لاہور (ویب ڈیسک) وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کو بہت سراہا گیا ہے، ویسے تو اس اجلاس میں شرکت کے لیے وزیراعظم عمران خان کو خود جانا چاہیے تھا، میں نے اس سلسلے میں انہیں واٹس ایپ پر پیغام بھی دیا تھا،
نامور کالم نگار توفیق بٹ روزنامہ نئی بات میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان میں ان کی کوئی ایسی اہم مصروفیت نہیں تھی جس کی بنیاد پر جنرل اسمبلی میں ان کے نہ جانے کے فیصلے کو سراہا ۔ کوئی اہم مصروفیت ہوتی بھی تو انہیں ضرور جانا چاہیے تھا۔ بے شمار ممالک کے سربراہان وہاں اکٹھے تھے۔ جن کی یقیناً یہ خواہش بھی ہوگی پاکستان کے ایک ایماندار وزیراعظم سے ملاقات کریں اس کی گفتگو سنیں، پہلی بار پاکستان کا کوئی حکمران اپنے لباس اور اپنی زبان میں خالصتاً پاکستان کے مفاد میں وہاں بات کرتا اس کی شان ہی نرالی ہوتی۔ اللہ جانے خان صاحب نے وہاں نہ جانے کا فیصلہ کیوں کیا ؟۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی گزشتہ کئی برسوں سے انتہائی کمزور ہے، گزشتہ حکومت اس معاملے میں پچھلی ساری حکومتوں سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہی۔ کسی کو وزیرخارجہ ہی نہیں بنایا گیا، یہ عہدہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے مسلسل اپنے پاس رکھا، اس عہدے سے انہیں اس حدتک لگاﺅ تھا، یا اس عہدے کی لالچ میں وہ اس قدر مبتلا تھے جیسے ہی پانامہ کیس میں انہیں اس عہدے سے ہٹایا گیا اور شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا گیا تو
انہوں نے یہ عہدہ (وزارت خارجہ) احسن اقبال کو سونپ دی، ان کی اپنی کابینہ کے بھی رکن تھے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ عہدہ انہوں نے پہلے احسن اقبال کو کیوں نہیں سونپا؟۔ وہ شاید اپنی اس فطرت سے ہمیشہ مجبور رہے ہراہم عہدہ اپنے پاس ہی رکھا جائے۔ خانہ پری کے لیے ایک بوڑھے شخص سرتاج عزیز کوانہوں نے مشیر خارجہ بنائے رکھا۔ سنا ہے ایک بار وہ ناروے کے سفیر کو سپین کا سفیر سمجھ کر ان سے گفتگو فرماتے رہے، شکر ہے انہوں نے کہیں امریکہ کے سفیر کو چائنہ کا سفیر سمجھ کر ان سے کوئی گفتگو نہیں فرمالی جس کے نتائج خوفناک بھی نکل سکتے تھے۔ نواز شریف کے پہلے دور میں وہ شاید ان کے وزیر یا مشیر خزانہ بھی رہے۔ انہیں ان کی کس خوبی کی بنیاد پر وزیر خزانہ اور مشیر خارجہ بنایا گیا ؟شاید انہیں بھی معلوم نہ ہو۔ البتہ ان کی جو خوبی ہمیں سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے وہ نوازشریف کی ہاں میں ہاں اور ناں میں ناں بہت اچھی ملاتے تھے، اس کے علاوہ سنا ہے وہ ان کی چائے میں چینی بھی بہت اچھی ملاتے تھے، اس ملک میں عہدوں کی بندر بانٹ انہی ” خوبیوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے، ….میں حیران ہوں شاہ محمود قریشی میں یہ ”خوبیاں“ موجود نہیں،
اس کے باوجود انہیں وزیر خارجہ بنادیا گیا ہے، وہ ایک مہذب شخصیت کے مالک ہیں، پاکستان کا وزیر خارجہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں خدشہ تھا وزیراعظم عمران خان کہیں شیخ رشید کو وزیرخارجہ نہ بنادیں جس کے بعد خارجہ پالیسی کا مزید بیڑاغرق ہوجاتا۔ شاہ محمود قریشی اس سے قبل پیپلزپارٹی کے اقتدار میں بھی وزیر خارجہ رہے، امریکی سفارتکارریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور اسے امریکہ بھجوائے جانے پر وہ احتجاجاً اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے، یہ ایک بڑا فیصلہ تھا، اس ملک میں کوئی کلرک اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا چہ جائیکہ ایک وفاقی وزیر خالصتاً قومی مفاد میں اپنے عہدے سے الگ ہوجائے۔ اس سے دنیا کو ایک واضح پیغام ملا تھا پاکستان میں کچھ باضمیر لوگ بھی حکمرانوں میں شامل ہوتے ہیں ،…. اس کے بعد شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ تب پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے، سیاسی وذاتی طورپر ان میں کچھ خرابیاں بھی ہوں گی، جو مجھ سمیت تقریباً ہرشخص میں ہیں، مگر ان کی حب الوطنی پر کسی کو کبھی شک نہیں رہا۔ ریمینڈ ڈیوس کو واپس اس کے ملک بھجوائے جانے پر ان کے استعفیٰ سے ان کی یہ خصوصیت مزید نکھر کر سامنے آگئی۔
وزارت سے استعفیٰ دینے کے بعد ان کی نون لیگ میں شمولیت کی باتیں بھی ہوتی رہیں، نون لیگ کی خواہش بھی تھی۔ مگر مسئلہ یہ تھا جاوید ہاشمی جو اس وقت نون لیگ میں شامل تھے وہ ملتان میں شاہ محمود قریشی کے پرانے سیاسی حریف تھے۔ شاہ محمود قریشی کی نون لیگ میں شمولیت سے وہ یقیناً ناراض ہو جاتے۔ اس وقت نون لیگ انہیں ناراض کرنا افورڈ نہیں کرسکتی تھی۔ جو بعد میں اس نے بخوشی افورڈ کرلیا۔ دوسری طرف شاہ محمود قریشی کا ظرف یہ ہے جاوید ہاشمی نون لیگ سے ناراض ہوکر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تو پی ٹی آئی میں پہلے سے شامل شاہ محمود قریشی نے انہیں دل سے خوش آمدید کہا۔ وہ ان کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے، ورنہ وہ ڈٹ جاتے تو عمران خان ان کے مقابلے میں کبھی جاوید ہاشمی کو ترجیح نہ دیتے۔ جاوید ہاشمی بدقسمت ہیں ان کے فیصلوں نے انہیں اس مقام پر پہنچا دیا جہاں ان کی سیاست اب تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ دوسری طرف شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی میں رہتے ہوئے پی ٹی آئی میں موجود اپنے ایک مضبوط مخالف دھڑے کی دیکھی اور ان دیکھی سازشوں کا بھرپور مقابلہ کیا اور اپنی محنت کی بنیاد پر خود کو اس مقام پر لے آئے عمران خان کے پاس انہیں وزیرخارجہ بنانے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں
تھا۔ اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان کی پرفارمنس سے وزیراعظم عمران خان یقیناً خوش ہوئے ہوں گے۔ اور پی ٹی آئی میں ان کے مخالف دھڑے کے منہ بھی کچھ نہ کچھ ضرور بند ہوگئے ہوں گے۔ ہمیں خوشی اس بات کی ہے انہوں نے قومی زبان میں خطاب کیا۔ ورنہ ان سے پہلے اکثر پاکستانی حکمران ”اپنی زبان“ یعنی انگریزی زبان میں خطاب کرتے تھے، ویسے تو ہمارے اکثر حکمرانوں کی کوئی زبان ہی نہیں ہوتی۔مگر گفتگو وغیرہ کرنے کے لیے وہ زیادہ تر انگریزی زبان استعمال کرکے یہ ثابت کردیتے ہیں ان کے منہ میں زبان کسی اور کی ہے، جیسے وہ خیال بھی کسی اور کے ہی ہوتے ہیں انہیں سوچتا کوئی اور ہے، سلیم کوثر نے یہ شعر شاید اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لیے ہی کہا تھا ” میں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے“ ۔ مجھے نہیں معلوم اس سے قبل پاکستان کے کسی حکمران کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی زبان میں خطاب کرنے کا اعزاز حاصل ہوا یا نہیں ؟ دنیا کو اب ایک واضح پیغام ملا ” پاکستان ”گونگا“ نہیں ہے“۔البتہ اس موقع پر ہمارے وزیرخارجہ قومی لباس پہن لیتے یہ سونے پہ سہاگہ ہوتا۔ وہ قومیں اور معاشرے دنیا میں کبھی عزت آبرو حاصل نہیں کر پاتے جو اپنی تہذیب، اپنی زبان لباس اور اپنے کلچر کو اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔ عمران خان کی ایک یہ ادا بھی بڑی پسند ہے وہ پاکستان میں زیادہ تر قومی لباس میں ہوتے ہیں، میں تو ان سے ہمیشہ کہتا ہوں بیرون ملک جاکر بھی آپ قومی لباس ہی پہنا کریں اس سے آپ کی پاکستانیت مزید نکھرے گی ،…. شاہ محمود قریشی کو اس حوالے سے بھی زبردست خراج تحسین پیش کرنا بنتا ہے اپنی تقریر میں انہوں نے پاکستانی عوام کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے مختلف ایشوزپر اپنا مو¿قف اس قدر جرا¿ت مندانہ اور دوٹوک الفاظ میں دنیا کے سامنے پیش کیا سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے ماضی میں ایسی توفیق شاید ہی کسی اور حکمران کو ہوئی ہوگی۔ امید ہے ہمارے وزیرخارجہ کی تقریر کے بعد بھارتی وزیراعظم مودی جی کو اب مکمل یقین آگیا ہوگا پاکستان میں اس کے یاروں کی حکومت ختم ہوچکی ہے