لاہور( ویب ڈیسک) الزام ہے کہ قومی احتساب بیورو کی طرف سے گرفتار کئے گئے سرگودھایونیورسٹی لاہور کیمپس کے چیف ایگزیکٹوآفیسر پروفیسر میاں محمد جاوید اپنی گرفتاری کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ہیں ، یہ ایک بڑی خبر ہے اور یہ زیادہ بڑی خبر اس وجہ سے بنی ( نامور صحافی نجم ولی خان اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں) کہ پروفیسر صاحب کے انتقال کے بعد بھی ان کی ہتھکڑیاں نہیں اتاریں گئیں اور سوشل میڈیا پر ملنے والی اطلاعات کے مطابق مرحوم پروفیسر کے لواحقین نے اعلان کیا ہے کہ وہ انہیں احتجاجاً ہتھکڑیوںسمیت ہی دفن کریں گے ،اس سے پہلے مرنے والوں کو مختلف پارٹیوں کے پرچموں میں تو دفن کیا جاتا رہا ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ یقینی طور پر نیب کی تاریخ کا ایک یادگار، انوکھا اور روایت شکن واقعہ ہو گا جو موجودہ دور میں جاری احتساب کے عمل کو ناقابل فراموش بنا دے گا ۔نیب کے ترجمان بہت متحرک ہیں، مجھے ان کی کارکردگی کی داددینی ہے کہ وہ معمول کے کسی بھی سرکاری ادارے حتیٰ کہ پولیس اور ایف آئی اے کے ترجمانوں سے کہیں مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے اس تاثر کی دوٹوک انداز میں نفی کی ہے کہ پروفیسر جاوید کا انتقال نیب کی تحویل میں ہوا ۔ ابتدائی طور پر میرا اس پر ردعمل ایک سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ کی رائے سے ملتا جلتا تھا کہ جب نیب نے کچھ الزامات پر پروفیسر محمد جاوید کو گرفتار کیا اور اسی گرفتاری میں وہ انتقال کر گئے تو کیا نیب نے انہیںمُردہ حالت میں ہی گرفتار کیا تھا یا ا س دوران وہ نیب کی تحویل سے فرارہونے میں کامیاب ہو گئے تھے اور انتقال کرجانے کے بعد انہوں نے رضاکارانہ طور پر ہتھکڑیاں پہن لی تھیں، ایک امکان یہ بھی تھا کہ پروفیسر صاحب اپنے انتقال کے بارے میں جھوٹ بول رہے ہوں کہ ان پر نیب کے ترجمان کے مقابلے میں اعتماد نہیں کیا جا سکتا مگر پھر تفصیلی بیان نے واضح کیا کہ مرحوم کو زندہ حالت میں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کر دیا گیا تھا لہٰذا ہتھکڑیوں سے موت تک کا سب معاملات کی ذمہ داری نیب نہیں بلکہ جیل حکام پرہے۔یہ واقعاتی طورپر درست ہے مگر اصولی طور پر یہ بات بھی درست ہے کہ پروفیسر صاحب کو جیل حکام نے نہیں بلکہ نیب نے گرفتار کیا تھا او روہ مرنے تک جیل حکام نہیں بلکہ نیب ہی کے ملزم تھے۔پروفیسر جاوید کی موت نیب کے گلے میں اسی طرح پڑ گئی ہے جس طرح پولیس کی طرف سے گرفتار کئے گئے کسی بھی ملزم کی موت متعلقہ تھانے دار کے گلے پڑجاتی ہے۔ جب بھی نیب کی تاریخ لکھی جائے گی اس میں نہ صرف استادوں کو لگی ہوئی ہتھکڑیاں بیان ہوں گی بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے ہتھکڑیاں لگے ہوئے نیب کے ملزم اس پروفیسر کی موت کا بھی ذکر ہو گا۔میرے خیال میں نیب کو اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے پروفیسر صاحب کے لواحقین کو ہتھکڑیاں اتروانے پر مجبور کرنا چاہئے ورنہ نیب کے قا نون میں اتنی گنجائش تو موجود ہے کہ وہ انکوائری کے نام پر پروفیسر صاحب کے لواحقین کو گرفتار کر لے۔ اب آپ حیران ہوں گے کہ نیب کے پاس یہ اختیار کیوں ہے کہ وہ کسی کو بھی محض الزام لگنے پر گرفتار کر لے چاہے اس کے پاس کوئی ثبوت موجود ہوں یا نہ ہوں، یہ دلچسپ قانون ہے کہ نیب ثبوت حاصل کرنے کے لئے بھی گرفتار کر سکتا ہے ۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نیب کے قانون میں انہی خامیوں کو دور کرنے کے بارے میں فائل کو اپنے دفتر میں دبا کے بیٹھے رہے جس میں نیب پر یہ کوئی بار نہیں کہ وہ ملزم پر الزام ثابت کرے بلکہ اس کا کام الزام لگانا ہے اور پھر یہ ذمہ داری ملزم کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرے۔ یہ سو فیصد وہی عظیم نظریہ ہے جو ہمارے وزیراعظم محترم عمران خان نے کنٹینر پر بیان کیا تھا کہ ان کا کام بطور اپوزیشن الزام لگانا ہے جبکہ ان کے مخالفین کا کام اپنی صفائیاں دینا ور بے گناہی ثابت کرنا ہے۔ نیب کے اسی قانون کی رو سے چیئرمین نیب کی رضامندی سے کوئی بھی ملزم انکوائری کے لئے گرفتار کیا جا سکتا ہے اور یہ سوفیصد صوابدیدی عمل ہے کہ کس ملزم کو گرفتار کرنا ہے اور کس کو نہیں، ہاں، اب تک کی روایات کے مطابق ایک فارمولہ بن چکا ہے کہ نواز لیگ کا ہر ملزم گرفتار ہو گا اور تحریک انصاف کا نہیں، اس قانون کے مطابق نواز لیگیوں کو مزید سہولت یہ ہے کہ نوے روز تک ضمانت بالکل نہیں ہوسکتی، یہ سہولت اس لئے فراہم کی گئی ہے کہ وہ اپنی مصروف زندگی کی تھکان اتار سکیں