لاہور (ویب ڈیسک) دنیا بھر کی زبانوں میں اس موضوع پر موجود مقولوں اور محاوروں کو جمع کرلیا جائے تو ایک بات سب میں مشترک نکلے گی کہ دانا دشمن نادان دوست سے بہتر ہوتا ہے لیکن اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی نادان دوست کی طرف سے ملنے والے امکانات اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں۔ نامور کالم نگار امجد اسلام امجد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے گزشتہ چند کالموں میں عمران خان کی ترجیحات اور اُن کی ترتیب کے معاملات میں درپیش مسائل کا ذکر قدرے تواتر سے کیا ہے لیکن اب اندازہ ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان اُس کو چند نادان دوستوں کی وجہ سے پہنچ رہا ہے۔ گزشتہ ایک برس میں اتنے مسائل، حالات اور اُس کے سیاسی مخالفین نے پیدا نہیں کیے تھے اس کے ان more loyal to the king than the king himself یعنی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے اُس کے اردگرد بکھیرے ہیں، ایک تو بدقسمتی سے اُس کی اپنی صفوں میں اُس کی اپنی ذات سمیت بہت کم لوگوں کو حکومت کے روزمرہ کاروبار دُوررس پالیسی سازی کا تجربہ تھا جس کی وجہ سے اُسے اہم عہدوں پر ایسے لوگوں کو لگانا پڑا جن کی انتظامی صلاحیت تو شائد کسی حد تک تسلی بخش تھی لیکن اُن کا اُس مشن اور ویژن سے کوئی تعلق نہیں تھا جن کا نعرہ لگا کر اُس کی پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔ یہ ایک ایسی ناخوشگوار حقیقت ہے جس کی وجہ سے اُس کے کردہ اور ناکردہ کئی ’’سمجھوتوں‘‘ پر اُسے رعایتی نمبر دیے جاسکتے ہیں مگر اس بات پر ’’سمجھوتہ‘‘ ناممکن کی حد تک مشکل ہے کہ اُن کی دوستی اور قربت کے نام پر جو لوگ اُس کے لیے مسلسل مشکلات کھڑی کرتے چلے جارہے ہیں وہ اُن کو روکنے میں بہت حد تک ناکام رہا ہے اور یہ کہ اُس کے وہ دوست جو انتہائی برے وقتوں میں بھی اس کے ساتھ رہے ہیں اس احساس کے ساتھ پیچھے ہٹتے چلے جارہے ہیں کہ اُن کے مشوروں کو وہ اہمیت نہیں دی جارہی جو انھیں ملنی چاہیے تھی بلکہ اُن کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے جو نہ صرف بعد میں شامل ہوئے بلکہ جن کی وفاداری بھی کوئی بہت زیادہ قابلِ اعتبار نہیں۔ پرانے اور کسی نظریئے پر اتفاق رکھنے والے بنیادی دوستوں میں ایک اجتماعی رویہ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ اپنی بات لگی لپٹی رکھے بغیر کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور اگر اُن کے مقابلے میں کسی اور کی رائے کو زیادہ اہمیت دی جائے تو وہ عام طور پر اسے حقیقت کے بجائے جذباتیت کے ترازو پر تولنے لگ جاتے ہیں۔ دوسری طرف لیڈر کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہوتا ہے کہ جب وہ تھیوری سے نکل کر ’’عملی‘‘ کے میدان میں آتا ہے تو اُسے تنقید سے زیادہ تائید اچھی لگنے لگتی ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اُس بہت تھوڑے وقت میں ڈھیر سارے فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور یوں اُس کے پاس تفصیل سے بحث کرنے یا سننے کا وقت نہیں ہوتا اور وہ اپنے خیال میں بہت سے سمجھوتے ’’عارضی‘‘ اور معاملات کی بڑی تصویرمیں دوراندیشانہ سمجھ کر کرتا ہے جب کہ اُس کے کچھ اصلی لیکن قدرے جذباتی دوست اسے اپنے وژن سے گریز اور بدعہدی تصور کرتے ہیں اور یوں آہستہ آہستہ بدگمانیوں کا ایک غبار سا چاروں طرف پھیل جاتا ہے جب کہ ’’حقیقت ‘‘ میں صورت حال اتنی پیچیدہ اور گمراہ کن نہیں ہوتی جتنی دکھائی دیتی ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ اس غلط فہمی سے پیدا شدہ خلا میں وہ نادان دوست زیادہ نمایاں اوربا اثر ہوتے جاتے ہیں جن کا واحد شوق ایک ایسی کارکردگی کا مظاہرہ ہوتا ہے جس میں گہرائی کم اور چمک یا شور نسبتاً بہت زیادہ ہوتاہے ۔ اتفاق سے گزشتہ ایک ہفتے میں یہ دونوں باتیں ایک ساتھ اور بہت واضح ہوکر سامنے آئی ہیں میری مراد ایک ٹی وی چینل پر طالب علمی کے دنوں کے دوست اور ساتھی اور نامور وکیل خاور خان کا وہ انٹرویو ہے جس میں انھوں نے عمران خان اور پی ٹی آئی سے اپنے قدیم اور مستحکم رشتے میں پڑنے والی دراڑوں کے بارے میں بات کی ہے جب کہ انھی دنوں میں سینئر صحافی اور دانشور پروفیسر عرفان صدیقی کی انتہائی برے اور قابلِ اعتراض انداز میں گرفتاری اور اس کے بعد عوامی دباؤ پر دی جانے والی رہائی کا قصہ ہے جس نے یقینا حکومتِ وقت کو ایک مشکل اور دفاعی صورت میں ڈال دیا ہے کہ اب اُس کے سمیت میڈیا، سیاسی مخالفین اور عوام الناس سب مل کر اُس ’’نادان دوست کی تلاش میں ہیں جو اس ساری ناخوشگوار صورت کا اصل متحرک ہے اور تادم تحریر جس کی نشاندہی بھی نہیں ہوسکی۔ میاں نواز شریف اینڈ فیملی سے لے کر رانا ثنااللہ تک کے خلاف بنائے گئے تمام مقدموں میں کوئی نہ کوئی ایک ایسا قانونی پہلو ضرور تھا۔ جس کی بنیاد پر آپ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی سیاسی انتقام کا حصہ نہیں بلکہ احتساب کے محکمے آزادانہ طور پر اپنا کام کررہے ہیں لیکن ایک اٹھہترسالہ اُستاد ، دانشور اور نامور صحافی کو جس طرح کے کیس میں پکڑا گیا ہے اُس کی واحد وجہ اُس کی میاں نواز شریف سے ذاتی وابستگی اور قربت کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتی، سو جس کسی کے بھی حکم اور ایماء پر یہ ساری افسوسناک کارروائی ہوئی اُسکے لیے ’’نادان دوست‘‘ نسبتاً بہت نرم اور رعایتی ترکیب ہے ۔ اس پچھلی دو حکومتوں کی عوام دشمن اور مجرمانہ لوٹ مار کی کہانیاں دن رات دہرائی جارہی ہیں اُن کے بیشتر کارناموں کے پیچھے بھی اسی طرح کے کچھ نادان دوست اپنی جاں نثاری اور وفاداری کے مظاہرے کر رہے تھے سو عمران خان کے لیے لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے نہ صرف اس طرح کے مہربانوں سے جان چھڑائے بلکہ اپنے اُن دوستوں کو بھی زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ رکھے جن کی ناراضی اور دوری کی اصل وجہ اُن کی اپنے لیڈر ،قوم اور پارٹی سے دلی محبت ، کمٹ منٹ اور وہ ’’دانش‘‘ ہے جو نئے مسائل کو پیدا کرنے کے بجائے موجود اور دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی خدمات صرف اس لیے پیش کرتی ہے کہ اُس کی روشنی سے معاشرے کے تمام گوشے منور اور روشن ہوں اور خیرکی بارش اپنے من پسند افراد کے بجائے سب پر ایک ہی طرح سے ہو۔