کراچی: ہمیں بڑی شکایتیں رہتی ہیں، ہم قدم قدم پر شکاتیں کرتے ہیں کہ ملک میں کیا ہورہا ہے، جو کچھ برا ہورہا ہے اس کا ذمہ دار منتخب سیاسی رہنماؤں کو ٹھہراتے ہیں گلی محلے کے مسائل سے لے کر بڑے قومی معاملات پر جو کچھ برا ہورہا ہے ان کا غصہ ہم سیاسی رہنماؤں پر اتارتے ہیں، شکوے کرتے ہیں، ناراض ہوتے ہیں کہ غریب پس رہا ہے اسے انصاف نہیں ملتا لیکن کیا ہم نے یہ سوچا ہے کہ اگر سیاسی رہنماؤں کے وعدے سے آپ کو کچھ نہیں ملا تو آپ کے شکوے شکایتوں سے ان پر کیا فرق پڑے گا، کہیں نہ کہیں نظام کی خرابی میں ہمارا بھی تو حصہ ہے، ہمارے گلے شکوے سے نظام بہتر نہیں ہوسکتا، فرق تو ہمارے ووٹ دینے یا نہ دینے سے پڑتا ہے، ہمارے انتخاب سے فرق پڑتا ہے، ہم ووٹ نہیں دیتے تو صحیح امیدوار کو نہ چن کر غلط امیدوار کو منتخب ہونے کا موقع دیتے ہیں، اگر ووٹ دیتے ہیں تو ایسے لوگوں کو منتخب ہونے سے روک سکتے ہیں جنہیں آپ ملک چلانے کیلئے بہتر نہیں سمجھتے، ایسے لوگوں کو روک سکتے ہیں جو ملک کی فلاح کیلئے نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے لئے سوچتے ہیں اور آپ ایسا سمجھتے ہیں، آج پچیس جولائی ہے، عام انتخابات کا دن ہے، انتخابات کے دن سب سے اہم کردار ووٹرز کا ہی ہوتا ہے، آئندہ پانچ سال تک کون آپ کی نمائندگی کرے گا اس کا فیصلہ آ پکو کرنا ہے، اس بات پر نہ الجھیں کہ کیوں ووٹ دیں کیا فرق پڑتا ہے، اگر میں اکیلا ووٹ نہیں دوں گا تو کیا فرق پڑ جائے گا ووٹ دیدوں گا تو کیا فرق پڑ جائے گا، آپ کے ووٹ سے بہت کچھ ہوسکتا ہے، ووٹ ضرور دیں جسے بہتر سمجھتے ہیں اسے دیں، اپنا قومی فریضہ ادا کریں تاکہ زیادہ ٹرن آؤ ٹ ہو، اکثریت کی رائے کے بعد کوئی منتخب ہو، 2013ء کے انتخابات میں لوگوں کی اچھی تعداد باہر نکلی، 55 فیصد لوگوں نے ووٹ دیا لیکن 45 فیصد لوگوں نے پھر بھی ووٹ نہیں دیا، اگر آپ لاتعلق رہیں گے تو پھر شکوے کرتے رہیں گے، آپ نے ووٹ دینا ہے اور اپنی اور اپنے ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے۔ سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ حنیف عباسی کے ساتھ رات کے آخری پہر جو ہوا اس نے ن لیگ کے علاوہ دیگر جماعتوں اور غیرجانبدار لوگوں کو بھی ہلادیا،
ن لیگ سے شدید نفرت کرنے والوں نے بھی حنیف عباسی کی سزا کے بعد ن لیگ کو ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے، جن لوگوں نے بھی یہ کام کیا انہوں نے نواز شریف کے بیانیے کو تقویت دی ہے، ن لیگ تمام ججوں کو ایک نظر سے نہیں دیکھے شیخ رشید کو عدالت سے ریلیف نہ ملنے سے ثابت ہوتا ہے کہ عدلیہ بطور ادارہ پارٹی نہیں ہے۔ حامد میر نے بتایا کہ حنیف عباسی پر کیس اس لئے بنا تھا کہ انہوں نے 2012ء میں میرے پروگرام کیپٹل ٹاک میں کچھ گفتگو کی تھی، اس کے بعد مجھے کہا گیا تھا کہ اب اسے نہیں چھوڑیں گے اس پر کیس بنائیں گے اور ان پر وہ کیس بنا، ن لیگ کی حکومت نے بھی حنیف عباسی کی مدد کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ نواز شریف کی حکومت کے دوران ان کیلئے مزید مسائل پیدا ہوئے اور ان کے ساتھ ڈبل گیم کی جاتی رہی۔حامد میر نے کہا کہ مختلف سرویز دیکھیں تو معلق پارلیمنٹ نظر آتی ہے لیکن ووٹرز کل بڑی تعداد میں نکلتا ہے تو یہ سب غلط ثابت ہوسکتا ہے، کچھ امیدواروں نے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کا طریقہ سکھانے کیلئے باقاعدہ ان کی تربیت بھی کی ہے، عمرکوٹ میں یوسف تالپور نے عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا طریقہ سکھانے کیلئے فرضی بیلٹ پیپرز چھپوائے تھے لیکن ان کے لوگوں کو جعلی بیلٹ پیپرز کے الزام میں بند کردیا گیا۔حامد میر نے کہا کہ پیپلز پارٹی سندھ میں اکثریت حاصل کرسکتی ہے لیکن لگتا ہے انہیں سندھ میں دبانے کی کوشش کی جارہی ہے پنجاب میں ن لیگ کی بھی یہی صورتحال ہے جس میں ان کی اپنی غلطیاں بھی ہیں، ن لیگ نے جنوبی پنجاب میں غلط لوگوں کو ٹکٹ دیئے جو جیپ پر چڑھ گئے، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو سادہ اکثریت نہیں ملے گی، تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کیلئے اتحادی تیار کرنا پڑیں گے، بلوچستان کے بارے میں بھی یہ تاثر درست نہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی وہاں سوئپ کررہی ہے، بلوچستان میں مختلف علاقوں میں مختلف جماعتوں کی حمایت ہے۔ سینئر تجزیہ کار طلعت حسین نے کہا کہ صرف بیس فیصد نشستوں سے متعلق حتمی پیشگوئی کی جاسکتی ہے لیکن 80 فیصد نشستوں پر مقابلہ بہت کلوز ہے، نواز شریف کی وطن واپسی اور حنیف عباسی کی سزا نے پنجاب میں ن لیگ کو کافی متحرک کیا ہے، ن لیگ کو انتخابات میں اپنی پارٹی کی تنظیم اور متحرک ووٹرز کا ایڈوانٹج حاصل ہوگا، نواز شریف کے بیانیے کو تقویت دینے میں حنیف عباسی کی سزا نے اہم کردار ادا کیا، حنیف عباسی کو سزا کی وجہ سے شیخ رشید کو دوسرے حلقے میں بھی سخت مشکل کا سامنا ہے، پی ٹی آئی پچھلے پانچ سال ن لیگ کیخلاف مہم چلاتی رہی اس لئے ان کے پاس انتخابی نعرے نہیں ہیں اس کے برعکس ن لیگ کے پاس کافی انتخابی نعرے جمع ہوگئے ہیں۔ طلعت حسین کا کہنا تھا کہ انتخابات میں بہت سے حلقوں پر کانٹے کے مقابلے ہوں گے، لوگ بہت کم مارجن سے جیتتے اور ہارتے نظر آئیں گے، صرف بیس فیصد نشستوں سے متعلق حتمی پیشگوئی کی جاسکتی ہے لیکن 80 فیصد نشستوں پر مقابلہ بہت کلوز ہے، ووٹرز ٹرن آؤٹ بڑھانے کیلئے پولنگ کا وقت بڑھادیا گیا ہے۔ طلعت حسین نے کہا کہ پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی، تھر،گھوٹکی اور عمر کوٹ میں پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نشستیں نکلیں گی جبکہ سندھ کے کچھ علاقوں میں انہیں سخت مقابلے کا بھی سامنا ہوگا، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو سادہ اکثریت حاصل ہوسکتی ہے لیکن امکان مخلوط حکومت کا بھی ہے، پنجاب میں ن لیگ چھوٹی سیٹو ں پر ابھی بھی اطمینان بخش پوزیشن رکھتی ہے۔ بیورو چیف جیو نیوز ملتان شہادت حسین نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملتان میں انتخابی مقابلے بہت سخت ہیں، زیادہ تر سیٹوں پر مقابلہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہے لیکن یوسف رضا گیلانی کے حلقہ میں پیپلز پارٹی بھی سخت مقابلہ کررہی ہے۔ نجی نیوز کے نمائندہ پشاور نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف کو چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا، این اے 31 پر سب سے زیادہ کانٹے کا مقابلہ ہے جہاں اے این پی کے حاجی غلام بلور اور پی ٹی آئی کے حاجی شوکت آمنے سامنے ہیں،این اے 29 پر ن لیگ کے امیر مقام کو بھی سخت مقابلے کا سامنا ہے۔نمائندہ جیو نیوز راولپنڈی ارشاد قریشی نے کہا کہ حنیف عباسی کی نااہلی اور سزا کے بعد ن لیگ کی تمام تر توجہ این اے 62 پر ہے، حنیف عباسی کی سزا کے بعد ن لیگ کا ووٹر بہت چارج ہوا ہے، این اے 62 اور چوہدری نثار کے این اے 59 میں سخت مقابلہ کی توقع ہے۔نمائندہ جیو نیوز لاہور زاہد شیروانی نے کہا کہ لاہور میں ن لیگ اور تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں کے کارکن چارج نظر آرہے ہیں، توقع کی جارہی ہے کہ کل لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کیلئے نکلیں گے۔نمائندہ جیو نیوز کراچی کاشف مشتاق نے کہا کہ کراچی اس دفعہ کسی ایک جماعت کا نہیں رہامختلف جماعتیں یہاں زور دکھارہی ہیں، کراچی میں ایم کیو ایم کے علاوہ دیگر جماعتوں کو بھی نشستیں مل سکتی ہیں۔نمائندہ جیو نیوز کوئٹہ ندیم کوثرنے کہا کہ بلوچستان میں الیکشن کی گہما گہمی دھیمی نظر آرہی ہے۔نمائندہ جیو نیوز سکھر یاسر فاروقی نے کہا کہ سکھر ماضی میں پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوتا تھا مگر اب یہاں پی ٹی آئی بھی بڑی تعداد میں نظر آرہی ہے، انتخابی مہم کے آغاز میں سکھر میں پیپلز پارٹی کے کارکنان اور جیالے روٹھے نظر آئے جنہیں خورشید شاہ نے منایا۔