تحریر: شہزاد حسین بھٹی
فتوحات کی وسعت کے لحاظ سے تیمور کا شمار سکندر اعظم اور چنگیز خان کے ساتھ دنیا کے تین سب سے بڑے فاتح سپہ سالاروں میں ہوتا ہے۔ فتوحات کی کثیر میں وہ شاید چنگیز سے بھی بازی لے گیا۔ چنگیز کے مفتوحہ علاقوں کا طول مشرق سے مغرب تک بہت زیادہ تھا لیکن شمالاً جنوبا ًعرض تیمور کے مقابلے میں کم تھا۔ پھر چنگیز کی سلطنت کا ایک بڑا حصہ اس کے سپہ سالاروں نے فتح کیا تھا جبکہ تیمور دہلی سے ازمیر تک اور ماسکو سے دمشق اور شیراز تک ہر جگہ خود گیا اور ہر جنگ میں خود شرکت کی۔ چنگیز جنگ کی منصوبہ بندی اچھی کرسکتا تھا جبکہ تیمور میدان جنگ میں فوجوں کو لڑانے میں استاد تھا۔ 1393ء میںقلات اور تکریت کے ناقابل تسخیر پہاڑی قلعوں کی تسخیر اس کی اس صلاحیت کا بڑا ثبوت سمجھی جاتی ہے۔(چنگیز اور تیمور کی جنگی صلاحیتوں کے تقابل کے لئے دیکھئے ہیرلڈ لیمب کی کتابیں”چنگیز خان” اور “تیمور”۔ ان دونوں کتابوں کا مولوی عنایت اللہ نے اردو میں ترجمہ کیا ہے)
تیمور کی بحیثیت ایک سپہ سالار حیرت انگیز صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس نے اس خداداد صلاحیت سے جو کام لیا وہ اسلامی روح کے خلاف تھا۔ اس کی ساری فتوحات کا مقصد ذاتی شہرت اور ناموری کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اس لحاظ سے وہ خالد بن ولید، محمود غزنوی، طغرل اور صلاح الدین ایوبی کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ انتقام کے معاملے میں بہت سخت تھا۔ مخالفت برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ وہ مسلمان ہونے کے باوجود خونریزی اور سفاکی میں چنگیز خان اور ہلاکو خان سے کم نہیں تھا۔ دہلی، اصفہان، بغداد اور دمشق میں اس نے جو قتل عام کئے ان میں ہزاروں بے گناہ موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ وہ انتقام کی شدت میں شہر کے شہر ڈھادیتا تھا۔ خوارزم، بغداد اور سرائے کے ساتھ اس نے یہی کیا۔ صرف مسجد، مدرسے اورخانقاہیں غارت گری سے محفوظ رہتی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں منگولوں کی طرح وہ بھی اللہ کا عذاب تھا۔
تیمور نے اپنی فتوحات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور کوئی تعمیری کام نہیں کیا۔ مفتوحہ ممالک کا بڑا حصہ ایسا تھا جس کواس نے اپنی سلطنت کا انتظامی حصہ نہیں بنایا۔ ان ملکوں کا وہ مقامی حکمرانوں کے سپرد کردیتا تھا اور ان سے صرف اطاعت کا وعدہ لے کر مطمئن ہوجاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایشیائے کوچک، شام، روس اور ہندوستان کے وسیع مفتوحہ علاقے جو بڑی خونریزی کے بعد حاصل ہوئے تھے تیموری سلطنت کا حصہ نہ بن سکے۔ اگر وہ ان ملکوں کو اپنی سلطنت کا انتظامی حصہ بنالیتا تو دنیا کی ایک عظیم الشان سلطنت وجود میں آتی۔ اس معاملے میں چنگیز اور منگول تیمور سے بہتر تھے کہ وہ جس علاقے کو فتح کرتے تھے اس کو براہ راست اپنے زیر انتظام بھی لے آتے تھے۔ اس نے قفقاز کے علاقے میں لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش بھی کی جو اسلام کی روح اور تعلیم کے خلاف ہے۔
تیمور نے توقتمش، بایزید یلدرم اور سلطان مصر کو شکست دے کر عالم اسلام کی دو بڑی طاقتوں کو ختم تو کردیا لیکن ان کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا اس کوپر نہ کرسکا۔ اگر بایزید کی طاقت ختم نہ ہوتی تو بلقان کا علاقہ ڈیڑھ سو سال پہلے مسلمانوں کے قبضے میں آچکا ہوتا۔ سرائے کی مملکت کی تباہی بھی اسلامی دنیا کے لیے اچھی ثابت نہ ہوئی۔ سرائے کی طاقتور مملکت کے ختم ہونے سے ماسکو کی نئی طاقت ابھرنے کے لیے راستہ صاف ہوگیا۔ تیمور نے روس میں توقتمش کے خلاف اور ایشیائے کوچک اور مصر میں سلطنت عثمانیہ اور مملوکوں کے خلاف جو لشکر کشی کی اگرچہ ہم اس کا الزام تیمور پر نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس نے اپنی طرف سے صلح و صفائی سے مسئلہ حل کرنے کی پوری کوشش کی تھی، لیکن ان لشکر کشیوں کے نتیجے میں دنیائے اسلام کو جو نقصان پہنچا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اسلامی تاریخ میں تیمور کا دور ایک بدنما دھبہ ہے۔ اس دور میں دنیا کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ تیمور کو مناسب اسلامی تربیت نہ ملی تھی اور اس کی نشوونما دور چنگیزی کی حدود میں اور نیم وحشی منگول ماحول میں ہوئی تھی۔بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس علاقے میں تیمور نے اپنی مستقل حکومت قائم کی وہاں اس نے قیام امن اور عدل و انصاف، خوشحالی اور ترقی کے سلسلے میں قابل قدر کوششیں کی۔ برباد شدہ شہروں کو دوبارہ تعمیر کیا اور تجارت کو فروغ دیا۔
ہیرلڈ لیمب لکھتا ہے کہ جس وقت سمرقند پر تیمور کا تسلط ہوا وہاں سوائے کچھ کچی اینٹوں اور لکڑی مکانوں کے کچھ اور نہ تھا مگر یہی کچی اینٹوں اور لکڑی کا شہر تیمور کے ہاتھوں میں آکر ایشیا کا روم بن گیا۔ وہ ہر مفتوحہ علاقے سے صناعوں، دستکاروں، فنکاروں، عالموں اور ادیبوں کو پکڑ پکڑ کر سمرقند لے آیا اور اپنے دارالحکومت کو نہ صرف شاندار عمارتوں کا شہر بنادیا بلکہ علم وادب کا مرکز بھی بنادیا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس کی اولاد نے اس ہی کی آخری الذکر روایات کو اپنایا جس کی بدولت وسط ایشیا کے تیموری دور کو تاریخ میں ایک ممتاز مقام مل گیا۔تیمور نے سمرقند کی شہر پناہ درست کی۔
شہر کے دروازوں سے وسط شہر کے بازار راس الطاق اور شہر سے دریا تک چوڑی چوڑی سڑکیں تعمیر کرائیں۔ جنوب کے پہاڑوں پر قائم مکانات کو گرا کر قلعہ تعمیر کرایا۔ باغوں کے گرد دیواریں اور جابجا پانی کے تالاب بنوائے۔ سمرقند کی عمارتیں اس وقت تک خاکی رنگ کی ہوتی تھیں لیکن اب درودیوار، برج اور گنبد فیروزی رنگ کے ہوگئے اور اس لاجوردیرنگ کی وجہ سے سمرقند کو گوک کند یعنی نیلاشہر کہا جانیلگا۔ تیمور کے زمانے میں صرف ارک کے علاقے کی آبادی ڈیڑھ لاکھ تھی۔ یہ علاقہ قلعہ اور اس سے متصل تھا۔ مغل حکمران بابر جو تیمور کے انتقال کے ایک سو سال بعد اس وقت سمرقند پہنچا جب وہ اپنی ماضی کی دلکشی بھی کھوچکا تھا لیکن اس نے اپنی کتاب تزک بابری میں شہر کا حال کچھ اس طرح لکھا ہے: “سمرقند کی مشہور ترین عمارات میں امیر تیمور کا محل ہے جو ارک سرائے کے نام سے مشہور ہے۔ محل کے بعد یہاں کی جامع مسجد اول درجے کی ہے۔ اس کے پیش طاق پر لکھی ہوئی آیت کریمہ “اذ یرفع ابراھیم القواعد” اس قدر جلی حروف میڑں ہے کہ ایک کوس سے پڑھی جاتی ہے۔ امیر تیمور کے بنائے ہوئے دو باغ بھی سمرقند کے عجائبات میں سے ہیں۔
امیر تیمور کے وارثوں میں سے محمد سلطان مرزا، الغ بیگ مرزا اور دوسروں نے بھی کئی عمارات بنوائیں جن میں “خانقاہ “بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا گنبد اتنا بڑا ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ خانقاہ سے ملحقہ مدرسے میں گو بہت سی خوبیاں ہیں لیکن اس کا حمام تو پورے خراساں اور ماوراء النہر میں اپنی مثال آپ ہے۔ مدرسے کے جنوب میں مسجد منقطع بھی اپنی خصوصیت کے لحاظ سے قابل ذکر ہے۔ پہاڑ کے دامن میں ایک بڑی رصد گاہ ہے جہاں الغ بیگ نے زیرچ گورگافی مرتب کی۔ سمرقند کی قابل ذکر عمارتوں میں چہل ستون کی عمارت بھی ہے۔ اس عمارت سے متصل ایک وسیع باغیچہ ہے جس میں ایک عجیب و غریب بارہ دری بنی ہے جس کا نام چینی خانہ ہے۔ سمرقند کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں پر پیشے اور صنعت کے بازار الگ الگ ہیں۔ سمر قند میں بہت نفیس کاغذ تیار ہوتا ہے جس کی ساری دنیا میں مانگ ہے”۔
تحریر: شہزاد حسین بھٹی