لاہور: وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ جب تک انتخابات کے بادل منڈلا رہے ہیں بھارت کی جانب سے جارحیت کا خطرہ ہے، بھارت میں مقبولیت حاصل کرنے کا آسان راستہ پاکستان دشمنی ہے، انتخابات کی وجہ سے بھارت کی جانب سے منفی چال چلنے کے خدشات تھے اس لئے پلوامہ واقعہ سے پہلے ہی دفتر خارجہ متحرک ہو چکا تھا اور ہم نے مختلف ممالک کے سفیروں اور وزرائے خارجہ سے پیشگی رابطے کر کے اپنے خدشات سے آگاہ کر دیا تھا، بھارتی پائلٹ کی رہائی عالمی دبائو کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ وزیراعظم عمران خان کا فیصلہ ہے، جنگ مودی کی سیاسی ضرورت ہے اور وہ اپنی سیاسی ضرورت کیلئے پورے خطے کو آگ میں دھکیل رہے ہیں، بھار ت نے پلوامہ واقعہ پر ڈوزئیر بھیجا ہے جس کا دفتر خارجہ تجزیہ کر رہا ہے اور ہم ان کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس پر بھی بات کرنے کے لئے تیار ہیں
برطانوی دار العوام، یورپی پارلیمنٹ اور امریکی کانگریس کو کردار ادا کرنا چاہیے، ہم بھارت کے ساتھ معاملات کو سفارتی فر نٹ کے ذریعے حل کر نا چاہتے ہیں فوجی فر نٹ کا استعمال آخری آپشن ہے لیکن جب ہمارے خلاف جار حیت ہوگی تو پھربھر پور جواب دینا ہمارا حق ہے ،ہر ذی شعور کومعلوم ہے کہ ہماری طرف کوئی کمزور ی نہیں اور بھارت کو اس کا اشارہ مل چکا ہے، پاکستان نے اپنا عزم اور صلاحیت دکھا دی ہے، ہم نے اپنا ہائوس ان آڈر کر لیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گورنر ہائوس میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں خدشہ تھا کہ بھارت میں انتخابات آرہے ہیں اور مودی سرکار اپنی مقبولیت کھو رہی ہے جس کی واضح نشاندہی پانچ ریاستوں میں نتائج تھے۔ یہ صورتحال انہیں مجبور کر رہی تھی کہ ایسا راستہ تلاش کریں جس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔ بھارت میں مقبولیت حاصل کرنے کا آسان راستہ پاکستان دشمنی ہے۔ ہمیں ڈر تھا کہ کوئی مس ایڈونچر ہو سکتا ہے اور مودی اس کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہم نے اسلام آباد میں سفارتکاروں کو دفتر خارجہ بلانا شروع کر دیا تھا اور انہیں بریفنگ شروع کر دی تھی۔ میں نے اسی خدشے کے پیش نظر وزرائے خارجہ سے رابطہ کیا ۔میری روس کے وزیر خارجہ سے گفتگو ہوئی اور میں نے انہیں اپنے خدشات سے پیشگی آگاہ کیا تھا اور ہمارے خدشات صحیح ثابت ہوتے چلے گئے۔ ہم نے خطوط کے ذریعے دیگر فورمز کو بھی مطلع کیا کہ انہیں کردار ادا کرنا چاہیے ۔ ہماری خطے خطے کے اندر اور خطے سے باہر رابطے جاری ہیں اور انشا اللہ جاری رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پولیٹیکل فرنٹ میں کسی ملک کی پارلیمنٹ کا کردار اہم ہوتا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان اور حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم جمہوریت ہیں اورپارلیمنٹ کو اہمیت دی جانی چاہیے، اپوزیشن کی بھی خواہش تھی اور ہم نے ان کی رائے کو احترام دیا اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا اور دو روز طویل بحث ہوئی اور اس کے بعد متفقہ قرارداد پاس کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ قرارداد کے 21 نکات ہیں اور میں حکومت ،پوزیشن اور وفاق کی علامت سینیٹ کے تمام ممبرا ن کا شکر گزار ہوں جنہوں نے یک زبان ہو کر قرار داد کو متفقہ پاس کیا، ہم نے قرار داد کے ذریعے دنیا کو کشمیر پر اپنی پوزیشن اور بھارت کی جارحیت پر اپنا موقف پیش کیا۔ ہم نے قرار داد میں پاکستانی پارلیمنٹ کی جانب سے بھارتی پالیمنٹ کو بھی پیغام دیا کہ ہم امن کے خواہاں اور امن کے داعی ہیں اور امن کے استحکام کے لئے کردار ادا کر رہے ہیں اور آپ کو بھی یہ کردار ادا کرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں سب کی مودی سرکاری جیسی سوچ نہیں بلکہ وہاں ایک بڑا طبقہ امن چاہتا ہے اور جنگ کے بھیانک نقصانات نہیں دیکھنا چاہتا ۔انہوںنے کہا کہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کا ماضی کا تجربہ ہے اور ان کی برطانیہ میں عزت اور احترام ہے۔ ہم نے مل کر اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ہم برطانوی دار العوام اور یورپی پارلیمنٹ کے ممبران کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میری یورپی یونین کی امور خارجہ کی سربراہ سے میں ملاقات ہوئی ہے اور ہم نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں تنائو میں کمی کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم نے امریکہ کو انگیج کیا ہے، یورپ کے وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ سے رابطہ کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ ہم موجودہ حالات میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں، ہم نے انہیں کہا ہے کہ امن کے لئے کردار ادا کریں اور پیر کے روز وہاں ایک تحریک پیش ہونے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ امن پاکستان کی ضرورت ہے اور یہ کیوں ہے کیونکہ اس ملک میں نئی حکومت آئی ہے ،ہمارا ایک ایجنڈا ہے ہم معاشی ترقی چاہتے ہیں، روزگار اور سیاحت کی ترقی چاہتے ہیں اور اس کیلئے امن چاہیے ۔دنیا امن کے لئے پاکستان اور اس کی افواج کے کردار کو تسلیم کر رہی ہے، ہم افغانستان میں امن کے لئے کردار ادا کر رہے ہیں اور دوحہ میں امریکہ او رطالبان کو بٹھا یا ہے جہاں پر معاملات طے ہو رہے ہیں اور ہتھیار پھینکنے اور امن کا جھنڈا بلند کرنے کی بات ہو رہی ہے ایسے حالات میں پاکستان کیوں چاہے گا کہ اس کی مشرقی سرحد پر جنگ کے بادل منڈلائیں ،ہماری جنگ کی حکمت عملی اور سوچ نہیں ، ہماری امن کی سوچ ہے ،نفرتیں اور جنگ مودی کی سیاسی ضرورت ہے اور ان کی سیاسی ضرورت پورے خطے کو آگ میں دھکیل رہی ہے اور ایسی کیفیت میں مبتلا کر رہے ہیں جس کا انجام نہ جانے کیا ہو سکتا ہے ۔مودی آگ سے کھیل رہے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ جنگیں شروع کرنا آسان لیکن انہیں سمیٹنا مشکل ہوتا ہے اور کہیں ایسی نوبت نہ آئے جائے اور ہم اس حد تک نہ جائیں کہ میں بھی اور آپ بھی بے بس ہو جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں 21جماعتیں حکومت کے کردار پر سوال و جوب کر رہی ہیں اور خود بے جی پی میں کہا جارہا ہے کہ پلوامہ واقعہ کے بعد اتنی سیٹوں کا اضافہ ہو جاتا ہے یہ انسانیت کے خلاف ہے ۔