لاہور(ویب ڈٰیسک)شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی سابقہ نوابشاہ (حال بینظیر آباد) میں سال آخر کی طالبہ فرزانہ جمالی نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے انگریزی کے استاد پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے ۔ طالبہ نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ لیکچرر کی پشت پناہی یونیورسٹی کا
صف اول کے صحافی اور کالم نگار حسن مجتبٰی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔ وائس چانسلر کر رہا ہے۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ اس طرح کا سنگین الزام لگنے کے بعد وائس چانسلر اور اس کی یونیورسٹی انتظامیہ نے کم از کم تحقیقات شروع کرادی ہوں گی۔ جس پر الزام ہے اس لیکچرر کو کم از کم معطل تو ضرور کیا ہوگا۔ طالبہ کی ڈھارس بندھانے سندھ میں حکمراں پی پی پی کے وزرا اور خواتین اراکین اسمبلی خاص طور پرضرور حرکت میں آ گئی ہوں گی۔ نیز سندھ میں کام کی جگہوں اور تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی کے خلاف بنائے گئے قوانین پرعمل میں سرگرمی آ گئی ہوگی۔جی نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ جس لیکچرر پر الزام لگا ہے اس کے بجائے لڑکی کے والد اعجاز جمالی کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ کیونکہ نوابشاہ آصف علی زرداری کا آبائی ضلع اور شہر ہے اور وائس چانسلر ارشد سلیم ایک اور طاقتور’’ادی‘‘ کا نامزد کردہ ہے۔ بلکہ یوں کہئے کہ یہ سابق پی ٹی ٹیچر ارشد سلیم اسی ادی کی پشت پناہی سے سندھ کی ایک اہم پبلک یونیورسٹی کا وائس چانسلربنا ہوا ہے، تمام عوامی اور اساتذہ کے احتجاج کے باوجود۔ مطلب کہ پہلے سندھ کی تعلیم میاں نے تباہ کی اور اب زوجہ کی باری ہے جس سے پڑھے لکھے سندھی آس لگائے بیٹھے تھے کہ
عذرا پیچوہو اپنے بھائی اور بہن سے مختلف ہے جنہوں نے سندھ کے ہر شعبے میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ شاید سندھ ختم ہو جائے بھٹو کا سندھیوں پر قرض ختم نہ ہو۔طالبہ، اس کے اعزااور جنسی ہراسگی کے خلاف کھڑے ہونے والے لوگوں کے زخموں پر ایک زبردست نمک پاشی یہ ہوئی کہ طالبہ کی پریس کانفرنس کے دوسرے روز وائس چانسلر میدان میں اتر آیا۔ وہ اس طرح کہ انہوں نے کیمپس کے میدان میں تمام طلبہ کو جمع کیا اور اساتذہ کے لائو لشکراور طلبا سے اس طرح مخاطب ہوئے کہ گویا وہ کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نہیں کسی قبیلے کے سردار یا کسی لڑاکا لشکر کے جنرل ہیں،وہ طلبہ و طالبات سے کچھ یوں مخاطب ہوئے۔ ’’ان کو جو کھیل کھیلنا تھا وہ کھیل چکے۔ اب ہماری باری ہے۔ اب تمام بچیاں بچے جائو اور پندرہ منٹ میں اپنی اپنی ڈی پی فیس بک احتجاجی رنگ سے بدلیں‘‘۔یعنی کہ جنسی ہراسگی کا شکار ہونے کے الزامات لگانے والی طالبہ کے خلاف جوابی مہم شروع کی جائے۔ بڑے دبدبے سے کہا: میں نے کہا تھا نہ کہ اگر کوئی باہر کا بندہ تمہیں مارے گا اسکے ہاتھ توڑ دوں گا۔ کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ کہا تھا نہ!’’ اب وی سی کی ایسے تڑی باز خطاب کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے
جو کسی دبنگ فلم کا سین ہی لگتا ہے۔ وائس چانسلر کے خلاف جنسی ہراسگی کی شکایات اس سے پہلے بھی کئی طالبات اور ان کے والدین کو رہی ہے،لیکن اسکی سربراہ کو مبینہ طور پرکہتے سنا گیا ہے وہ ارشد سلیم کیخلاف ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتی۔ اس کی گواہی سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ (سانا) کی نائب صدر اور نوابشاہ کی سب سے دیرینہ اور ممتاز شہریوں میں سے ایک ارشاد عباسی نے بھی سوشل میڈیا پر دی ہے۔ارشاد عباسی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی شکایتیں خود طالبات اور ان کے اعزا ان کے پاس لیکر آئے تھے جب وہ زیبسٹ نوابشاہ کی پرنسپل تھیں کہ موصوف طالبات کو ریسٹ ہائوس طلب کرتا ہے۔ لیکن جب اس کی شکایت طاقتور ادی سے کی گئی تووہ ایک لفظ بھی ارشد سلیم وی سی کے خلاف سننا نہیں چاہتی تھی۔ اسی پر وہ زیبسٹ چھوڑ کر آ گئی۔ ایک بینظیر بھٹو تھی کہ جب وزیراعظم تھی تو اسکی پارٹی کے ہی ایک ایم پی اے رحیم بخش جمالی کے ہاتھوں نوابشاہ پیپلز میڈیکل کالج کی نوجوان ڈاکٹر اور میرے دوست و موسیقار شاہد بھٹو کی بہن ڈاکٹر فوزیہ بھٹو کا قتل ہوا تھا جس پر بینظیر نے نہ فقط
اسی ایم پی او کو اپنی پارٹی سے نکال دیا تھا بلکہ اسکی گرفتاری کا حکم بھی دیا تھا۔لیکن یہاں الٹا چور اور کوتوال دونوں مظلوم طالبہ کو ہی ڈانٹ رہے ہیں۔ اب فرزانہ جمالی اور اسکے والدین کے خلاف مہم چلائی ہوئی ہے۔ وائس چانسلر طلبہ اور طالبات کو ہراساں کر کے مہم چلوانے کی کوشش کر رہا ہے۔ طالبہ نے جب اپنے ساتھ ہونیوالی جنسی ہراسگی کی شکایت اپنے والدین سے کی تو اسکا والد اور شاید چچا وی سی سے ملنے گئے۔ پہلے تو ان کو وی سی سے ملنے نہیں دیا گیا کیونکہ وائس چانسلر بھی خود کو گورنر سے کم نہیں کہلواتے ( جب ملے بھی تو سن کر یہ فرمایا کہ بقول طالبہ اس طرح کے واقعات یونیورسٹیوں میں ہوتے رہتے ہیں یہ کوئی بڑی بات نہیں)۔اس سے قبل سندھ یونیورسٹی میں طالبہ نائلہ رند کی خودکشی کا واقعہ بھی جنسی ہراسگی کا نتیجہ تھا۔ نائلہ رند کی خودکشی کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے وہاں جنسی ہراسگی کے یونٹ کو مزید فعال کرنے کی پبلسٹی کی۔ سندھ کے سابق آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ نے جنسی ہراسگی کے انسداد میں پولیس رپورٹنگ سینٹر قائم کیا۔لیکن جنسی ہراسگی کے غیر رپورٹ شدہ کیس آج تک سندھ یونیورسٹی میں سنے جا رہے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سمیت کراچی کی دیگر پبلک ،نجی یونیورسٹیوں و دیگر تعلیمی اداروں میں طالبہ، خواتین اساتذہ چاہے پروفیسروں کے ساتھ اس طرح کے کئی کیس رپورٹ ہوکر کھلے راز بنے ہوئے ہیں جن میں بدقسمتی سے اداروں کے سربراہوں سمیت بڑی برگزیدہ و شیطانی شخصیات ملوث ہیں لیکن ان اداروں نے ساتھ ہمیشہ جنسی ہراسگی میں ملوث ملزمان کا ہی دیا ہے۔ اور فریادی بیچاری نے مزید ’’بدنامی‘‘ اور انتقام کے خوف سے اپنی فریاد اور مقدموں سے ہی ہاتھ اٹھالیا اور کہیں روزگار اور مزید تعلیم سے محروم ہو بیٹھی ہیں۔ادھر ایک پروفیسر پر جنسی ہراسگی کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکا عہدہ گھٹانے کی سفارش کی گئی تھی لیکن پھر اسے وائس چانسلر بنادیا گیا۔ کئی سال ہوئے کہ ایک سابق وائس چانسلر اور ایک سابق وزیر تعلیم سمیت ایک ٹولہ جامشورو انجینئرنگ یونیورسٹی کے ریسٹ ہائوس میں ایک غیر ملکی طالبہ کے ساتھ جنسی ہراسگی میں ملوث تھے لیکن ان کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا۔