اسلام آباد: سینئر حکام کا کہنا ہے کہ امریکا کی نئی افغان حکمت عملی کے اعلان سے قبل ہی حکومت پاکستان نے اس کے منفی اثرات کا توڑ کرنے کیلیے مختلف آپشنز پر غور شروع کردیا ہے۔
ایک جانب جب ٹرمپ انتظامیہ افغانستان کے لیے کافی عرصے سیزیر بحث افغان حکمت عملی کا اعلان کرنے جارہی ہے تو دوسری جانب پاکستان کو بھی اس بات کا ادراک ہورہا ہے کہ امریکا کی نئی افغان پالیسی کے ضمن میں اس کیلیے بھی صورتحال کافی مشکل ہوسکتی ہے۔ افغانستان کے لیے امریکی حکمت عملی صرف افغانستان تک محدود نہیں ہوگی بلکہ اس کا دائرہ کار جنوبی ایشیائی خطے تک وسیع ہوگا اور پاکستانی حکام اس پالیسی کے حوالے سے کسی مثبت پیشرفت کے لیے پُر امید نہیں ہیں۔
مجوزہ امریکی پلان کے جواب میں تیار کی جانیوالی حکمت عملی سے آگاہ 2 سینئر حکام کا کہنا ہے کہ امریکا کی نئی افغان حکمت عملی کے اعلان سے قبل ہی حکومت پاکستان نے اس کے منفی اثرات کا توڑ کرنے کیلیے مختلف آپشنز پر غور شروع کردیا ہے۔ پاکستانی حکام نے اس بات کا اعتراف کیا کہ واشنگٹن سے آنے والے اشارے بتارہے ہیں کہ آئندہ مہینوں میں پاکستان کے صبر و تحمل اور دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت کا کافی امتحان لیاجائے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف انتہائی سخت اقدامات یا شرائط سامنے آئیں تو پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ چین اور روس سے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرے۔ چین اور پاکستان کے تعلقات تاریخی اور دہائیوں پر محیط ہیں تاہم اس میں مزید مضبوطی اور گرمجوشی اُس وقت دیکھنے میں آئی ہے جب چند سال قبل بیجنگ نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا اعلان کیا اور اُس پر عملدرآمد شروع ہوا۔
دوسری جانب اسلام آباد اور ماسکو کے تعلقات میں بھی سردجنگ کے دور کے خاتمے کے بعد بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ دونوں ملک ماضی کو فراموش کرکے اپنے معاشی اور سیاسی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کیلیے پُرعزم ہیں۔ حکومت پاکستان ے ایک اہلکار نے پاکستانی پالیسی کے بارے میں کچھ بتائے بغیر اتنا ضرور کہا کہ اگر امریکا ہمارے جائز مطالبات اور معاملات کو نہیں سمجھتا اور اپنا جھکاؤ بھارت کی جانب رکھتا ہے تو ہم یقینی طور پر چین اور روس کے مزید قریب ہوجائیں گے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی افغان حکمت عملی کے حوالے سے اپنے مشیروں سے مشاورت جاری ہے۔ گوکہ ابھی نئی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ اس میں پاکستان کے خلاف سخت اقدامات اور اسلام آباد کیلیے کڑی شرائط ہونگی کہ وہ عسکری گروپوں بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں مزید تیز کرے۔ امریکا میں اقتدار کے ایوانوں سے آنے والی خبریں بتارہی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کا ارادہ رکھتی ہے۔
پاکستانی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کے یہ متوقع اقدامات یا پالیسی پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہے۔ایک پاکستانی اہلکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ ہم افغان پالیسی کے حوالے سے واشنگٹن سے کسی مثبت بات کی توقع نہیں کررہے۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں موجود پاکستان مخالف حلقے ٹرمپ کی خارجہ امور میں کم علمی اور ناتجربے کاری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔پاکستان نے بھی نئی افغان پالیسی کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کو اپنی تجاویز دی ہیں اور اس بات پر زور دیا ہے کہ افغان مسئلے کے حل کیلیے طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے۔
ادھر ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافے سمیت بہت سے آپشنز پر غور کررہی ہے۔پاکستان کو اس وقت یہ تشویش ہے کہ کیا امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بار پھر ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرے گا؟۔ امریکا پاکستان سے بار بار یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پڑوسیوں کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ امریکی سینٹ کام کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے بھی اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں اعلیٰ سول و عسکری حکام سے ملاقاتوں میں اس مطالبے کو بار بار دہرایا۔
گزشتہ ہفتے جنرل جوزف نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات میں بھی اس مطالبے کو دہرایا کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف کسی بھی قسم کی دہشت گردی کیلیے استعمال نہ ہونے دے۔اُدھر آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے امریکی وفد سے کہا کہ ہم مالی اور لاجسٹکس امداد سے زیادہ امریکی حکومت سے اس بات کے متقاضی ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے۔اسلام آباد اور راولپنڈی میں موجود پالیسی ساز امریکا کی جانب سے حزب المجاہدین کو دہشت گرد قرار دینے کے فیصلے پر بھی مایوس ہیں جب کہ دفتر خارجہ نے اپنی بریفنگ میں علی الاعلان اس فیصلے کو مایوس کن قرار دیا ہے۔