تحریر : محمد اشفاق راجا
پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ آئینی تقاضے کے تحت الیکشن کمیشن کے چار ارکان کا تقرر اور عمران خان کا اس پر بھی اعتراض پاکستان الیکشن کمیشن کے چار ارکان کے تقرر کا گزشتہ روز نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا جس کے مطابق پنجاب سے جسٹس (ر) ابراہیم قریشی’ سندھ سے عبدالغفار سومرو’ بلوچستان سے جسٹس (ر) خلیل بلوچ اور خیبر پی کے سے خاتون جسٹس (ر) ارشاد قیصر کا بطور رکن الیکشن کمیشن تقرر عمل میں لیا گیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمدرضا نئے ارکان سے حلف لیں گے۔ ان چار میں سے دو ارکان اڑھائی سال بعد ریٹائر ہو جائینگے جن کے ناموں کا فیصلہ قرعہ اندازی سے کیا جائیگا۔ متذکرہ چاروں ارکان کی منظوری پارلیمانی کمیٹی نے دی جس کی روشنی میں وزیراعظم نوازشریف نے نوٹیفکیشن کے اجراء کیلئے صدر مملکت ممنون حسین کو سمری بھجوائی اور گزشتہ روز صدر مملکت نے اس سمری پر دستخط کردیئے۔
الیکشن کمیشن کیلئے تقرر پانے والے تین ارکان متعلقہ صوبوں کی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں جبکہ سندھ سے تقرر پانے والے الیکشن کمیشن کے رکن ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں پاکستان تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی نے پنجاب اور خیبر پی کے سے نئے منتخب ہونیوالے دو ارکان کے ناموں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان ارکان کے بارے میں ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔ اس بنیاد پر پارلیمانی کمیٹی میں موجود ان دونوں جماعتوں کے ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا چنانچہ پارلیمانی کمیٹی نے کثرت رائے سے متذکرہ چاروں ارکان کے ناموں کی منظوری دی۔
پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے تحریک انصاف اور اے این پی کے اعتراضات کو بلاجواز قرار دیا اور میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ارکان کا تقرر باہمی مشاورت سے ہی عمل میں آیا ہے۔ انکے بقول عمران خان چونکہ اپوزیشن لیڈر نہیں ہیں اس لئے ان سے مشاورت کی ضرورت نہیں تھی۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی تحریک انصاف کے تحفظات کو بلاجواز قرار دیا اور بتایا کہ متذکرہ چاروں ارکان کیلئے تحریک انصاف کے مخدوم شاہ محمود قریشی کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے الیکشن کمیشن کے ارکان کیلئے 12, 12 نام تجویز کئے گئے تھے جن میں سے باقاعدہ ووٹنگ کے ذریعہ چار ارکان کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے۔
ماضی میں وزیراعظم خود چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دوسرے ارکان کا تقرر عمل میں لاتے تھے جس کے باعث انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کا ملبہ بالعموم الیکشن کمیشن پر ہی گرتا اور حکومت بھی الیکشن کمیشن کے تقرر کی مجاز اتھارٹی ہونے کے ناطے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی زد میں رہتی جبکہ ان الزامات میں کافی حد تک صداقت بھی ہوتی تھی۔ اسی پس منظر میں حکومتی اور اپوزیشن قائدین نے ایک خودمختار الیکشن کمیشن کی ضرورت محسوس کی تاکہ انتخابی دھاندلیوں کے کلچر سے نجات مل سکے۔ اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے سابق دور حکومت میں خودمختار الیکشن کمیشن کی آئینی شق کو بھی 18ویں آئینی ترمیم کا حصہ بنایا گیا جس کے تحت وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر اور دوسرے ارکان کے تقرر کا طریق کار طے ہوا۔
اسی ترمیمی آئینی شق کے تحت جسٹس فخرالدین جی ابراہیم اور الیکشن کمیشن کے دوسرے ارکان کا تقرر عمل میں آیا جن پر تحریک انصاف سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں نے اتفاق رائے کا اظہار بھی کیا تاہم اس الیکشن کمیشن کے تحت ہونیوالے مئی 2013ء کے عام انتخابات کے حوالے سے سب سے زیادہ انتخابی دھاندلیوں کے الزامات عمران خان کی جانب سے عائد کئے گئے جنہوں نے الیکشن کمیشن کی خودمختار حیثیت کو چیلنج کیا اور قومی اسمبلی کے چار حلقوں کے ڈالے گئے ووٹوں کی سکروٹنی اور دوبارہ گنتی کا تقاضا کیا۔ اس الزام کی بنیاد پر ہی انہوں نے حکومت مخالف لانگ مارچ اور دھرنا تحریک کا آغاز کیا اور چیف الیکشن کمشنر پر عامیانہ انداز میں الزامات کی بوچھاڑ کردی جس سے زچ ہو کر جسٹس فخرالدین جی ابراہیم چیف الیکشن کمشنر کے منصب سے مستعفی ہو گئے۔
انکے بعد الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان تحریک انصاف کے الزامات کی زد میں رہے اور اسکی حکومت مخالف دھرنا تحریک کے دبا? میں آکر حکومت نے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جس کی رپورٹ میں تحریک انصاف اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن پر عائد کئے گئے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات بے بنیاد قرار دیئے گئے۔ عمران خان نے اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا اور خودمختار الیکشن کمیشن کے تقاضے میں شدت پیدا کر دی۔ اس بنیاد پر موجودہ اسمبلی میں خودمختار الیکشن کمیشن کیلئے دوبارہ آئینی ترمیم کی گئی اور حکومت اور اپوزیشن کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر کی آئینی شق منظور کی۔
دو ماہ قبل جب الیکشن کمیشن کے ارکان کی آئینی میعاد پوری ہوئی تو نئی آئینی شق کے تحت الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کے تقرر کیلئے حکومت اور اپوزیشن کی پارلیمانی پارٹیوں کی مشاورت سے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی گئی’ اسکے باوجود عمران خان انتخابی عمل پر معترض رہے اور ساتھ ہی ساتھ الیکشن کمیشن کی خودمختاری کو بھی چیلنج کرتے رہے۔ چونکہ الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کے تقرر کیلئے متعلقہ آئینی شق میں متعین کیا گیا وقت گزشتہ روز ختم ہو رہا تھا اور سپریم کورٹ کی رولنگ بھی موجود تھی کہ مقررہ آئینی میعاد کے اندر اندر الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر کردیا جائے۔بصورت دیگر الیکشن کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس آئینی تقاضے کے تحت حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے دونوں جانب سے آنیوالے 12, 12 ناموں کا جائزہ لے کر ان میں سے الیکشن کمیشن کے ارکان کیلئے چار ناموں کی منظور دی جبکہ اب عمران خان تقرر پانے والوں میں سے بھی دو ارکان پر معترض ہیں اور ان ارکان پر اے این پی نے بھی اعتراض اٹھایا ہے کہ ان ناموں پر اسکے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی۔
اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ متذکرہ اپوزیشن جماعتیں الیکشن کمیشن پر بلیم گیم کی سیاست برقرار رکھنا چاہتی ہیں تاکہ آئندہ انتخابات میں بھی شکست سے دوچار ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن اور حکومت پر انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی گنجائش نکالی جاسکے۔ اس سیاست کی بنیاد پر تو عمران خان اور تنقید برائے تنقید کی سیاست کرنیوالے دوسرے اپوزیشن لیڈران کو کوئی بھی الیکشن کمیشن قابل قبول نہیں ہوگا اور اس طرح افراتفری کی سیاست میں جمہوریت کا مردہ خراب ہوتا رہے گا۔ عمران خان چونکہ 7اگست سے دوبارہ حکومت مخالف تحریک چلانے کا عندیہ دے چکے ہیں اور اب تحریک انصاف نے وزیراعظم میاں نوازشریف اور انکے اہل خانہ کیخلاف نیب میں کرپشن کے الزامات کے تحت ریفرنس بھی دائر کردیا ہے اس لئے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ خودمختار الیکشن کمیشن کے حوالے سے انتخابی اصلاحات میں ہرگز سنجیدہ نہیں اور حکومت پر کرپشن اور دھاندلیوں کا ملبہ ڈالے رکھنا چاہتے ہیں۔
اسی بنیاد پر ان کا پانامہ لیکس کے حوالے سے قائم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ماتحت جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر بھی اتفاق نہیں ہوا اور وہ اسے ایشو بنا کر حکومت کیخلاف دوبارہ سڑکوں پر آنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اب انکی جانب سے ایسا ہی طرزعمل الیکشن کمیشن کے آئینی طریقہ کار کے مطابق منتخب کئے گئے ارکان کے حوالے سے بھی اختیار کیا جارہا ہے جو سسٹم کی اصلاح کے نکتہ¿ نظر سے تعمیری سیاست کے ہرگز زمرے میں نہیں آتا۔ اگر وہ انتشار کی سیاست کا راستہ ہی اختیار کئے رکھیں گے تو اس سے جمہوریت کبھی مستحکم ہو پائے گی نہ اسکے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں گے۔ وہ فی الواقع سسٹم کی اصلاح اور جمہوریت کا استحکام چاہتے ہیں تو انہیں ایسی سیاست سے بہرصورت اجتناب کرنا ہوگا جس سے جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا راستہ ہموار ہوتا ہو۔ اگر سیاست دانوں کی آپس کی چھینا جھپٹی سے اقتدار کی بوٹی پھر کسی ماورائے آئین اقدام والے کے ہاتھ آگئی تو پھر باہم دست و گریباں سیاست دانوں کو بحالی ¿ جمہوریت کی طویل جدوجہد کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ اس صورت میں ماورائے آئین اقتدار کا راستہ دوبارہ نکالنے کی بھی انہی پر ذمہ داری عائد ہوگی۔
تحریر : محمد اشفاق راجا