لاہور (ویب ڈیسک) جن لوگوں کا خیال تھا کہ ان کی حکومت پہلی حکومت ہے جو ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے اب انہیں تھوڑا تھوڑا احساس ہونے لگا ہے کہ انہوں نے یہ شاعرانہ تعلی مار تو دی تھی لیکن گاڑی چلتی ہوئی نظر نہیں آتی، ورنہ مولانا فضل الرحمٰن سے رابطے کے لئے نامور صحافی قدرت اللہ چوہدری اپنے ایک تبصرے میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد میاں سومرو کی خدمات تو حاصل نہ کی جاتیں اور ان سیاسی نابالغوں میں سے کوئی سامنے آتا جو شب و روز مولانا کے خلاف بیانات دینا اپنا حق سمجھتے ہیں اور ان کاخیال ہے کہ مولانا کی سیاست تو دو وزارتوں کی مار ہے، بھئی اگر ایسا ہی ہے تو کیوں نہیں یہ دو وزارتیں پیش کر کے دیکھ لیا جاتا، محمد میاں سومرو کی خدمات مولانا فضل الرحمٰن سے رابطے کے لئے حاصل کی گئیں تو ان کی نگاہ انتخاب سومرو قبیلے کے ایک نوجوان پر پڑی جن کا اپنا سیاسی سفر تو زیادہ نہیں لیکن وہ اپنے والد خالد محمد سومرو کے قتل کے بعد سیاست میں آئے، اب ان کے صاحبزادے راشد محمود سومرو کے ذریعے مولانا فضل الرحمٰن سے رابطے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جن کا بالآخر مقصد تو یہی ہے کہ مولانا اسلام آباد کا لاک ڈاؤن پروگرام ملتوی کر دیں جس پر مولانا نہ صرف ڈٹے ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے اپنی گرفتاری کی صورت میں جس کی افواہیں بھی اڑائی جا رہی ہیں جماعت کے قائدین کی ایک فہرست بنا دی ہے جو اس لاک ڈاؤن کی قیادت کریں گے، یہ لاک ڈاؤن کا میاب ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا لیکن اب آپ کو حکومت کی جانب سے ایسی پھلجھڑیاں سننے کو نہیں ملتیں جن میں کہا جاتا تھا کہ یہ لاک ڈاؤن کرنا چاہتے ہیں تو کریں، کنٹینر ہم دیں گے شر کاء کو کھانا بھی ہم مہیا کریں گے شرکاء کو کھانا دینے کی وزیر اعظم کو خاص پریکٹس ہے جب انہوں نے 2015ء کے دھرنے کا آغاز کیا تھا تو پہلے یا دوسرے جلسے میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جائیں نہیں، دس ہزار لوگوں کے لئے کھانے کا آرڈر کر کے آیا ہوں لیکن اگر مولانا کا لاک ڈاؤن ہوا تو دس ہزار بندوں کے لئے آرڈر کیا جانے والا کھانا کم بھی پڑ سکتا ہے۔ اب وہ وزراء بھی خاموش ہیں جو اکثر و بیشتر، غیر سنجیدہ بیانات کی شہرت رکھتے ہیں اور اپنے ہر بیان میں مخالف کو خندہ استہزا کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ان کی عمریں اتنی نہیں جتنی مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی عمر ہے، ان کی داڑھی کالی سیاہ تھی جب وہ سیاست میں آئے تھے اب جبکہ ان کی ریش میں سے ایک سیاہ بال تلاش کرنابھی مشکل ہے انہیں وہ لوگ سیاسی مشورے دینے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی سیاست کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور کوئی سیاسی حادثہ انہیں میدان سیاست میں لے آیا ہے۔ لگتا ہے ”مین سٹریم“ کے نمایاں رہنماؤں کو مولانا سے رابطے میں ناکامی ہوئی ہے اسی لئے محمد میاں سومرو کا انتخاب کیا گیا ہے لیکن یقینی نہیں کہ انہیں اس سلسلے میں کوئی کامیابی ہو گی کیونکہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو ساتھ ہی ساتھ ”زندانیوں“ کی ”خدمات“ بھی اس مقصد کے لئے حاصل نہ کی جاتیں جن سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن کو روکیں، ان زندانیوں کا کہنا ہے کہ وہ مولانا کو ان کے طے شدہ پروگرام سے روکنے کی پوزیشن میں نہیں ویسے بھی انہوں نے سنا ہے یہ بھی باور کرا دیا ہے کہ آپ تو کہتے تھے مولانا دو وزارتوں کی مار ہیں تو پھر ادھر ادھر بھاگنے کی بجائے اور ”رابطے“ بحال کرنے کی بجائے سیدھے سبھاؤ دو وزارتیں دے کر ہی کام کیوں نہیں چلا لیا جاتا، بس دو وزارتیں پیش کریں اور لاک ڈاؤن ملتوی کرا لیں، یا پھر جیسے کیا جا رہا تھا کہ جو لوگ سڑکوں پر آئیں گے ان کو سبق سکھا دیا جائے گا تو پھر اب سبق سکھانے کی تیاری بھی کر لی جائے خواہ مخواہ زندانیوں کا احسان بھی کیوں لیا جا رہا ہے اورایسے نوجوان سیاسی کارکنوں کی خدمات کیوں حاصل کی جا رہی ہیں جو سینئر قائدین کے سامنے کوئی ایسا لائحہ عمل رکھنے کی پوزیشن میں نہیں جو کئی ماہ کے غور و فکر کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کئی مشاورتی اجلاسوں کے بعد طے کیا گیا ہے اور جسے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حمایت بھی حاصل ہے۔