا اور ایک ہسپتال میں دوران علاج پتوں پر معجزاتی طور پر ان کے نقوش ابھر آئے تھے وہ علیحدہ بات ہے کہ ڈبہ پیروں کی طرح بعد میں انہیں علاقہ سے فرار ہونا پڑا، بہرحال یہ لطیفہ نہیں حقیقت ہے۔
لاہور نے مغلوں سے لے کر رنجیت سنگھ تک مختلف ادوار میں کئی شاہی دربار دیکھے ہیں، لیکن جو مقام لاہور میں داتا دربار کو حاصل ہے، باقی دربار اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکے۔ اسی داتا دربار میں بد بختوں نے کتنے ہی معصوم لوگوں کی جان لے لی۔ اس سے بڑا بھیانک مذاق کیا ہو گا کہ جس شخص کی تعلیمات امن کا درس دیتی ہوں وہاں بربریت کی انتہا کر دی جائے۔ لیکن ٹھہرئے، سوالات تو ذہن میں بہت سے اٹھتے ہیں ،لیکن سب سے اہم سوال یہ کون لوگ ہیں؟ کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ دراصل دو عدد ”قوموں” کے درمیان یہ تخریب کار چھپے ہیں، جبکہ قرائن بتاتے ہیں کہ یہ بلا تخصیص علاقہ کراچی سے خیبر تک موجود ہیں، اور ایک نظریہ پر متفق ہیں۔ دوسروں کو پکا سچا مسلمان بنانے کا نظریہ، ان کے نظریے ہیں شائد خود مسلمان بننا شامل نہیں کیونکہ اس طریقہ سے جنت کمانے کے لئے کافی محنت کی ضرورت ہے۔
مسلمان بننے کے لئے حقوق العباد کو ادا کرنا مقدم جبکہ دوسروں کو مسلمان بنانے کے لئے صرف ایک خود کش جیکٹ کی ضرورت ہے۔ شارٹ کٹ سے متاثرہ قوم میں جنت کے شارٹ کٹ کے طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔حالات چاہے جو بھی یہ مسلم ہے کہ قوم اگر متحد نہ ہوئی اور باشعور طبقہ اپنا گیان منہ میں لئے بیٹھا رہا تو ملک کو لوٹنے والے حکمران تو آتے ہی رہیں گے نظریہ ضرورت تبدیلی ہے جس کیلئے ہمیں کوشش کرنا ہو گی رہی بات امریکہ کی تو دیکھئے امریکی مفادات کے حق ٹرمپ سرکار کیا کر گزرتی ہے اسی بات سے خلیجی ممالک سخت پریشان ہیں جبکہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر اس کامیابی سے ایک لرزہ طاری ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسیوں میں کیا تبدیلیاں رونما ہو گی ایک پہلا جھٹکا تو امریکہ کو لگ ہی گیا ہے کہ امریکہ کی مستحکم سٹاک مارکیٹ اگلے ہی روز کرش ہو گئی جو اس امر کی دلیل ہے کہ دنیا امریکی عوام کے اس فیصلے سے ناخوش ہے۔