ہاتھوں پہ جس کے سارے زمانے نے بیعت کی
اپنے ہی اس کے ہاتھوں مسلماں نہ ہو سکے
کیسا ہے گل فروش کہ گل تو بہت سے ہیں
ان کے سنبھالنے کو جو گلداں نہ ہو سکے
رحمت کا صبح و شام جو بیغام لا رہا
اس کے لیئے ہی رحم کا ساماں نہ ہو سکے
اس شہر کی فضاؤں میں رقصاں رہے گی موت
جو اپنے رہنماوں پہ حیراں نہ ہو سکے
ہر روز سانحات مقدر ہیں ان کے جو
اپنے کیئے پہ سالوں پشیماں نہ ہو سکے
قاتل کھڑے ہیں ایسے جنازے میں صف بصف
ممتاز ان سے بڑھ کے نگہباں نہ ہو سکے
تحریر : ممتاز ملک