پاکستان میں اب تک قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ کے الیکشن میں سب سے بڑا اپ سیٹ 1985ء میں سید فخر امام نے خواجہ صفدر کو شکست دیکر کیا تھا۔ واضح رہے کہ پارلیمانی تاریخ میں فخر امام ہی وہ واحد سپیکر تھے جن کیخلاف تحریک عدم اعتماد بھی کامیاب ہوئی تھی۔
تاریخی حقائق کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے 25 فروری 1985 کو غیرجماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کرائے۔ جنرل ضیاء کو یقین تھا کہ پارلیمنٹ کو ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے چلانے کیلئے وہ اپنا منظور نظر سپیکر آسانی سے منتخب کرالیں گے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر کیلئے الیکشن 22 مارچ 1985 کو ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنی مجلس شوریٰ کے سابق چیئرمین اور موجودہ رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف کے والد محترم خواجہ صفدر کو سپیکر شپ کیلئے امیدواور نامزد کیا جس کے تجویز اور تائید کنندگان میں شیخ رشید احمد، حامد ناصر چٹھہ، ڈاکٹر شیر افگن، الٰہی بخش سومرو، حاجی حنیف طیب، گوہر ایوب خان، ایم پی بھنڈارا اور شیخ روحیل اصغر سمیت 53 اراکین اسمبلی میں شامل تھے۔ دوسری طرف چند نئے اراکین اسمبلی نے سید فخر امام کو سپیکر کا الیکشن لڑنے پر تیار کر لیا۔ مگر جب خفیہ رائے شماری کا نتیجہ سامنے آیا تو سید فخر امام 119 ووٹ لیکر کامیاب ہوگئے جبکہ خواجہ صفدر نے 111 ووٹ حاصل کیے۔ جنرل ضیاء الحق اور حکومتی پنجوں کیلئے یہ بہت بڑا دھچکہ تھا۔ پاکستانی پارلیمانی تاریخ کے مطابق سید فخر امام ہی قومی اسمبلی کے وہ واحد سپیکر تھے جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی کامیاب ہوئی تھی۔
تحریک عدم اعتماد 26 مئی 1986 کو رانا نذیر احمد خان نے پیش کی جس کے حق میں 152 ووٹ جبکہ مخالفت میں 72 ووٹ پڑے اور سید فخر امام فارغ ہو گئے۔ بعد ازاں 29 مئی 1986 کو سپیکر کا الیکشن ہوا جس میں حکومتی امیدوار حامد ناصر چٹھہ 176 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ سردار آصف احمد علی اور شیخ رشید احمد نے دو دو ووٹ حاصل کیے تھے۔دوسری جانب ایک خبر کے مطابق اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے الیکشن میں تحریک انصاف اور اپوزیشن کے درمیان پہلا ٹاکرا آج ہوگا، دونوں طرف کے امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں۔ خفیہ ووٹنگ کے باعث تحریک انصاف کیلئے اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانا کسی کڑے امتحان سے کم نہیں اور اسے اپنے خریدے گھوڑے بدکنے کا خوف بھی ستا رہا ہے۔ فواد چوہدری نے ایک بیان میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ کا واویلا بھی کیا تھا۔ پی ٹی آئی ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمارے کچھ ایم این ایز سے رابطے کئے گئے ہیں، جن کی تحقیقات کررہے ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے بھی کوشش کی جارہی ہے کہ 1985 کی تاریخ دہرائی جائے، جب قومی اسمبلی میں اس وقت کے صدر ضیاالحق کی آشیر باد سے اکثریتی گروپ کے نامزد امیدوار خواجہ صفدر (خواجہ آصف کے والد) اسپیکر کا انتخاب ہار گئے تھے اور آزاد گروپ کے حمایت یافتہ فخرامام اسپیکر منتخب ہوگئے تھے۔ فخرامام کو 1986 میں تحریک عدم اعتماد لاکر ہٹایا گیا تھا اور حامد ناصر چٹھہ اسپیکر بنے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1985 کے بعد فخرامام پہلی مرتبہ قومی اسمبلی پہنچے ہیں۔ انہوں نے الیکشن آزاد حیثیت سے لڑا تھا اور منتخب ہونے کے بعد وہ تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں۔اپوزیشن امیدوار خورشید شاہ کی کامیابی کے لئے مفاہمت اور جوڑ توڑ کے بادشاہ آصف زرداری خود ارکان اسمبلی اور مختلف جماعتوں سے رابطے کررہے ہیں۔