وہ افریقی ہے، سیاہ فام ہے، ناجائز راستوں سے فرانس پہنچا ہے اور سب سے بڑھ کر مسلمان ہے لیکن آج حالت یہ ہے کہ پورے فرانس نے اسے اپنا ہیرو قرار دے دیا ہے۔ ملک کے صدر نے اسے اپنے محل میں بلا یا ہے اور اسے فرانس کی شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔
ہوا یہ ہے کہ افریقی ملک مالی سے ترک وطن کرکے پیرس آنے والا محمدو گساما شہر کی ایک چار منزلہ عمارت کی بالکنی سے لٹکے ہوئے چھوٹے سے بچے کو بچانے کے لئے جان پر کھیل کر اوپر چڑھ گیا ۔ ساری دنیا نے ٹیلی وژن پر یہ منظر دیکھا کہ چار سال کا بچہ فلیٹ کی بالکنی سے لٹکا ہوا ہے اور نیچے ایک بے بس مجمع دم سادھے کھڑا ہے۔عین اسی لمحے محمدو وہاں سے گزرا۔ اس نے عمارت کی چوتھی منزل کی بالکنی سے لٹکے ہوئے بچّے کو دیکھا۔ ہم نے ویڈیو میں دیکھا کہ وہ ایک سے دوسر ی ، اور پھر تیسری اور چوتھی بالکنی پر لٹکتا ہوا بچے تک پہنچ گیا جس پر مجمع نے زور زور سے تالیاں بجائیں۔ جب تک فائر بریگیڈ وہا ں پہنچی، چار سالہ بچے کی جان بچائی جا چکی تھی ۔ ٹی وی پر یہ منظر دیکھ کر فرانس کے صدر میکرون نے محمدو کو قصر ایلیسی مدعو کیا۔ اسے بہادری کا تمغہ دیا، اور اعلا ن کیا کہ اسے ملک کی شہریت دی جائے گی۔ یہی نہیں، اس کو پیرس کی فائر بریگیڈ میں ملازمت بھی ملے گی۔محمدو گساما کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پچھلے سال بحیرہ رومکے راستے کشتی کا سفر کرکے مرتا کھپتا مالی سے اٹلی پہنچا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ وہ ادھر سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا بہت سے لوگ عمارت کے سامنے جمع ہیں۔ اس نے صدر میکرون کو بتایا کہ ’’مجھے سوچنے کی مہلت بھی نہیں تھی، میں دوڑ پڑا اور بچّے کی جان بچانے کے لئے عمارت پر چڑھ گیا۔خدا نے میری مدد کی۔ میں جتنا اوپر چڑھتا جاتا تھااتنی ہی میری ہمت بڑھتی جاتی تھی۔ بس یہ بات تھی‘‘۔اس نے بتایا کہ جس وقت اس نے بچّے کو تھاما، وہ رو رہا تھا اور اس کی ٹانگ زخمی تھی ۔فائر بریگیڈ والوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے وہاں ایک ایسا شخص پہنچا جو توانا تھا اور جس میں یوں عمارت پر چڑھ جانے کی ہمّت بھی تھی۔ حکام بتاتے ہیں کہ اُس وقت بچے کے والدین گھر پر نہیں تھے۔ پولیس نے باپ سے پوچھ گچھ کی ہے کیونکہ بچے کو گھر پر تنہا چھوڑنا جرم ہے۔ بچے کی ماں شہر سے باہر گئی ہوئی تھی۔ پیرس کی خاتون میئر بھی بائیس سالہ محمدو کی تعریف کرنے والوں میں شامل ہیں اور فون کر کے نہ صرف اس کا شکریہ ادا کیا ہے بلکہ اسے علاقے کا’ اسپائیڈر مین‘ اور شہریوں کے لئے مثال بھی قرار دیا ہے۔
اور اب آئر لینڈ کی بات جہاں پچھلے دنوں آپ نے سنا ہوگا کہ اسقاط حمل کو جائز قرار دینے کے سوال پر رائے شماری ہوئی۔ عوام نے ، خاص طور پر خواتین نے حمل ساقط کر نے کے حق میں بڑی اکثریت سے ووٹ دئیے۔ آئرلینڈ کٹّر رومن کیتھو لک مسیحی علاقہ ہے جس میں حمل ضائع کرنابالکل ممنوع تھا لیکن عوام جیت گئے اور اب وہاں کی خواتین کو حمل سے نجات پانے کے لئے کسی دوسرے علاقے میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن کیا آپ کو پتہ ہے کہ علاقے کے عوام اور خاص طو رپر خواتین میں قانون بدلنے کی لہر کس نے اٹھائی؟ ایک ہندوستانی لڑکی سویتا نے۔ یہ اکتوبر سنہ دو ہزار بارہ کی بات ہے، سویتا امید سے تھی لیکن اس کا حمل ضائع ہونے لگا اور جسم میں زہر پھیل گیا۔ اس نے التجا کی کہ حمل گرادیا جائے لیکن ڈاکٹروں نے انکار کردیا کیونکہ بچے کا دل حرکت کر رہا تھا۔ایک مڈوائف نے اس سے کہا کہ خاتون یہ کیتھولک ملک ہے، یہاں حمل ساقط نہیں ہو سکتا۔بعد میںاس کی موت کی عدالتی تفتیش میں اسی مڈوائف نے اپنی کہی ہوئی بات پر معافی مانگی اور کہا کہ چونکہ سویتا باہر کے ملک کی تھی اس لئے میں اسے یہاں کے قاعدے قانون سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اکتیس سالہ دندان ساز سویتا بھارت سے آکر آئرلینڈ میں آباد ہوئی تھی۔ اس کی المناک موت نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور آج چھ سال بعد رائے دہندگان نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ جمہوریہ آئرلینڈ کے آئین میں اسقاط حمل پر لگی ہوئی پابندی ختم کی جائے۔ سویتا کے ماں باپ جنوب مغربی بھارت کے شہر بیلگام میں رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب سویتا چین سے ہوگی کہ عوام نے اس کے رنگ اور نسل کی پروا کئے بغیر اس کے نام پر ایک ایسی مہم چلائی جو کامیابی سے ہمکنار ہوکر رہی۔ماں نے کہا ہے کہ میں ان لوگوں کی شکر گزار ہوں جنہوں نے میری بیٹی کی خاطر جنگ کی۔ باپ نے کہا کہ اب جو نیا قانون بنے گا اس کو سویتا کے قانون کا نام دیا جائے۔آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں سویتا کی یادگار قائم کردی گئی ہے جس پر لوگ صبح و شام پھول چڑھا رہے ہیں۔ان ہی دنوں ایک اور انکشاف ہوا۔ انگلستان کے بڑے صنعتی شہر شیفیلڈ نے اپنا جو ایک سو بائیسواں لارڈ مئیر چنا ہے اس کا نا م مجید مجید ہے۔ سیاہ فام ہے، افریقی ہے اور مسلمان ہے۔ یہ اس شہر کی خوبی ہے جس نے رنگ و نسل کوخاطر میں لائے بغیر ایک ایسے شخص کو لارڈ میئر مقرر کردیا جو پانچ سال کی عمر میں صومالیہ سے برطانیہ آیا تھا۔ وہ بلا کا ذہین تھا اور یونی ورسٹی میں تو اتنا سر گرم رہا کہ سب کی نگاہوں میں آگیا جس کے بعد اس نے نسل پرستی کے خلاف سماجی انصاف کی مہم کامیابی سے چلائی ۔ سنہ دوہزار سولہ میں وہ گرین پارٹی کے ٹکٹ پر کاؤنسلر منتخب ہوکر آج شہر کے لارڈ مئیر کے منصب پر فائز ہے۔ اور آخر میں ایک چھوٹی سی خبر۔ دنیا کی مشہور چائے اور کافی کی دکان اسٹاربکس نے برطانیہ میں اپنی ہزاروں شاخوں کے لاکھوں کے عملے کی تربیت شروع کی ہے۔ انہیں سکھایا جارہا ہے کہ بے دھیانی میں کہی جانے والی کون کون سی باتوں سے نسل پرستی کی بو آسکتی ہے اور گاہکوں سے بات کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ کسی نے شکایت کردی تھی۔ سارا عملہ لین حاضر ہوگیا ہے