واشنگٹن: امریکی سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے داعش سے نمٹنے کے لیے وائٹ ہاؤس کے نئے پلان کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عسکریت پسند تنظیم کو شکست دینے کے اس منصوبے میں فوجی اور غیر فوجی دونوں طریقے استعمال کیے جائیں گے۔پینٹاگون حکام کا کہنا تھا کہ یہ پلان ایران اور شام سے آگے جاچکا ہے جبکہ افغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈر نے خبردار کیا کہ پاک-افغان خطے میں بھی داعش کی واضح موجودگی ہے۔امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق داعش کے خلاف نیا پلان اوباما انتظامیہ کی حکمت عملی کا نیا ورژن ہوگا جس میں عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے مقامی فورسز کو استعمال کیا جائے گا جبکہ اس پلان میں زیادہ امریکی فوجیوں کو استعمال کیا جائے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے اس نئے منصوبے میں دہشت گرد گروہ کی فنڈنگ کے ذرائع کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔ایک طرف ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دہشت گردوں کو شکست دینے کے منصوبوں میں توسیع کا اعلان کیا گیا، دوسری طرف افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کے کمانڈر جنرل جان نکولسن کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس کا اتحاد امریکا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ویسٹ پوائنٹ میں امریکی ملٹری اکیڈمی کے ادارے کمبیٹنگ ٹیررازم سینٹر کے ایک اشاعتی اخبار سے بات کرتے ہوئے جنرل نکولسن نے بتایا کہ کس طرح القاعدہ، داعش اور دیگر عسکریت پسند گروہ پاک-افغان خطے میں مشترکہ طور پر فعال ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘القاعدہ طالبان سے جڑی ہوئی ہے، جو ایک باقاعدہ دہشت گرد تنظیم تو نہیں لیکن ایک پرتشدد انتہاپسند تنظیم ضرور ہے اور طالبان حقانی نیٹ ورک، لشکرِ طیبہ اور القاعدہ برصغیر کو معاونت فراہم کررہے ہیں، ان پانچوں تنظیموں نے ایک طرح کا اتحاد قائم کرلیا ہے جس سے مل کر یہ کامیابی سے فعال ہیں’۔امریکی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ داعش، ازبکستان اسلامی تحریک اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بھی ایک کمزور اتحاد قائم کرچکے ہیں، اور ان تںظیموں کا مشترکہ مفاد کے حصول کے لیے متحد ہوجانا ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے۔پینٹاگون حکام کا میڈیا نمائندگان کو بتانا تھا کہ یہ زمینی حقائق اس جامع پلان کا حصہ ہیں جووائٹ ہاؤس میں جمع کروایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: داعش کیخلاف امریکی فوجی دستے بھیجنے کا فیصلہ
سی این بی سی سے بات کرتے ہوئے حکام کا کہنا تھا کہ ‘یہ ایک وسیع پلان ہے، جو دنیا بھر کے لیے، جو صرف عراق اور شام تک محدود نہیں ہوگا’۔ترجمان پینٹاگون نیوی کیپٹن جیف ڈیوس نے نیوز بریفنگ کو بتایا کہ ‘یہ داعش کو تیزی سے شکست دینے کا پلان’ ہے تاہم انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ ابتدائی منصوبہ ہے جس کی تفصیل جاری نہیں کی جاسکتیں ورنہ دشمن خبردار ہوجائے گا۔خیال رہے کہ 2016 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ امریکا کے صدر منتخب ہوجاتے ہیں تو داعش کے خطرے کو شکست دینے کے لیے 30 روزہ نظرثانی پلان کا حکم دیں گے۔عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد 27 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ نے پینٹاگون کا دورہ کیا اورایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے جیمز میٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ 30 دن کے اندر اندر مذکورہ پلان پیش کریں۔
مزید پڑھیں: داعش کے خلاف ایک سال،امریکا کتنا کامیاب ہوا؟
وائٹ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں جیمز میٹس نے قومی سلامتی کونسل کی پرنسپل کمیٹی کے سامنے پلان کی تفصیلات بتائیں، کونسل کی سربراہی نئے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹننٹ جنرل ایچ آر میک ماسٹر کررہے تھے جبکہ وائٹ ہاؤس کے چیف اسٹریٹیجسٹ اسٹیو بینن سمیت ٹرمپ کے کئی سینئر مشیر موجود تھے۔ایک جانب جہاں اوباما انتظامیہ مزید امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے خلاف تھی وہیں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اس بات کا عندیہ دے چکی ہے کہ نئے منصوبے کے تحت دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مزید امریکی فوجیوں کو استعمال کیا جائے گا۔نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ شامی پناہ گزین کے لیے ‘محفوظ زونز’ کے قیام کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد درکار ہوگی، تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ سیکریٹری دفاع جیمز میٹس کے پلان میں بھی ایسا کرنے شامل ہے یا نہیں۔