کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی کا راز تعلیم میں مضمر ہے اور کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ تعلیمی میدان میں ترقی نہ کر لے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان کے حکمران اورمتعلقہ ادارے اس کے بالکل برعکس ہیں۔
ایک ملک جہاں کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں وہاں تعلیمی نظام دنیا کا مہنگا ترین نظام ہے۔ یہاں اربوں روپے مالیت سے بننے والی ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلمیں ہزاروں ویب سائٹس پر مفت میں دیکھی جا سکتی ہیں مگر تعلیمی نصاب کی کتب ہزاروں روپے میں بکتی ہیں۔ الیکشن مہم کو مؤثر بنانے کے لئے لیپ ٹاپ تو مفت میں دیے جا رہے ہیں مگر سرکاری جامعات کی فیسوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پنجاب بھر میں مفت انٹرنیٹ کی فراہمی اور اس کے استعمال کے لئے با قاعدہ آگاہی مہم چلائی جا سکتی ہے لیکن سکولوں سے باہر بیٹھے بچوں کو سکول میں داخل کروانے کے لئے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔
اسی طرح پاکستان کی جامعات ہماری ناقص پالیسیوں کی وجہ سے دن بدن تنزلی کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔ برطانیہ کے ادارے ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی جانب سے جاری ہونے والی رینکنگ کے مطابق پاکستان کی صرف 3 جامعات دنیا کی بہترین 1000 جامعات میں جگہ بنا سکی ہیں جبکہ پہلی 500 میں صرف ایک قائد اعظم یونیورسٹی شامل ہے۔ یہ بات بھی ہم سب جانتے ہیں کہ قائد اعظم یونیورسٹی نے یہ مقام اپنے دم پر حاصل کیا ہے۔ کیو ایس کی جانب سے جاری کردہ جامعات کی درجہ بندی میں بھی پاکستانی جامعات کی پچھلے سال کی نسبت کار کردگی اس سال غیر تسلی بخش رہی۔ اس سال جامعات کی گرتی ہوئی رینکنگ کے علاوہ بھی اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ تعلیمی نظام کو سنوارنے کے لئے تشکیل دیے جانے والے ہائر ایجو کیشن کمیشن نے بہت کچھ کھو دیا ہے جنہیں تفصیل سے بیان کروں تو شاید پوری کتاب لکھنی پڑے۔ اس لئے قارئین کو صرف جھلکیوں سے ہی کام چلانا پڑے گا۔
پاکستان میں منظور شدہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد 186 سے تجاوز کر گئی جبکہ 150 سے زائد غیر قانونی ادارے بھی ہائر ایجو کیشن کمیشن کا منہ چڑا رہے ہیں۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی اور وفاقی ہائر ایجو کیشن کمیشن کے مابین کش مکش جاری رہی اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے سات سال گزرنے کے باو جود اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں صوبوں کو ان کے آئینی اختیارات حاصل نہ ہو سکے۔
اعلیٰ تعلیمی سال 2017 میں وفاقی ہائر ایجو کیشن کمیشن جو کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے تشکیل دیا گیا تھا کے گورننگ بورڈ کا کوئی بھی اجلاس منعقد نہ ہو سکا جبکہ اہم پالیسی ساز فیصلوں میں بھی گورننگ بورڈ اور وزیر اعظم پاکستان کو بطور کنٹرولنگ اتھارٹی نظر انداز کر دیا گیا۔
ہائر ایجو کیشن کمیشن نے دعویٰ کیا کہ وہ غریب اور بے روز گار نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم اور روزگار میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ این ٹی ایس کے مقابلے میں نیشنل ٹیسٹنگ کونسل کا قیام عمل میں لائیں گے۔ اس حوالے سے تفصیلی پریس کانفرنس ہوئی،لاکھوں روپے کے خرچے کر کے تقریبات کا انعقاد بھی کیا گیا مگراس اہم فیصلے میں بھی گورننگ باڈی کی منظوری نہ لی گئی جس کی وجہ سے سارا کھیل کھٹائی میں پڑ گیا اور یہ فیصلہ بھی سرد خانوں کی نظر ہو گیا۔
ہائر ایجو کیشن کمیشن نے سبز باغ دکھا کر اربوں روپے کا ترقیاتی بجٹ متعلقہ اداروں سے جاری کروا لیا مگر غیر مؤثر نگرانی کے نظام کی وجہ سے جاری کردہ ترقیاتی بجٹ کی 49 فیصد رقم ہی بروئے کار لائی جا سکی جسکا ذکر آڈٹ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔
کامسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اور لنکاسٹر یونیورسٹی کے مابین دوہرے ڈگری کیس پر عدالتوں اور مشترکہ مفادات کونسل کے واضح فیصلوں کے باوجود 2400 سے زائد طلباء کو دوہری ڈگری جاری کرنے کے حوالے سے فیصلہ نہ ہو سکا اور یہ ہزاروں گریجویٹس آج تک ہائر ایجو کیشن کمیشن کے باہر سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے ایک اہم آئینی دخواست پر فیصلہ صادر کیا کہ وفاقی ایچ ای سی کو مشترکہ مفادات کی کونسل کے ماتحت کر دیا جائے اور 6 ماہ کے اندر تمام اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں طے کردہ معیارات کی منظوری مشترکہ مفادات کی کونسل سے لی جائے لیکن چھ ماہ گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت اس اہم فیصلے پر عمل در آمد کروانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے کامسیٹ او ر ایچ ای سی کے مابین تنازعات جیسے کئی اور معاملات التواء کا شکار ہیں ۔
سینٹ آف پاکستان کی متفقہ قرار دار کی منظوری کے باوجود سٹوڈنٹ یونین کی بحالی نہ ہو سکی جس کے باعث پاکستان کی کئی بڑی جامعات جن میں قائد اعظم یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی بھی شامل ہیں شدت پسندی اور گروپ بندیوں کا شکار رہیں۔
وفاقی ہائر ایجو کیشن کمیشن کی کار کردگی بھی پورا سال شدید تنقید کا ہدف رہی۔ آل پاکستان فیڈریشن آف یونیورسٹیز اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز نے وفاقی ایچ ای سی کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں بھی پاکستان میں اعلیٰ تعلیی شعبے کو شدید انتشار میں مبتلا قرار دیا۔
اس سال یہ بھی انکشاف ہوا کہ ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بذات خود چربہ سازی میں ملوث ہیں جبکہ وفاقی ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کی تقرری تعلیمی اہلیت اور پروفیسر کے ٹائٹل کے استعمال کے خلاف عدالتوں میں سماعت جاری ہے۔
ہائر ایجو کیشن کمیشن 2017 میں بھی اپنی سالانہ رپورٹ شائع کرنے میں ناکام رہا۔
2017ء میں پاکستان کی 20 سے زائد جامعات بغیر وائس چانسلر کے ہی چلتی رہیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں بغیر ڈرائیور گاڑی صرف منزل مقصود تک پنہچانے میں ہی ناکام نہیں ہوتی بلکہ تباہی اور بربادی کا باعث بھی بنتی ہے۔
میں نے ہائر ایجو کیشن کمیشن کے پندرہویں یوم تشکیل پر ایک کالم/بلاگ میں ذکر کیا تھا کہ ایچ ای سی کی پالیسیوں اور انتظامی امورکے لئے ایک18رکنی گورننگ بورڈ بنایا جاتا ہے جس کی تشکیل کا عمل گزشتہ چار سال یعنی جب سے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر مختار اس منصب پر فائز ہیں تب سے رکا ہوا ہے اور وہ تمام فیصلے جو 18 رکنی گورننگ بورڈ نے کرنے ہوتے ہیں آج کل انفرادیت کا شکار ہیں جو ایچ ای سی کی بربادی کاایک بڑا سبب ہے ۔اس حوالے سے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ موجودہ چیئرمین ایچ ای سی مشوروں کے قائل نہیں ہیں اس لئے وہ کسی گورننگ بورڈ یا دیگر ماہرین کی رائے سے اجتناب برتتے ہیں۔
ماہرین تعلیم نے ہائر ایجو کیشن کمیشن کی ان مسلسل ناکامیوں اور پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی میدان میں تنزلی کا ایک سبب یہ بھی بتایا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اگر صرف تعلیمی اداروں کی معاونت تک محدود رہتا تو بہت مناسب تھا اور اعلیٰ تعلیمی میدان میں کافی بہتری بھی ہو سکتی تھی مگر ایچ ای سی نے اپنا ا صل کام چھوڑ کر دیگر کئی غیر ضروری کاموں میں مداخلت شروع کر دی ہے جس کی ایک بڑی مثال ہمارے پاس ایچ ای سی کا کامسیٹس یونیورسٹی کے ساتھ دوہری ڈگری تنازعہ ہے۔
ماہرین تعلیم کے مطابق ایچ ای سی کی ناکامیوں کا ایک بڑا سبب وفاقی ایچ ای سی کا صوبائی ایچ ای سی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ ہونا بھی ہے کیونکہ اس وقت پاکستان میں پرائیویٹ اور سرکاری 186 یونیورسٹیز اور 100 سے زائد سب کیمپسز ہیں جن کی ڈویلپمنٹ اور معاونت کے لئے یقیناً ایچ ای سی کو اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والی صوبائی جامعات کے ساتھ مسلسل کو آرڈینیشن کی اشد ضرورت ہے اورایک مشترکہ ٹھوس لائحہ عمل بنانے کی بھی ضرورت ہے جو تمام صوبائی اور وفاقی ایچ ای سی پالیسیز پر عمل در آمد کروانے میں معاون ثابت ہو۔
اس وقت اعلیٰ تعلیمی حلقوں میں ہائر ایجو کیشن کمیشن کی مسلسل ناکامیوں کو لے کر انتہائی تشویش پائی جارہی ہے۔ جامعات کی عالمی رینکنگ، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ اور بالخصوص جامعات سے فارغ التحصیل نوجوانوں کی بے روزگاری کے اسباب کے حوالے سے جاری ہونے والی رپورٹس نے پوری قوم کو مایوسی کا شکار کر رکھا ہے۔ ایسے میں ہائر ایجو کیشن کمیشن کو چاہئے کے فی الفور تمام غیر ضروری کاموں سے جان چھڑوا کر صرف اور صرف ایک معاون ادارے کا کردار ادا کرے۔ جامعات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لئے انہیں مطلوبہ فنڈز فراہم کئے جائیں۔ تعلیمی نصاب کو ملازمت فراہم کرنے والے اداروں کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے اوروہ تمام منصوبہ جات جن کے نام پر ہر سال اربوں کا فنڈ جاری ہوتا ہے، ان کی تکمیل کے لئے صوبائی ہائر ایجو کیشن کمیشن اور باقی تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ٹھوس حکمت عملی بنائے تاکہ اعلیٰ تعلیمی سال 2018 کے اختتام پر ہم مایوسیوں کے بجائے خیر اور خوشخبریاں بانٹنے والوں میں سے ہوں۔ دعا ہے کہ ہمارا 2018ء جہالت کے اندھیروں کا سال نہ ہو بلکہ علم کی روشنیوں سے منور ہو۔