واشنگٹن ………امریکی عوام کو یقین ہے کہ امریکہ کی بجائے چین دنیا کی نمایاں اقتصادی قوت ہے ۔
یہ بات گذشتہ روز جاری کئے جانے والے ایک گیلپ سروے میں بتائی گئی ہے ۔ تین فروری سے سات فروری تک کئے جانے والے اس سروے کے مطابق 50فیصد امریکی چین کو نمایاں اقتصادی قوت سمجھتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں 37فیصد کا خیال ہے کہ ان کا ملک دنیا میں سر فہرست معیشت ہے۔2000ء میں جب امریکی معیشت پھل پھول رہی تھی ،اسوقت تقریباً دوتہائی امریکی خود اپنے ملک کو نمایاں عالمی معاشی قوت سمجھتے تھے جبکہ 16فیصد جاپان کو دوسری اور 10فیصد چین کو تیسری بڑی اقتصادی قوت سمجھتے تھے تا ہم فروری 2008میں جب امریکہ کساد بازاری کا شکار تھا او ر چینی معیشت قریباً 10فیصدسالانہ کی شرح سے نمو پذیر تھی اس بارے میں پوچھے جانے والے گیلپ میں چین 40فیصد کے ساتھ امریکہ سے آگے نکل گیا جبکہ اسے 35فیصد ووٹ ملے ۔2011تک امریکی بالغوں کی اکثریت کو یقین تھا کہ چین دنیا کی نمبر ایک معیشت ہے ، آیا چین یا امریکہ سب سے بڑی معاشی قوت ہیں پوری طرح صحیح نہیں ہیں ۔امریکی محکمہ تجارت کے اعدادو شمار کے مطابق 2014 میں امریکہ کی سالانہ مجموعی ملکی پیداوار 17348بلین امریکی ڈالر تھی کہ زیر تبصرہ مدت میں چین کے قومی ادارہ شماریا ت کے مطابق جی ڈی پی 63591بلین یوان ( 9740بلین امریکی ڈالر ) تھی ، اگرچہ اب چین کی جی ڈی پی امریکہ کی نصف سے قدرے کم ہے ۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے حال ہی میں خریداری کی قوت کی بنیاد پر چین کو سب سے بڑا قرار دیا ہے ۔دریں اثنا گیلپ میں بتایا گیا ہے کہ زیاد ہ امریکیوں نے پیشگوئی کی ہے کہ امریکہ 20برسوں میں دنیا کی نمایاں اقتصادی قوت بن جائے گا ، 44فیصد کو توقع ہے کہ امریکہ اس وقت تک عالمی نمبر ایک ہو گا جبکہ 34فیصد کا کہنا ہے کہ چین بیس برسوں میں دنیا کا مستقبل کی عالمی نمبر ایک معیشت ہوگی ۔امریکی پندرہ سال قبل جاپان کو زیادہ طاقتور سمجھتے تھے اس وقت اس کی معیشت دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت تھی ،یہ جزیرہ نما ملک حالیہ برسوں میں چین کے مقابلے میں اپنی یہ پوزیشن کھو بیٹھا ہے ۔جبکہ موجودہ صورتحال میں امریکیوں کو یقین ہوگیا کہ چین امریکہ پر سبقت لے گیا ہے ۔