تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
سپریم کورٹ سے ضمانت کروا کر بھگوڑا ہو جانے والا حسین حقانی جس نے سابقہ دور میں ملک دشمنی کی انتہا کر ڈالی تھی اب اعلیٰ رہائش اور عیش پر ستانہ زند گی گزار رہا ہے مگر ملک کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے اب بھی یہ غدار وطن ہمہ وقت تیار رہتا ہے سابقہ وزیر دفاع احمد مختارجسے پی پی نے گجرات میںچوہدریوں کا زور توڑنے کے لیے ہمیشہ پرموٹ کیا تھا۔اب انہوں نے ملک دشمن چینل کو انٹرویو میںالٹی ہی گنگا بہا ڈالی ہے اورا ن کے اصل کرتا دھرتا زرداری پہلے ہی فوج کے خلاف اعلان جنگ کرکے باہر بھاگ گئے ہیں اور اپنے سبھی عزیز و اقارب اور خاص دوست احباب کو بھی باہر برآمد کرو اڈالا ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پی پی پی کے اعلیٰ راہنمایان حکومتی دولت اور خزانے لوٹ کر باہر پہنچا چکے ہیں۔
سیاسی طور پر اس اندھے کنوئیں میں گر چکے ہیں۔ جہاں سے کوئی تدبیر و تعویزان کو باہر نہیں نکال سکتا اسی لیے پی پی پی کے راہنما اور ہمجولی زخمی کچلی گئی سپنی کا کرادر ادا کر رہے ہیں۔ ان کا ہر عمل اور بیان ملک دشمنی پر ہی منتج ہو رہا ہے ۔ 1971میں بھارتی افواج کے ڈھاکہ پر قابض ہونے کی خبریں سن کر اس وقت گھنٹہ گھر ملتان کے قریب ایک نیم زمین دوز ہوٹل میں خوشی کے مارے ملتانی پیپلیوںکا شرابی کنجری ڈانس لو گ کبھی نہیں بھول سکتے۔ یہ ان کا اس بات پر خوشی کا جھومر تھا کہ اب اقتدار ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے۔وزیر اعظم اور آرمی چیف کے امریکی دوروں کے شیڈولڈ پروگراموں سے قبل اسامہ بن لادن کے بارے میں امریکی موقف کی سراسر حمایت اور پاکستانی خارجہ امور کی پالیسیوں کے بالکل برعکس پی پی راہنمائوں کا ملک دشمن ایجنسیوں کے ذریعے بیان داغ ڈالنا گہری سازش کا نتیجہ ہی لگتا ہے۔
عوام بخوبی جانتے ہیں کہ ان کا اس وقت ایسا پنڈوراباکس کھولنا قطعاً ملک کی بھلائی کے لیے نہ ہے ۔اسی طرح پہلے بھی حسین حقانی جیسے وطن دشمن کو زرداری کے دور میں صدارتی محل میں رکھ کر تحفظ دیا گیا تھااور اسے ضمانت دلوا کر باہر بجھوادیا گیا جہاں سے اس نے نہ کبھی آنا تھا اور نہ آیا۔اسی طرح کے بیانات واجد شمس الحسن بھی سے دے رہا ہے تاکہ سامراجی غلامی کے مہرہ کے طور پر ان کا کردارصیہونی کارپردازوں کو مزید ممد و معاون محسوس ہو۔ پہلے ہی بطور سفیران کو پوری دنیا کے ٹی وی چینلز زرداری صاحب کی کرپشن کے ثبوتوں والی فائلیں چوری کرکے گم کرتے ہوئے دکھا چکے ہیں۔شریف برداران ظاہراً اور زبانی کلامی تو اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں مگر وہ اور دیگر ن لیگی وزراء دلوں پرسیا ہ دھبہ رکھتے ہیں ۔کہ انکے اقتدار پر مکمل کنٹرول کی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی جب کہ اسی طرح کی ایک ناکام کوشش شریفوں نے اپنے سابقہ اقتدار میں بھی کی تھی ۔جس کے بعد انھیںگڑ گڑا کر معافیاں مانگتے اور ایڑیاں رگڑتے ہوئے اپنا بوریا بستر باندھ کر جدہ بھاگنا پڑا تھا۔
مشرف کی ناجائز داشتہ اس کے سائے میں جوان ہونے والی ق لیگ سیاسی طور پر زندہ درگور ہو چکی ہے اور اسی ڈکٹیٹر کے گن گانے والی اور اس کا مکمل عرصہ اقتدار انجوائے کرنیوالی،اور اپنے قتل و غارت گری و اغواء برائے تاوان و بوری بند لاشوں کے تحفے بجھوانے والے سنگین مقدمات یک قلم ختم کروانے والی ایم کیو ایم اوراسکے راہنماافواج سمیت سبھی کو “تڑیاں ” لگاتے رہتے ہیں ۔کہ وہ اسی میں اپنی مقبولیت سمجھتے ہیں مگر پاکستانی عوام انھیں بیرون ملک کی قوتوں کا ایک مہرہ سمجھتے ہیں جوکراچی علیحدگی تحریک کے ذریعے پاکستان کے پہلے سے لہو لوہان سینے میں خنجر گھونپ ڈالنا چاہتے ہیں۔ زرداری صاحب یہ کہ کر کہ ہمیں مت چھیڑو وگرنہ ہم پاکستان سے لے کر اب تک کے جرنیلوں کا کردار آشکار کرڈالیں گے اوران کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالیں گے۔ پی پی جس کا ضیاء الحق کچھ نہ بگاڑ سکا اسے زرداری سب پر بھاری نے اکیلے ہی اپنے کوہ ہمالائی بھار کے نیچے دبا کر کچل ہی ڈالا ہے۔
کٹھ ملائیت کے فرقہ پرست افراد بھی بیرونی قوتوں سے مال لے کرفرقہ پرستانہ تحریکیں تو چلا ہی رہے ہیں ۔مگر مرتدین ، زندیقین اور ختم نبوت کے منکرین قادیانیوں کا رول ہمیشہ اسلام و پاکستان دشمنانہ رہا ہے۔وہ بھی آرمی کے اہم عہدوں پر فائز ہو کر خفیہ ڈوریاں ہلا رہے ہیں۔شریف برادران جوپاک و طن کی اقتداری کشتی کے مالک و ملاح ہیںانھیں اندرونی اور خارجہ امور پر خصوصی توجہ دینا ہو گی اب امریکی دورہ پر جاتے ہوئے رشتہ داروں ،ذاتی دوستوں اور سود خور کاروباری سرمایہ پرستوں کو قطعاً ساتھ لے کر نہیں جانا چاہیے ۔ہمیں افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور ہندو بنئیوں کی کھلم کھلا مسلمان اور سکھ اقلیتوں کے خلاف نفرت اور ہمارے بارڈر پر شیطانی چھیڑ چھاڑ پر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔اس کے لیے خارجہ امور کے ماہرہین ہی بیرونی مقتدر قوتوں کو قائل کرسکیں گے۔ اسطرح افغانستان اسرائیل اور انڈیا کی مثلث بھی ختم ہوگی اور”ہر ملک ِ مااست کہ ملکِ خدائے مااست”کی طرح افغان مسلم بھائیوں سے بہتر تعلق استوار کرنا ہوں گے۔
وہاں سے امریکی افواج بوریا بستر لپیٹ کر جب جائیں گی تو اس پر جو سر پھٹول ہو گا اس میں پاکستان کا کرادر مشفقانہ و قائدانہ ہو نا چاہیے تاکہ ہمسایہ مسلمان ملک میں مزید بگاڑ پیدا نہ ہو ہندی خوانخوار بلی کی نظر بد سے بھی یہ بچا رہے ہماری ڈپلومیٹک و خارجہ پالیسی کے تحت پاور بیلنس میں ہم نے موثر کردار ادا کرنا ہے ۔خواہ موجودہ حکمران رہیں یاوہاں کے طالبان دوبارہ اقتدار میں آئیں ہمارا رول ان سبھی کے ساتھ ایک درد دل رکھنے والے بڑے بھائی کا ہو نا چاہیے تاکہ ملک مزید قتل و غارت گری سے بچ جائے اور “افغان باقی کو ہسار باقی”کفراپنے ہمہ قسم سامراجی و کافرانہ کرداروں سے وہیں مدفون ہو جائے رہے گا نام اللہ کا۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری