تحریر : عبدالرزاق
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کو اپنی نیو کلیر پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے جان کیری نے مذید کہا کہ اس ضمن میں ان کی پاکستانی حکام سے بات چیت بھی ہوئی ہے اور میں نے پاکستان کو اپنی پالیسی میں میانہ روی اختیار کرنے کا کہا ہے۔جان کیری نے اس بات کا عندیہ ظاہر کیا کہ آئندہ ماہ صدر اوبامہ کی زیر صدارت ہونے والی نیو کلیر سیکیورٹی سربراہی کانفرنس کے موقع پر نواز شریف سے اس موضوع پر بات چیت کی جائے گی۔اگرچہ اس بیان کے رد عمل میں سرتاج عزیز نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کا نیو کلیر پروگرام ملکی دفاع کے لیے ہے اور امریکہ کے اس حوالے سے خدشات بے بنیاد ہیں تاہم سرتاج عزیز کی اس وضاحت کے باوجود وطن عزیز کے غیور عوام اس بات پر متفکر اور نالاں ہیں کہ آخر کیوں ہم اس قدر امریکی تسلط کا شکار ہیں کہ امریکہ موقع بہ موقع ہمارے داخلی امور میں مداخلت کا ناپسندیدہ فعل دہراتا رہتا ہے اور قومی غیرت کو چیلنج کرتا رہتا ہے۔
اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ امریکی سرکاری عہدے دار کھلم کھلا اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ کو بخوبی معلوم ہے کہ پاکستان معاشی اور اقتصادی حوالے سے امریکہ کا محتاج ہے اور اب تو یہ حقیقت پوری دنیا پر آشکار ہو چکی ہے ۔ بد قسمتی سے قیام پاکستان کے فوری بعد ہی پاکستان نے امریکی بلاک جوائن کر لیا اور سیٹو و سینٹو کا حصہ بن گیااور بعد ازاں فوجی آمروں کے پاکستان پر تخت نشین ہونے کی وجہ سے پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت کو بام عروج نصیب ہواکیونکہ ان آمروں کی حکومت غیر نمائندہ تھی اور اس کو عوامی تائید کی مہر تصدیق میسر نہ تھی۔
لہٰذا انہیں عالمی سطح پر اپنی حکومت کی شناخت کروانے کے لیے عالمی طاقتوں کی سر پرستی کی اشد ضرورت تھی اور یہی سبب بنا جب نائن الیون کا سانحہ رونما ہونے کے بعد امریکی صدر نے اس وقت کے آمر حکمران پرویز مشرف کو کال کر کے اپنے مطالبات کی فہرست پیش کی تو مشرف نے بے چون و چراں اس کا ہر مطالبہ مان لیا اور یوں پاکستان کے داخلی امور میں امریکی مداخلت کے عمل میں شدت سے اضافہ ہوااور بعد ازاں جب پرویز مشرف مسند اقتدار سے فارغ ہوے تو عوام پر امید تھی کہ 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت اقتدار کے افق پر نمودار ہو گی پرویز مشرف کی پالیسیوں کو رد کر دے گی اور ایک ایسی پالیسی وضع کرے گی جس سے امریکی مداخلت کا یہ سلسلہ رک جائے گا اور ایک خود مختار،خوددار اور خود کفیل پاکستان کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔
لیکن جب 2008 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بر سر اقتدار آئی تو اس حکومت نے مشرف سے بھی دو ہاتھ آگے نکل کر اپنے آپ کو امریکی سرپرستی میں دے دیا تب تو یوں محسوس ہونے لگا جیسے پاکستان کے ہوائی اڈے، بندر گاہیں، سمندر، دریا حتیٰ کہ ہوائیں اور فضائیں بھی امریکی تسلط میں ہیں۔ امریکہ پاکستان میں جہاں چاہتا بم گراتا کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔امریکی مداخلت کی اس وقت انتہا دیکھنے کو ملی جب سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستانی حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردو بدل پر بھی بیان داغ دیا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔البتہ پاکستان کے داخلی امور میں مداخلت کے پس منظر میں ایک بات خوش آئند ہے وہ یہ کہ پاکستانی عوام کا ایک غالب طبقہ امریکی بالادستی کا مخالف ہے اور اس عمل کو ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھتا ہے اور اس ضمن میں پاکستانی حکمرانوں کے طرز عمل کو بھی مناسب نہیں سمجھتا۔
صاحبو کڑوا سچ تو یہ ہے کہ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے اور ہمہ وقت امریکی امداد کا خواہاں اور طلبگار۔ جب پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے جو امریکی اشاروں پر ناچتے ہیں تو لازم ہے کہ پاکستان کو بشمول امریکہ ان مالیاتی اداروں کی شرائط کے رو برو سر تسلیم خم کرنا پڑے گا اور جہاں تک تعلق ہے امریکی مداخلت سے نجات پانے کی خواہش کا، تو جب تک ہم باہمی یک جہتی،ملکی استحکام اور معاشی و اقتصادی راہوں پر گامزن نہیں ہوں گے تو امریکی تسلط کا یہ سلسلہ یونہی جاری و ساری رہے گا۔حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ کفایت شعاری کو اپنا شعار بنائے۔ٹیکس نظام میں مثبت اصلاحات متعارف کروا کر اس نظام کو جدید خطوط پر استوار کرے ۔بدعنوانی، رشوت ستانی اور قرضوں کے حصول کی فراوانی پر قابو پائے تاکہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے۔
پاکستان معاشی اور اقتصادی حوالے سے مضبوط اور مستحکم ہو تا کہ پاکستان جو اک مدت سے امریکہ کے زیر دست ہے اس سے نجات کا کوئی وسیلہ بن پائے اور ملک کو خود کفالت کی چھتری نصیب ہو ۔کس قدر تکلیف دہ بات ہے کہ امریکی مداخلت کا دائرہ کار وسیع ہو کر ہماری تہذیب و ثقافت تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔
امریکہ جب چاہتا ہے ہمارے اسلامی عقائد پر تنقید کرنا شروع کر دیتا ہے اور ہماری ثقافتی اقدار کو بھی داغدار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتاجس سے پاکستان میں شدت پسندی کی لہر جنم لیتی ہے جو پاکستان کے امن وسکون کو غارت کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ان تمام عوامل کی موجودگی نے ہمارے سماجی ڈھانچہ کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ لہٰذا اب سیاستدانوں کا فرض ہے کہ وہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر وسیع تر ملکی مفاد میں یکسو ہو کر پاکستان کی فلاح و بہبود کے ایجنڈے پر کام کریں۔
یاد رہے جب آپ کشکول اٹھا کر امریکہ کے سامنے جائیں گے اور کبھی اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی سنجیدہ کوشش نہیں کریں گے تو پھر قومی رسوائی تو یقینی ہے۔جب قومی آمدنی کا نصف سے بھی زیادہ حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جائے تو معاشی اور اقتصادی ترقی کیسے ممکن ہے اور اس صورتحال میں آپ کیسے امریکہ اور آئی ایم ایف کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔جب تک آپ کی سوچ اور طرز حکمرانی میں تبدیلی نہیں آتی امریکی بالادستی سے نجات دیوانے کے خواب کے مترادف ہے اور جان کیری ایسے امریکی عہدے دار ایسے بیانات دیتے رہیں گے۔
ملکی غیرت کا تقاضا ہے کہ آپ ملک کے وسیع تر مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوے ایسے اقدامات کریں جس سے نہ صرف ملک ترقی و خوشحالی کی راہوں پر گامزن ہوبلکہ قومی غیرت پر بھی کوئی آنچ نہ آئے۔
تحریر : عبدالرزاق
03360060895