counter easy hit

’’لندن وِچّ درویشاں دا، اِک ڈیرا اے!‘‘

an encampment of saints in London , a column by Asar Chohan on 18 October 2016

an encampment of saints in London , a column by Asar Chohan on 18 October 2016

6اکتوبر (اتوار کو ) مَیں اپنے بیٹے انتصار علی چوہان کے ساتھ ایسٹ لندن میں لاہور کے سید سجاد حسین شاہ کے گھر گیا۔ دس سال پہلے ستمبر 2006ء میں مَیں پہلی بار اُن کے گھر گیا تھا۔ اُس کے بعد میری شاہ صاحب سے لاہور میں کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن لندن میں اُن کے گھر میں یہ میری دوسری ملاقات تھی۔ ستمبر 2006ء میں بھی انتصار علی چوہان ہی مجھے شاہ صاحب کے گھر لے کر آیا تھا۔ مَیں نے دیکھا تھا کہ اُن کے خوبصورت ڈرائنگ روم میں صرف ایک ہی تصویر آویزاں تھی اور وہ تھی بانی ٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی تصویر۔ مَیں نے شاہ صاحب سے پوچھا تو انہوں نے بتایا تھا کہ’’جب بھی میرے بیٹوں کے انگریز مہمان اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہمارے گھر آتے ہیں تو ہم اُن سے قائداعظمؒ کا تعارف کراتے ہیں اور قیام پاکستان کے سلسلے میں اُں کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہیں‘‘۔
16 اکتوبر 2016ء کو قائداعظم کی تصویر اُسی جگہ آویزاں تھی۔ مَیں نے تصویر کی طرف دیکھا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ قائداعظم کی خوبصورت آنکھیں مجھ سے پوچھ رہی ہیں کہ ’’ پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان کو حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنایا یا نہیں؟‘‘ ستمبر 2006ء میں مجھے لندن آنا تھا تو مجھے میرے دوست بریگیڈئیر (ر) سید افضال حسین شاہ صاحب نے کہا تھا کہ ’’اثر چوہان صاحب! آپ لندن جارہے ہیں تو بانی ٔ پاکستان حضرت قائداعظم کے شیدائی سید سجاد حسین شاہ سے بھی ملیں گے۔ آپ کو بہت خوشی ہوگی‘‘۔ مجھے واقعی خوشی ہوئی تھی اور اب پھر ہوگی۔ سید افضال حسین شاہ سے میرا تعارف لاہور میں اُن کے بھانجے انفارمیشن گروپ کے سید اعجاز حسین شاہ نے کرایا تھا۔ اس کے بعد اُن سے میری بہت سی ملاقاتیں ہوئیں۔ پھر میری اُن سے دوستی ہوگئی اور مجھے مڈل مین کی حیثیت سے سید اعجاز حسین شاہ کی ضرورت نہیں رہی۔
بریگیڈئیر(ر) سید افضال حسین شاہ کے والد گرامی پیر سید قاسم علی شاہ اور اُن کے لاتعداد مُریدوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ سید افضال حسین شاہ نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں مختلف محاذوں پر اہم خدمات انجام دی تھیں۔ اُن کا وصال یکم مارچ 2016ء کو لاہور میں ہوا۔ 16 اکتوبر کو مَیں سید افضال حسین شاہ صاحب کی تعزیت کے لئے اُن کی بیٹی سیدہ آرزو حسین اور اُن کے شوہر سید سہیل رضا حسین سے ملاقات کے لئے گیا تھا حالانکہ اُن دونوں سے میری ملاقات لاہور میں بھی ہوچکی تھی لیکن سرسری سی۔ آرزو حسین‘ سید سجاد حسین کی بہو ہیں۔
بریگیڈئیر (ر) سید افضال حسین شاہ ’’نوائے وقت‘‘ کے دیرینہ قاری تھے اور جناب حمید نظامی اور ڈاکٹر مجید نظامی کی قومی خدمات کے مداح تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کو بجا طور پر’’مجاہد ملت‘‘ کہا جانا چاہیے‘‘۔ مَیں نے 9 اگست 2012ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں اپنی کالم نویسی کا تیسرا دور شروع کیا تو شاہ صاحب نے مجھے اپنے گھر چائے پر بلایا اور کہا کہ ’’اثر چوہان صاحب! اب آپ اپنے صحیح ٹھکانے پر آگئے ہیں‘ اب مستقل طور پر یہیں رہیں‘‘۔ اس سے قبل 7 جولائی 2013ء کو لاہور میں سید اعجاز حسین کی بیٹی شفق کی شادی تھی۔ مَیں اسلام آباد سے لاہور گیا تھا۔ تقریبِ شادی میں زیادہ تر پاک فوج اور بیوروکریسی کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران تھے۔ شاہ صاحب نے مجھے گلے لگایا اور اپنے بیٹوں کرنل سید ضرار حسین شاہ، کرنل سید عروج حسین شاہ اور بھانجوں سید اعجاز حسین شاہ‘ سید عباس حسین شاہ اور سید سہیل حسین شاہ سے اُن کے والد محترم سید سجاد حسین شاہ سے کہا کہ ’’اثر چوہان صاحب میرے دوست ہیں لیکن آپ سب لوگ انہیں اپنا “فیملی ممبر” سمجھیں اور ہماری “فیملی ” یہ ہے کہ ہمارے اور اثرچوہان صاحب کے بزرگ قائداعظمؒ کے سپاہی تھے۔
میں اولیائے کرام کے سارے سلسلوں کا احترام کرتا ہوں۔ سلسلۂ چشتیہ کے لوگ میرے اپنے ہیں۔ میرے آبائواجدادکا تعلق اجمیر سے تھا۔ سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز چشتیؒ نے انہیں ہندوئوں سے مسلمان کیا تھا۔ سید افضال حسین شاہ چشتیہ، قادریہ اور صابریہ سلسلہ کے پیر تھے۔ دینی اور دنیوی علوم کے ماہر، اُن کے پَردادا 1845ء میں تبلیغِ اسلام کے لئے جلال آباد (افغانستان) سے ہندوستان تشریف لائے تھے۔ اُن کا نام سید محمد اکبر شاہ تھا/ ہے۔ وہ ہندوستان میں لاکھوں مسلمانوں کے روحانی پیشوا بن گئے تھے۔ اُن کے وصال کے بعد اُن کے صاحبزادے صوفی سید امین شاہ (بریگیڈئیر (ر) سید افضال حسین شاہ کے دادا) ، اُن کا وصال 1999ء میں ہوا تو اُن کے مریدوں نے سید افضال حسین شاہ صاحب کو اُن کا سجادہ نشین منتخب کرلیا۔
بریگیڈئیر (ر) سید افضال حسین شاہ کہا کرتے تھے کہ ’’ہر دور میں صوفیائے عظام اور اولیائے کرام‘‘ کی ضرورت رہی ہے۔ ’’اولیائے کرام کی کوششوں سے برصغیر پاک و ہند میں لاکھوں ہندوئوں نے اسلام قبول کیا‘‘۔شاہ صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’اسلام میں مولوی بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مَیں مولوی صاحبان کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن جب مسلمان‘ مولوی صاحبان کے قول اور فعل میں تضاد دیکھتے ہیں تو وہ بہ حیثیتِ مجموعی مولوی صاحبان کی ملامت کرتے ہیں‘‘۔ سید افضال حسین شاہ صاحب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ’’جن مولویوں نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی اور علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف کفر کے فتوے دئیے تھے، مجھے یقین ہے کہ اُن کی قلبی اور معنوی اولاد کو عام انتخابات میں کبھی بھی بھاری مینڈیٹ نہیں مل سکے گا۔‘‘
صوفی کے بارے میں شاہ صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’صوفی وہی ہوتا ہے جو دُنیا کے لبولہوولعب جرص، حسد، کینہ اور تکبر سے دُور رہے۔ اُس کی سوچ میں پیار، محبت، بُردباری اور اعلیٰ اخلاقی کی چاشنی پیدا ہونا چاہیے لیکن کئی گدی نشین اور سجادہ نشین دُنیا داری میں الجھے ہوئے ہیں اور وہی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جو اقتدار میں آنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔‘‘ سید افضال حسین شاہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ’’پاکستان کے عوام اکثر اپنی معصومیت اور سادگی سے سبز باغ دکھانے والے سیاستدانوں کو میرکارواں سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر ہمارے حکمران علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے افکار و نظریات پر عمل کریں تو پاکستانی قوم دُنیا بھر میں منفرد مقام حاصل کرسکتی ہے‘‘۔
16اکتوبر پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کا یوم شہادت ہے۔ مجھے سید سجاد حسین کے بیٹے سید سہیل حسین شاہ اور بہو آرزو حسین نے بتایا کہ ’’آج ہم نے علی الصبح قریبی مسجد میں ’’شہید ِ ملت‘‘ کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کرائی تھی۔سید سہیل حسین شاہ کے دونوں بڑے بھائی عباس حسین شاہ اور سید اویس حسین شاہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ پاکستان گئے ہوئے ہیں اور اُن کے سب سے بڑے بھائی سید اعجاز حسین شاہ تو اپنے عظیم ماموں جان کی محبت میں پاکستان میں ہی رہے۔ سید سجاد حسین شاہ اور اُن کی اہلیہ 1961ء سے لندن میں ہیں۔ سید سہیل حسین شاہ 1962ء میں لندن میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والد صاحب اور والدہ کی طرح میرے اعزاز میں (مجھ سے) لہوری پنجابی میں بات کرتے رہے اور آرزو حسین بھی لیکن انتصار علی چوہان کے ساتھ ’ٹھیٹھ انگریزی‘‘ میں۔
سید سجاد حسین شاہ اور اُن کے بیٹے لندن کے مسائل زدہ پاکستانیوں سے ہر قسم کا تعاون کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس خاندان کے تمام افراد کی جڑیں پاکستان میں ہیں۔ اُن کا گھر، گھر کے بجائے فرزندان و دُختران پاکستان کا ایک ایوان ہے۔ درویشوں کا ایک ڈیرہ ہے۔ یہ درویش بابا بلھّے شاہ کی طرح ’’چولے ساوے تے سُو ہے‘‘ نہیں پہنتے۔ کبھی پاکستانی اور کبھی انگریزی لباس پہنتے ہیں۔ پنجابی، اردو اور انگریزی بولتے ہیں۔ ان کے ڈرائنگ روم میں صرف قائداعظم کی تصویر آویزاں ہے۔ یہ سارے درویش لندن میں رہتے ہیں۔ مَیں نے اُن کے ڈیرے پر اڑھائی گھنٹے گزارے تو میرے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے میرے دائیں کان میں سرگوشی کی اور کہا۔
’’رب رسولؐ دے ناں دا، سوہنا سویرا اے‘‘
لندن وِچ، اِک درویشاں دا، ڈیرا اے‘‘

تحریر، اثر چوہان، بشکریہ نوائے وقت

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website